Monday, October 23, 2017

بے وجہ کوئی ذکر محبت نہیں کرتا

غزل


بے وجہ کوئی ذکر محبت نہیں کرتا 


بے وجہ کوئی ذکر محبت نہیں کرتا 
دل چوٹ نہ کھائے تو عداوت نہیں کرتا

 بس دل کی لگی ہے مجھے اس شوخ ادا سے
 چاہا ہے اسے میں نے عبادت نہیں کرتا

 آنکھوں سے بتا دیتا ہوں میں اپنی محبت
 الفت کو کبھی رقم عبارت نہیں کرتا

 بے پردگی کیا کم ہے کہ انداز خرام اور
 ظالم دل آدم کی رعایت نہیں کرتا

 افشا نہ کیا راز محبت کبھی میں نے
 اس واسطے محفل میں ندامت نہیں کرتا

 بروقت ملا لیتا ہوں آنکھیں تو میں ان سے 
لیکن میں تکلم کی جسارت نہیں کرتا

 اصرار سے میرے نہیں اس پر ہے اثر کچھ 
اک پل بھی کبھی میری رفاقت نہیں کرتا

 غیروں پہ کرم ہوتے ہیں دن رات ہی اسکے 
پر مجھ پہ کبھی نظر عنایت نہیں کرتا

 مرے دل کے تمنائیں تو سب خاک ہوئی ہیں
 میں ان سے تغافل کی شکایت نہیں کرتا

 محسنؔ مرا انداز تکلم بھی عجب ہے
 دشمن بھی مرا مجھ سے رقابت نہیں کرتا


مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=30245

غزل


دل  میں جب غم کی بہار آئی تو رونا آیا 


دل  میں جب غم کی بہار آئی تو رونا آیا 
یاد جب انکی بہت آئی تو رونا آیا

 اشک دشمن کی بھی آنکھوں سے نکل آتے 
ہیں حال جس نے بھی سنا میرا تو رونا آیا 

انکی یادوں نے مرا ساتھ نہ چھوڑا  اب تک
 جب کوئی شام حسیں آئی تو رونا آیا

 میں نے صہباء محبت کبھی پی تھی یاروں 
آج ساقی نے دیا کوزہ تو رونا آیا 

وقت کی پیاس تو غیروں سے کی پوری محسنؔ
 زندگی میں جو خوشی آئی تو رونا آیا


مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=30341

Saturday, October 21, 2017

نوبل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ کی ناول نگاری: ایک جائزہ

نجیب محفوظ جدید عربی ادب کے ان اساطین ــثلاثہ میں سے ایک ہیں جنہوں نے عربی میں نو وارد ادبی اصناف کو بام عروج پر پہونچایا۔ اگر توفیق حکیم نے عربی ڈرامے کو اور محمود تیمور نے عربی افسانے کو بین الاقوامی معیار دیا تو نجیب محفوظ نے عربی ناول کو آفاقیت عطا کی اور اسے عالمی وقار بخشا، اور اس لایٔق بنایا کی وہ دور جدید کی ترقی یافتہ زبانوں کے ناولوں کے مقابلہ میں اپنی قدروقیمت ثابت کر سکے اور اپنے وجود کا احساس کرا سکے۔ ناول نگاری کے میدان میں نجیب محفوظ کے قدم رکھنے سے دو دہایٔ قبل ہی فنی ناول نگاری کا آغاز ہو چکا تھا اور عربی ناول بازیچہ کے مرحلہ سے نکل کر شباب کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔محمد حسین ھیکل کے ناول ’زینب‘ (1913) سے اصل معنوں میں عربی میں فنی ناول کی بنیاد پڑی جس کے اوپر مازنی نے ’ابراہیم الکاتب‘(1931) ، توفیق الحکیم نے ’عودۃ الروح‘ (1933) اور عباس محمود العقاد نے ’سارہ‘ کے ذریعہ فنی ناول نگاری کی فلک بوس عمارت تعمیر کرنی شروع کی جسکو تکمیل تک نجیب محفوظ نے پہونچایا۔ نجیب محفوظ قاہرہ کے ایک محلہ الجمالیہ میں 1911 میں پیدا ہویٔے، اور جامعہ قاہرہ سے فلسفہ میں لیسانس کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے دوران تعلیم ہی لکھنا اور سلامہ موسی کی میگزین ’المجلہ الجدیدہ‘ میں چھپوانا شروع کر دیا،انکے ابتدایٔ مضامین فلسفہ اور تصورات کی تاریخ پر ہوتے تھے، اسکے بعد انہوں نے مختصر افسانے بھی لکھنے شروح کیٔے اور آخر کار ناول کی طرت متوجہ ہویٔے۔ انہوں نے ایک ناول نگار کی حیثیت سے اپنے کیریٔر کی شروعات ایسے وقت میں کی جب پورے عالم عرب میں قومیت کا نعرہ اپنے شدو مد کے ساتھ گونج رہا تھا، اور دور حاضر کی تاریکی سے راہ فرار اختیار کر کے عظمت رفتہ کی یادوں میں پناہ لینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔محفوظ کے ابتدایٔ تین ناول اسی عام رجحان کو پیش کرتے ہیں، کیونکہ تینوں کے پلاٹ قدیم مصر کی فرعونی تاریخ پر مبنی ہیں۔پہلا ناول ’عبث الاقدار‘ مصری قومیت میں فرعونی لہر کے سب سے بڑے داعی سلامہ موسی کی میگزین ’المجلہ الجدیدہ‘ کے خاص نمبر کے طور پر 1939 میں منظر عام پر آیا۔دوسرا ناول ’کفاح طیبہ‘ محفوظ کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کونکہ اسکا نام ان پانچ عمدہ ترین ناولوں کی فہرست میں تھا جنہیں مصری وزارت تعلیم کی عربی اکیڈمی نے 1941 میں ناول کے ایک مسابقہ کے نتیجہ میں منتخب کیا تھا۔اور نجیب محفوظ کا تیسرا ناول ’رادوبیس‘ 1943 میںچھپ کر شائع ہوا۔ محفوظ کے یہ تینوں ناول گرچہ تاریخی نوعیت کے ہیں مگر وہ ایک عبقری ناول نگار کے ابھر کر سامنے آنے پر صاف دلالت کرتے ہیں، اس لئے کہ ان ناولوں میں انہوں نے تاریخ کے سہارے موجودہ معاشرہ پر نقد و تبصرہ کیا ہے اور ماضی کے حادثات کے ذریعہ حال پر روشنی ڈالی ہے، بقول ایم ایم بدوی ’’ ان ناولوں میں قدیم مصری تاریخ کی خیالی تعمیر سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ محفوظ نے فرعونی سٹنگ کو معاصر مصر کے سماجی و سیاسی حالات پر تبصرے کے لئے ایک آلہء کار کے طور پر استعمال کیا ہے، جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔انہوں نے کفاح طیبہ میں خارجی عناصر یعنی انگریزی استعمار کے خلاف قومی غم و غصے کا اظہار کیا ہے جبکہ ’رادوبیس‘ میں خدیو مصر شاہ فاروق کے ظلم وستم پر تنقید کی ہے۔‘‘ ’رادوبیس‘ نجیب محفوظ کے تاریخی سلسلہ کی آخری کڑی ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد انہوں نے قدیم مصر کی تاریخ کو ناول کی شکل میں پیش کرنے کا جو طویل منصوبہ بنایا تھا اسے ترک کر دیا اور تاریخ کے بجائے دور حاضرکو اپناموضوع بنایا، اپنے ناولوں کے پلاٹ مصر کی جیتی جاگتی زندگی سے اخذ کئے اور کئی ناولوں کو قاہرہ کی حقیقی گلیوں کے نام موسوم کیا۔ محفوظ کی تخلیقات کے اس نئے دور کا آغاز انکے چوتھے ناول ’خان الخلیلی‘ سے ہوتا ہے جو 1945 میں شائع ہوا اور جس کے بعد پے در پے سات ناول منظر عام پر آئے، خان الخلیلی 1945، القاہرۃ الجدیدۃ 1946، زقاق المدق 1947، السراب 1949، بدایۃ ونہایۃ 1951، اور تین ناولوں کا مجموعہ’’ ثلاثیۃ‘‘57۔1956۔ یہ ناول مصر کے متوسط طبقہ کی روز مرہ کی زندگی اور مصائب و آلام کے آئینہ دار ہیں، اور انکے ذریعہ نجیب محفوظ عربی میں ایک حقیقت پسند( (Realisticاور ماہر ناول نگار کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ باستثناء ’السراب‘ جو کہ مصر کے اعلی متوسط طبقے کی جنسی مشکلات کی سطحی نفسیاتی تحلیل ہے،دیگر ناولیں دوسری جنگ عظیم کے وقت اور اس سے پہلے کے مصر کی عام زندگی کو پیش کرتی ہیں۔مثال کے طور پر ’ خان الخلیلی‘ متوسط طبقے کے ایک ایسے حساس گھرانہ کی تصویر پیش کرتا ہے جو اپنی قربانیوں کے باوجود مایوسی کے غار میں جا پڑا ہے اور اپنی غربت کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔القاہرۃ الجدیدۃ فلسفہ سے گریجوشن کرنے والے تین ایسے نو جوانوں کی زندگی کو پیش کرتا ہے جو مصر کے اس وقت کے میلانات و رجحانات کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ تینوں کے رجحانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، علی طہ ایک سیکولر اور لبرل انسان ہے جو سماج اور سائنس میں یقین رکھتا ہے،مامون ایک مخلص مسلمان ہے، جبکہ تیسرا شخص محجوب عبد الدائم جو کہ ناول کا مرکزی کردار ہے ایک خود غرض قسم کا انسان ہے ۔ زقاق المدق کا شمار محفوظ کے عمدہ ترین ناولوں میں ہوتا ہے۔اسکا پلاـٹ خان الخلیلی کی طرح قاہرہ کے ایک محلے کی آبادی کی روز مرہ کی زندگی پر مبنی ہے۔اس میں مختلف کرداروں کی رنگ برنگی تصویریں پیش کی گئی ہیں اور انکی زندگی کے متضاد پہلووں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔اس ناول کا پلاٹ مصری سماج کے اوپر باہری اثرات اور مصر کے اندر موجود برطانوی استعماری فوج کے تباہ کن اثر کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ ْبدایہ ونہایہ‘ میں ایک ایسے متوسط درجہ کے گھرانے کو پیش کیا گیا ہے جو اپنے اک لوتے کمانے والے کی اچانک موت کی وجہ سے ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔اس پریوار میں ایک بیوہ تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے، بیوہ اپنی مختصر سی پنشن سے گھر کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔بڑا لڑکا حسن جو مستقبل میں ایک سنگربننا چاہتاتھا مجرمانہ کام میں ملوث ہو جاتا ہے اور ایک طوائف کے ساتھ رہنے لگتا ہے، جبکہ دوسرا لڑکا اپنی پڑھائی ترک کر کے فیملی کی اقتصادی حالت کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے چھوٹے بھائی کو پڑھاکر ایک فوجی افسر بناتا ہے۔سادہ سی دکھنے والی لڑکی نفیسہ محلے کے سبزی فروش کے لڑکے سے غلط تعلقات قائم کر بیٹھتی ہے جس کے بعد اپنے قوی جنسی میلانات کی وجہ سے جسم فروشی کا پیشہ کرنے لگتی ہے۔اس ناول کا انجام بڑا غمناک ہے۔حسن پولیس کے ہاتھ اس حالت میں لگتا ہے کہ وہ زخموں سے چور چور ہے اور اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے، نفیسہ سکاکین کے محلے میں طوائف کے ایک کوٹھے سے برآمد ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں حسن رسوائی برداشت نہیں کر پاتا اور اسے نیل میں دھکیل دیتا ہے اور اسکے ساتھ خود بھی اس میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ اس سلسلہ کے آخری تین ناول بین القصرین، قصر الشوق اور السکریہ ہیں جو1956۔1957 کے درمیان الگ الگ حصوں میں شائع ہوئے اور ثلاثیہ کے نام سے معروف ہوئے اس لئے کہ ان تینوں ناولوں کے پلاٹ ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ثلاثیہ عربی زبان میں اپنی نوع کی پہلی کوشش تھی اور اس میں محفوظ کا حقیقت پسندانہ فن اپنی انتہا کو پہونچا۔ان تینوں ناولوں کے نام قدیم قاہرہ کی حقیقی گلیوں کے نام پر رکھے گئے ہیں جہاں ان کے کرداروں کو آباد دکھایا گیا ہے۔ثلاثیہ میں ایک متوسط طبقہ کی فیملی کی تین نسلوں کو پیش کیا گیا ہے،اور اس کی شروعات 1971 میں اس وقت ہوتی ہے جب عرب قومیت کی شروعات ہو چکی تھی۔ یہ1991 کے انقلاب میں اپنے عروج کو پہونچتی ہے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران 1944 میں اپنی انتہا کو پہونچتی ہے۔ ثلاثیہ کا پہلا ناول بین القصرین 1956 میں منظر عام پر آیا، اسکے اہم ترین کردار ہیں احمد عبد الجواد جو درمیانی عمر کے ایک تاجر ہیں،انکی اہلیہ آمنہ جو ایک وفادار گھریلو خاتون ہیں، انکے دو لڑکے فہمی (عمر18) اور کامل (عمر 12)،دو لڑکیاں خدیجہ (عمر 20) اور عائشہ (عمر16)۔ان کے علاوہ عبد الجواد کے ایک اور لڑکا یسین ہے جو انکی دوسری بیوی سے ہے، اور جس کے پیدا ہونے سے قبل ہی اسکی ماں کو طلاق ہو گئی تھی۔اس ناول میں احمد عبد الجواد کی دو متضاد تصویریں پیش کی گئی ہیں، ایک طرف تو گھر میں وہ ایک ڈکٹیٹر کی طرح رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ سب اس کے تئیں فرمانبردار رہیں اور شرافت کی حدود پار نہ کریں، دوسری طرف وہ باہر کی زندگی میںعورت اور شراب وکباب کا رسیا ہے، اور اپنی شامیں اپنے چند دوستوں کے ساتھ اسی طرح کی مشغولیات میں گزارتا ہے۔اس ناول کے درمیان دونوں لڑکیوں کی شادی ہو جاتی ہے اور وہ السکریہ محلے میں واقع اپنے شوہروں کے مکانوں میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ یسین کی غلط عادتوں کی وجہ سے عبد الجواد اپنے ایک دوست کی لڑکی سے اسکی شادی کر دیتے ہیںمگر وہ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا جس کے نتیجہ میں لڑکی اپنے والدین کے گھر بھاگ جاتی ہے اور آخر کار طلاق لے لیتی ہے ،اور یسین اپنی ماں کے انتقال کے بعد وراثت میں ملنے والے اپنی ماں کے گھر قصر الشوق میں منتقل ہو جاتا ہے۔فہمی جو کہ قانون کا طالب علم ہے اپنے والد کی مرضی کے خلاف قومی سیاست میں ملوث ہو جاتا ہے اور پر امن طریقے پر احتجاج کرتے ہوئے برطانوی فوج کی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے اور اسکی موت کے ساتھ ناول اپنے اختتام کو پہونچتا ہے۔ ثلاثیہ کے دوسرے ناول قصر الشوق کی شروعات فہمی کی موت کے چار سال بعد ہوتی ہے ۔فہمی کی موت کی وجہ سے گھر کا ماحول ابھی تک غمناک تھا، عبد الجواد نے شراب اور عورت سے توبہ کرلی تھی مگر زیادہ دنوں تک اس پر قائم نہ رہ سکا اور اپنے ایک پرانے یار کے اصرار پر اپنی پرانی مشغولیات پھر سے شروح کر دیں۔یسین ابھی بھی اپنی پہلی روش پر برقرار تھا اور دوبارہ شادی کر کے طلاق دے چکا تھا اور پھر ایک ایسی عورت سے شادی کر لی جسکے تعلقات اسکے والد سے رہ چکے تھے۔کمال اب ایک نوجوان شخص ہے،وہ دانشمند ہے اور ایک رائٹر بننا چاہتا ہے۔اسکی عقلی اور روحانی نشونمابشمول مذہبی بیزاری قصر الشوق اور السکریہ کی اہم ترین تھیم(theme) ہے۔ثلاثیہ کے اس دوسرے جزء کا خاتمہ ٹائفائڈ کی وباء کے سبب عائشہ کے شوہر اور بچوں کے انتقال سے ہوتا ہے۔ ثلاثیہ کا آخری جزء 1935 سے لیکر 1944 تک کے عرصہ پر محیط ہے اور اس میں تیسری نسل پر توجہ مبذول کی گئی ہے۔احمد عبد الجواد اب زندگی کے آخری مرحلے میں ہیںاور آخر کار قاہرہ پرایک ہوائی حملے کے دوران دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انکا انتقال ہو جاتا ہے۔۔آمنہ ابھی تک اپنے مرحوم بیٹے کے غم میں مبتلا ہے ،کمال ایک اسکول ٹیچر بن گیا ہے اور اقتصادی طور پر ایک مطمئن زندگی گزار رہا ہے مگر اپنی ناکام محبت کے غم سے ابھی تک ابر نہیں پایا ہے۔یسین کا لڑکا ایک سیاست داں بن گیا ہے جبکہ خدیجہ کے دو لڑکے ایک دوسرے سے بالکل مختلف آیٔڈیولوجی کے پیرو ہیں، ایک اخوان المسلمین کا ممبر ہے تو دوسرا کمیونسٹ بن گیا ہے۔ناول کا خاتمہ عائشہ کی بیٹی کی درد زہ میں موت اور اخوان المسلمین اور کمیونسٹوں کی سیاست کے لئے جاری کوششوں پرہوتا ہے۔ ثلاثیہ کے بعد محفوظ کے یہاں ایک طویل خاموشی اور تخلیقی ـٹھہرائو نظر آتا ہے اور اگلے پانچ سال کے وقفہ میں ان کی کوئی بھی کاوش منظر عام پر نہیں آئی جبکہ اس سے پہلے ناولوں کا ایک پے در پے سلسلہ جاری تھا۔جب بعد میں ان سے اس طویل خاموشی کا راز دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا ’’مصر میںناصر کے انقلاب اور خدیو بادشاہت کے خاتمہ کے بعد حکومت پر نقد کرنے کے لئے ان کے نزدیک کچھ نہیں بچا تھا۔‘‘مگرانقلاب کے بعدپانچ سال کا یہ عرصہ لوگوں کی توقعات پر پورا نہ اترا، بادشاہت ختم ہو گئی تھی مگر اسکی جگہ اس سے بھی بد تر ڈکٹیٹرشپ نے لے لی تھی۔انقلاب کے بعد کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے نجیب محفوظ خود ایک انٹرویو میں کہتے ہیں ’’ناصر کے زمانہ میں ہمیں دیواروں سے بھی ڈر لگتا تھا، ہم قہوہ خانہ میں بیٹھتے تھے مگر بات کرنے سے ڈرتے تھے۔‘‘ بہر حال انقلاب کے بعد مصر میں جس خوشگوار مستقبل اور خوشکن حالات کی امید تھی وہ پوری نہ ہوئی اور نجیب محفوظ نے پھر سے اپنی تخلیقی مشغولیات کا آغاز کیا۔ پانچ سال کے وقفہ کے بعد نجیب محفوظ کا اگلا ناول’’ اولاد حارتنا‘‘ کے نام سے 1959 میں قاہرہ کے بجائے بیروت سے شائع ہوا اور اپنے ساتھ بہت سارے تنازعات لے کر آیا ۔یہ عربی کے چند مجازی ناولوں میں سے ایک ہے اور اس میںہر طرف سے نا امید انسان کو خدا کی تلاش میں سرگرداں دکھایا گیا ہے۔اس ناول کے حادثات قاہرہ ہی میں پیش آتے ہیں مگر دوسرے ناولوں کے برخلاف اس میںوقت متعین نہیں کیا گیا ہے اس لئے کہ اس میں آدم علیہ السلام سے لیکر آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور عصر حاضر تک پوری انسانی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔مزید برآں یہ کہ اس ناول کوقرآن کی سورتوں کی طرح 114 فصلوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو کسی بھی صورت میں محض ایک اتفاق نہیں ہو سکتا۔جب نجیب محفوظ سے ایک انٹرویو میں اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’’میں اس ناول سے یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ معاشرہ میں سائنس کا ایک مقام ہے بالکل ویسے ہی جیسے ایک نئے مذہب کا ہوتا ہے، اور سائنس اور مذہب میں کوئی ٹکرائو نہیں ہوتا۔میں قارئین کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہ رہا تھا کہ سائنس کو رد کرنے کا مطلب عام آدمی کو رد کرنا ہے، لیکن بدقسمتی سے جو لوگ افسانہ کے مطالعہ سے ناآشنا ہیںانہوں نے اسکی غلط تاویل کی ۔‘‘ محفوظ کا اگلا ناول جو ’’اللص و الکلاب‘‘ کے نام سے 1941 میں شائع ہوا محفوظ کے تخلیقی سفر میں ایک نئے مرحلے کی شروعات کرتا ہے۔ اس ناول سے نسبۃ ایسے مختصر ناولوں کا آغاز ہوتا ہے جن میں ایک کردار پر توجہ مبذول کی گئی ہے، اور ان میں شعور کی رو، داخلی مونولوگ، فلیش بیک جیسی تکنیک کا خاص طور سے استعمال کیا گیا ہے۔ ان ناولوں میں ناصر کے انقلاب کے بعد کے مصر کی پردہ دری کی گئی ہے اور اس انقلاب سے سماجی انصاف کے تئیں مصری دانشمندوں کی جو توقعات وابستہ تھیں ان کے نہ پورا ہونے کی صورت میں ان کے اندر پیدا ہونے والی مایوسی،اور احساس محرومی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ’اللص و الکلاب‘‘ کے علاوہ جو دیگر ناولیں اس ضمن میں آتی ہیں ان کے نام ہیں السمان والخریف (1942)،الطارق (1964)، الشحاذ (1965)، ثرثرۃ فوق النیل (1966)، میرامار (1967)۔ 1967 میں اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی جو شرمناک شکست ہوئی اسکا اثر لازمی طور پر محفوظ پر بھی پڑا اور تقریبا اگلے تین چار سال تک انہوں نے کوئی ناول تخلیق نہیں کی البتہ چند مختصر افسانے ضرور منظر عام پر آئے۔ 1972 میں اپنے ناول ’’المرایا ‘‘سے انہوں نے ایک نئے مرحلے کی شروعات کی اور انکے تقریبا بیس ناول منظر عام پر آئے جن میں الکرنک(1974)، حضرۃ المحترم(1975)،ا ور ملحمۃ الحرافیش (1977)، خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔الکرنک میں انہوں نے پولیس کی ظلم و زیادتی پر نقدو تبصرہ ہے، تو حضرۃ المحترم میںرشوت زدہ نظام حکومت میں ایک سول سروینٹ کے ترقی حاصل کرنے کی کوششوں کو پیش کیا گیا ہے۔محفوظ کے آخری ناولوں کو پڑہنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ محفوظ کی ذاتی زندگی کی طرح محفوظ کا فن بھی اپنے شباب کے دن گزار کر بڑھاپے میں قدم رکھ رہا ہے کیوں کہ ان میں تخلیقی قوت و تخیل اور اصالت و حرارت کی کمی واضح طور پر نظر آتی ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ بعض ناول مصر میں پیش آنے والے واقعات کی تشریح کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ ان میں نہ تو تخیل کی وہ بلند پروازی ہے اور نہ ہی اس تخلیقی قوت کا اظہار جو پہلے کے ناولوں کا خاصہ تھی۔ اس مقالہ کی تیاری میں مندرجہ ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے: 1۔ المرعی، فواد، فی تاریخ الادب الحدیث، مدیریۃ الکتب و المطبوعات الجامعیۃ،الاسکندریۃ،1998(صفحہ 297 تا 309) 2۔ Badawi, M.M., A Short History of Modern Arabic Literature, Clarendon Press, Oxford, 1993(pare no. 131 to 150) 3۔El Shabrawy,Charlotte, Naguib Mahouz, The Art of Fiction, The Paris Review, Summer 1992, Link:http://www.theparisreview.org/interviews/2062/the-art-of-fiction-no-129-naguib-mahfouz

Thursday, October 19, 2017

کسی کے عشق میں بدنام کیوں ہو

غزل


کسی کے عشق میں بدنام کیوں ہو


کسی کے عشق میں بدنام کیوں ہو
 انھیں کے بعد میرا نام کیوں ہو

 ملیں بدنامیاں دنیا میں مجھ کو 
مرے ہاتھوں سے ایسا کام کیوں ہو

 اگر ان کو نہیں مجھ سے محبت 
 تو پھر برباد میری شام کیوں ہو

 ہیں ورقوں پر بہت قصے فسانے
 مرا ہی اک فسانہ عام کیوں ہو 

 جہان رنگ و بو میں ہے بہت کچھ 
 برا الفت کا ہی انجام کیوں ہو

 ہیں کتنے حسن کے پیکر جہاں میں
 انھیں کا رخ ہی پھر گلفام کیوں ہو

 انھیں محسن ؔمیں ایسے ہی بھلا دوں
 مرے ہاتھوں میں کوئی جام کیوں ہو

 مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=29989

مریض عشق راتوں بھرسدا کروٹ بدلتے ہیں



غزل


مریض عشق راتوں بھرسدا کروٹ بدلتے ہیں


مریض عشق راتوں بھرسدا کروٹ بدلتے ہیں
 بس ایک محبوب کی چاہت میں پوری شب مچلتے ہیں

 حیات عشق کا حاصل یہی ملتا ہے الفت میں
 نگاہیں شوق دید یار میں راہوں پہ رکھتے ہیں

 نہ سمجھو تم اسے وعدہ خلافی ہے ادا انکی
 چلے آنے کا وعدہ کرکے وعدے سے مکرتے ہیں

 جو پو چھو چاند کے بارے میں کب کیسے نکلتا ہے
 بہ انداز اداء شوخ زلف رخ جھٹکتے ہیں

 خطا الفت کی جو کرتے ہیں دنیا میں وہی اکثر
 شب ہجراں بہ رنج دل وہ چھپ چھپ کر سسکتے ہیں

 کہانی عشق والوں کی بس اتنی سی ہے ائے محسنؔ 
 وہ اشک چشم گریاں سے سدا تکیہ بھگوتے ہیں

 مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=30143

کاش انہیں سمجھ آجاے!

خانئہ کعبہ اور مسجد نبوی کی خدمت ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے سعودی حکومت کا قددیگر مسلم ممالک سے بلند سمجھا جاتا ہے اور اس سے نہ صرف دین کے تعلق سے بلکہ سیاست میدان میں بھی قیاد ت کی امید کی جاتی ہے، ایسی قیادت جو علاقائی رسہ کشی سے بہت اوپر ہو، اور جس میں دوسرے ممالک کے لئے بھائی چارگی کا جذبہ شامل ہو، اور جو کسی بھی ملک کے داخلی معاملات اور خارجہ پالیسیوں سے بہت اوپر ہو۔ مگر افسوس، کہ سیاست کے میدان میں سعودی حکام کی نا عاقبت انددیشانہ وبچکانہ حرکتوں نے عام مسلمانوں کو ان سے بیزار کر دیا ہے۔ وہ عالمی سیاست میں ایک قائدانہ کردار ادا کرنے کے بجائے حقیر علاقائی رہبری کے لئے کوشاں ہیں ۔اسلام اور مسلمانوں کے اصل دشمن اسرائیل سے نبرد آزما ہونے کے بجائے اپنے پڑوسیوں سے دست و گریباں ہیں۔ حق تو یہ تھا کہ مصر میں عوام الناس کی طرفداری کی جاتی اور سینکڑوں جانوں کی قربانیوں کے بعدجمہوری حکومت کے قیام کا جو خواب شرمندئہ تعبیر ہوا تھا اسکی پاسبانی کی کوشش کی جاتی، مگر اسکے برعکس عوام الناس کی منتخب کی ہوئی حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا اور اور تخت و سلطنت کے حصول میں ایک ایسے شخص کی مدد کی گئی جس نے لوگوں سے ان کے بنیادی حقوق چھین لئے۔ فرض تو یہ بنتا تھا کہ اگر پڑوس میں کوئی ننگا بھوکا ہو تو اسکے کھانے پہننے کا انتظام کیا جائے مگر اس کے بر عکس اپنے برادرزادوں کے گرد زبردستی ایک ایسا حصار کھینچ دیا گیا کہ انہیں دوسروں کا دست نگر بننا پڑے، اور وہ بھی صرف اس لئے کہ اپنی چند بے جا اور بچکانہ مانگوں کو منوایا جا سکے، یقینا یہ نا صرف ایک غیر اخلاقی بلکہ غیر انسانی حرکت ہے اور خانئہ کعبہ کے خدمتگاروں سے تو اسکی قطعی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ خانہ جنگی میں مبتلا ایک پڑوسی ملک کو اشیاء خوردونوش کی ضرورت تھی نہ کہ بموں اور ٹینکوں کہ۔ لوگ بھکمری کا شکار ہو رہے ہیں اور عالمی تنظیمیں اسے ایک بڑا نسانی المیہ قرار دے چکی ہیں مگر کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور بم برسانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ وقفہ وقفہ سے آج بھی بدستورجاری ہے، گویا نہ تو اخوت کا کوئی پاس ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کا کوئی لحاظ۔ نہ شام کے المیہ سے آنکھ کھلی ہے نہ صومالیہ کی بربادی سے، نہ افغانستان کے بحران سے کچھ سمجھ آیا ہے نہ ہی لیبیا کی تباہی سے، بلکہ قطر کے خلاف ایک نیا محاذ کھول کر ایک اور المیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی جو نہ صرف اس خاص علاقے کے امن وسکون کے لئے خطرناک ہے بلکہ خود سعود ی حکومت کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ امت مسلمہ پھر بھی پر امید ہے کہ شاید یہ تاریک دور گذر جائے اور خانئہ کعبہ کے خدمتگاروں کے اندر شعور پیدا ہو جائے، شاید صواب رائے کی کچھ صورت نظر آئے اور تنگ نظری کی جگہ ان کے اندر آفاقیت پیدا ہو جائے۔شاید انہیں سمجھ آجائے کہ انہیں علاقائی سیادت کے بجائے عالمی قیادت کے لئے تگ ودو کرنے کی ضرورت ہے، انہیں قطع رحمی نہیں بلکہ صلہ رحمی کا سبق دیناچاہئے، انہیں اپنی حکومت کے بھکت نہیں بلکہ اسلام کے پیروکاروں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرنا چاہئے، خود اپنے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کے بجائے دیگر مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی پاسبانی کے لئے کوشاں ہونا چاہئے، ایک نیا بحران کھڑا کرنے کے بجائے المیہ زدہ مسلم ممالک کو المیہ سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔امت مسلمہ آج بھی پر امید نظروں سے انکی طرف دیکھ رہی ہے کہ شاید انہیں سمجھ آجائے کہ انہیں غیروں کا پٹھو بننے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے،بوسیدہ اسلحے خریدنے کے بجائے خود ساخت کرنے کے ضرورت ہے،امت کے لئے نئے المیے کھڑے کرنے کے بجائے اسے درپیش المیوں سے نکالنے کی ضرورت ہے، کاش انہیں سمجھ آ جائے۔ http://mazameen.com/muslim-world/%DA%A9%D8%A7%D8%B4-%D8%A7%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D9%85%D8%AC%DA%BE-%D8%A7%D9%93%D8%AC%D8%A7%DB%92.html">

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...