Thursday, November 30, 2017

نعت رسول: چلی باد صبا راہ مدینہ



نعت رسول

چلی باد  صبا  راہ  مدینہ 

جہاں  ٹھہرا محمد کا سفینہ

 صدا گونجی ھو اللہ احد کی 
مٹادنیا سے ظلموں کا قرینہ

 انہیں کے در سے ہے مجھ کو محبت
 مجھے بھی کاش ہو دید مدینہ

 ہو دل معمور عشق مصطفی سے
 خدا کے دین سے پرنور سینہ

 کئے اتنے گنہ ہم نے جہاں میں
 کہ اب بھاتا نہین دنیا میں جینا

 نہ تو محسنؔ  غم دوراں سے گھبرا 
تجھے آقا بلائیں گے مدینہ 

مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=32423

Sunday, November 26, 2017

شیخ مبارک بودلے جائسی اور اودھ میں دعوت اسلام (آخری قسط)

شیخ مبارک بودلےؒ کے ارادت مندگان

   شیخ مبارک بودلے ؒ سے ارادت وعقیدت رکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔ ذیل میں ہم چند اہم عقیدت مندوں کا تذکرہ کریں گے، جو حضرت مبارک شاہ بودلے ؒ کی بزرگی وتبحر علمی کی وجہ سے آپ کے مرید ہوگئے تھے، اور اس کے بعد سے آپ کی اولاد سے وابستہ رہے۔ ۱۔ پہریمئو وبلہ کے افغانی پٹھان:  پہریمئو جائس کے جنوب مغرب میں تقریبا ستائیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اور خطہ میں مسلمانوں کی ابتدائی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے افغانی پٹھان حضرت مبارک بودلے ؒ کے اہم ارادت مندگان میں سے تھے۔ ۷۱؎  ایک روایت کے مطابق یہ پٹھان شہاب الدین غوری (1202-1206)کے ایک سپہ سالار بھیکم خان کی نسل سے ہیں، جنہیں سلون پرگنہ کی جاگیر داری دربار شاہی سے عطا ہوئی تھی، اور وہ یہیں آکر آباد ہوگئے تھے۔ چونکہ بھیکم خان کا لقب دیوان تھا اسلئے ان کی اولاد دیوان کا لقب اپنے نام کے ساتھ لگاتی رہی ہے۔ ۷۲؎ ایک دوسری روایت کے مطابق ایک فو ج نے سید رکن الدین، سید جہانگیر(رائے بریلی میں جہانگیر آباد محلہ کے بانی )، شاہ ابراہیم اورشاہ حسین کی سرکردگی میں 603ھ؁ بمطابق 1206ء؁میں سلون پرگنہ کے بھروں کو شکست دی، اور وہاں پر قابض ہوگئی۔ انہیں حضرات کے ساتھ ملک مخدوم شاہ آئے تھے جو بنورہ کے تعلقہ دار فخرالحسن کے مورث اعلی تھے، اور انہیں کے ساتھ بھیکھن خان یعنی نور الدین خاں آئے تھے جو اماون اور پہریمئو کے تعلقہ داروں کے جد اعلی تھے۔ ۷۳؎  ایک تیسری روایت کے مطابق بابر (1526-1530)کے دربار میں بیسواڑے کے ایک مظلوم راجہ نے ایک ظالم راجہ کے خلاف استغاثہ کیا جس نے اس کے راج کو جبرا غصب کر لیا تھا۔ بابر نے اس مظلوم راجہ کا حق واپس دلانے کے لئے پانچ افغانی پٹھان برادران کو متعین کیا جو مظلوم راجا کے ساتھ بیسواڑہ آئے اور ایک خونریز جنگ کے بعد ظالم راجہ کو صلح پر مجبور کیا اور مظلوم راجہ کا حق واپس دلایا۔ ریاست واپس پانے کے بعد راجہ نے پانچوں بھائیوں کو جاگیریں عطا کیں اور ان سے وہیں مستقل سکونت اختیار کرنے کی درخواست کی، اور بابر کے دربار سے بھی اس کی اجازت حاصل کرلی۔ اس طرح پانچوں بھائی پہریمئو اور بلہ میں آباد ہوئے۷۴؎ مندرجہ بالا تینوں روایتوں میں پہلی دونوں روایات واقعہ اور زمانہ کے اعتبار سے یکساں ہیں، جبکہ اشخاص کے سلسلہ میں مختلف ہیں، تیسری اور آخری روایت زمانہ کے حساب سے پہلی دو روایتوں سے مختلف ہے مگر اشخاص کے تعین کے سلسلہ میں دوسرے نمبر کی روایت کی تائید کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اصل واقعہ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جس کی وجہ سے پانچوں بھائیوں کو یہاں مستقل سکونت اختیار کرنی پڑی۔  ان تینوں روایتوں کے تذکرہ کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ  ٭        پٹھانوں کے آباد ہونے کا زمانہ شہاب الدین غوری(1202-1206)  کا عہد حکومت ہے۔ ٭       یہ پانچ بھائی تھے جو ایک مظلوم راجہ کی مدد کی خاطر آئے تھے اور ان پانچوں بھائیوں کے نام صراحتا دوسری روایت میں مذکور               ہیں۔  ٭        دوسری روایت کے مطابق ملک مخدوم شاہ بنورہ کے تعلق داران کے مورث اعلی تھے اور بھیکھن خان یعنی نور الدین خان اماون، پہریمئووبلہ کے افغان پٹھانوں کے مورث اعلی تھے۔  چونکہ ان پٹھانوں کی ریاست ایک طرف کنہپوریا راجپوتوں اور دوسری طرف بیسوں کی ریاستوں کے بیچ میں تھی اس لئے ان کو دونوں طرف سے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، البتہ بیسوں کے بمقابلہ کنہپوریا سے ان کا سامنا زیادہ رہتا تھا اور کبھی ہار تو کبھی جیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جب تلوئی کے کنہپوریا راجہ کاندھے رائے نے اپنی ریاست کی توسیع اور لوٹ مارکی غرض سے پہریمئو پر حملہ کیا تو یہاں کے پٹھان قائد معین خان نے بڑی بہادری سے مقابلہ کیا اور کاندھے رائے کو زخمی کر کے زبردست شکست دی، مگر خود بھی جام شہادت نوش کیا۔ ۷۵؎  امیٹھی کے راجہ موہن سنگھ نے اپنے عہد عروج میں 1707ء؁ میں پہریمئو کو فتح کر لیا تھا اور یہ علاقہ نوابی کے قیام تک اس کے زیرنگیں رہا۔ ۷۶؎  لکھنؤ کے نوابوں کے عہد میں پٹھانوں نے راحت کی سانس لی مگر 1857ء؁ کی جنگ آزادی کے دوران انہیں پھر مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔ انگریزی حکومت کے قیام کے بعدپہریمئو کی ریاست پھر سے ایک تعلقہ کی شکل میں ان کی ملکیت میں آگئی جو سترہ گائووں اور ایک محل پر مشتمل تھی۔ ۷۷؎ ۲۔ نواب جہاں دار خان کانکڑ:  نواب صاحب افغانی پٹھان تھے، اور حضرت مبارک بودلے ؒ کے اہم ترین ارادت مندگان میں سے تھے۔ آپ حافظ قرآن تھے اور متقی وپرہیزگار شخصیت کے مالک تھے اور ہمایوں بادشاہ کے امراء میں سے تھے۔ ہمایوں کی شکست کے بعد جب شیر شاہ مالک تخت وتاج ہوا، تو اس نے آپ کی مخالفت کی معافی کے ساتھ ساتھ آپ کے جاہ ومنصب میں اضافہ کی بھی پیشکش کی مگرآپ نے دشمن کی رفاقت کو موجب ننگ وعار اور خلاف شرافت سمجھا اور شیرشاہ کی پیشکش کو قبول نہ کیا۔ جب ہمایوں نے دوبارہ سلطنت حاصل کر لی، اور اکبر سلطنت کا مالک ہوا، تو نواب جہاں دار خاں اور ان کے بھائیوں کو وفاداری کا خوب خوب صلہ ملا اور وہ پنج ہزاری، ہفت ہزاری اور چند ہزاری کے مناصب سے سرفراز ہوئے۔  آپ کے ایک بھائی نواب موسی خان نے کالپی کے قریب موسی نگر نامی قصبہ آباد کیا، اور آپ کے ایک دوسرے بھائی کانکڑ خاں نے کڑا کے قریب کانکڑآباد بسایا۔ نواب جہاں دار خان نے رائے بریلی سے متصل مغربی جانب ایک شاہی قلعہ پختہ شہر پناہ کے ساتھ تعمیر کیا، جس میں دکان اور بازار مرتب انداز میں تعمیر کرائے۔ اس کے علاوہ آپ نے شمال کی جانب جہان آباد کا قصبہ آباد کیا، جہاں پر آپ مدفون ہوئے۔ قصبہ جائس کی جامع مسجد خانقاہ اشرفیہ جائس کا احاطہ، عید گاہ والی مسجد، اور حضرت میر عمادالدین قلچی کا مقبرہ بھی آپ ہی نے تعمیر کرایا تھا۔ ۷۸؎ ۳۔ ضلع اٹاوہ کے افغانی زمیندار:  ضلع اٹاوہ کے افغانی زمیندار گھرانہ جو اپنی شجاعت، جواں مردی اور مہمان نوازی میں مشہور تھا شیخ مبارک بودلے ؒ کا ارادت مند تھا۔ ۷۹؎ ۴۔ علمائے نگلامی :  شیخ مبارک بودلےؒ کے ارادت مندوں میں جائس کا ایک نمایاں علمی خانوادہ بھی ہے جس کے علماء ’’علماء نگلامی ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ خانوادہ جائس کے محلہ غوریانہ میں آباد تھا اور اس خاندان کے مورث اعلی حضرت شیخ نظام الدین نگلامی اپنے وقت کے ایک معروف عالم دین تھے، اور ان چالیس علماء میں سے ایک تھے  جو 561ھ ؁ بمطابق 1156ء ؁ میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے ساتھ بعہد سلطان شمس الدین التمش ہندوستان تشریف لائے تھے۔  جب خواجہ معین الدین چشتی رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ آنے واے علماء کی جماعت نے اسلام کی نشر واشاعت کی غرض سے ہندوستان کے مختلف گوشو ں کا رخ کیا تو آپ نے ہندوستان کے مشرقی حصہ کا رخ کیا اور جائس میں پہنچ کر سکونت اختیار کی۔ سلطان محمد غوری کے وزیر خواجہ مؤید الملک شیخ نگلامی کے ہم درس وہم مکتب تھے اس لئے سلطان آپ کا بھی بڑا خیال رکھتا تھا۔  آپ کی ایک تصنیف مجموعہ نظامیہ کے نام سے معروف ہے جس میں شہاب الدین محمد غوری اور خواجہ مؤید الملک کی مدح میں عربی زبان میں بہت سے اشعار ہیں۔ جہاں تک شیخ نگلامی کے حسب ونسب کا تعلق ہے تو آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے ملتا ہے۔ شیخ نگلامی کی نسل میں آگے چل کر بڑے بڑے علماء وفضلاء پیدا ہوئے جو اپنے تبحر علمی اور دراکی کے سبب دہلی سلطنت، عہد مغلیہ اور پھر برطانوی دور میں اعلی مناصب سے سرفراز ہوئے۔ ان میں چند مشاہیر کے نام اس طرح ہیں :ضیاء الدین نگلامی، ملا داؤد نگلامی، شیخ عبدالعزیز نگلامی، مولوی واصل علی خاں نگلامی اور جناب عبدالقادر خاں جائسی۔ ضیاء الدین نگلامی فیروز شاہ تغلق کے زمانہ میں بنارس کے حاکم تھے، شیخ عبدالعزیز نگلامی عہد اکبری میں اپنے علمی تبحر کی وجہ سے دربار شاہی سے منسلک تھے، ملا دائود نگلامی عہد عالمگیری کے ایک جید عالم تھے۔ مولوی واصل علی خاں اٹھارویں صدی کے جید اور صاحب تصنیف عالم گزرے ہیں۔ لارڈ وارن ہنگر کے زمانہ میں کلکتہ کے قاضی القضاۃ (Chief Justice) مقرر ہوئے اور آپ نے ’’ذخیرئہ گورنر ہنگر‘‘کے نام سے مسائل وقوانین شریعت کو ترتیب دے کر یکجا کیا، اس کے علاوہ آپ بنارس کے بھی حاکم شہر وعدالت مقرر ہوئے۔ آپ حضرت شاہ سید اشرف جہاں سجادہ نشین آستانہ اشرفی جائسی کے مرید تھے۔  واصل علی خان کے صاحبزادے عبدالقادر خان بھی ایک صاحب تصنیف عالم اور اچھے مدیر ومنتظم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ پہلے آپ اپنے والد بزرگوار کی جگہ پر بنارس کے قاضی متعین ہوئے اس کے بعد میر منشی کے عہدے پر فائز ہوئے اور جان تھامس کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا۔ انگریزی حکومت نے آپ کی دانائی کو دیکھتے ہوئے آپ کو نیپال میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا جہاں آپ نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ نیپال سے واپسی پر آپ کو مدبری کا عہدہ تفویض کیا گیااور گرانقدر تنخواہ متعین کی گئی۔ ان تمام سرگرمیوں کے باوجود آپ نے مختلف کتابیں تصنیف کیں جن میں سے تین کا پتہ چلتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں : ٭        تاریخ نیپال:یہ آپ نے نیپال میں قیام کے دوران لکھی تھی۔  ٭        حشمت کشمیر:یہ کشمیر کے تاریخ کے بیان میں ہے۔  ٭        تاریخ جائس:یہ کتاب جائس میں آبادخانوادئہ اشرفیہ کے سجادہ نشینوں کے تذکرہ میں ہے، اور اس میں انہوں نے مبارک شاہ بودلےؒ سے اپنے خاندان کی ارادت کا تذکرہ کیا ہے اور وہ خود بھی خانوادئہ اشرفیہ کے ایک سجادہ نشین جناب غفور اشرف صاحب کے مرید تھے۸۰؎۔ زیر نظر مقالہ کی تیاری میں راقم الحروف نے اس کتاب سے کافی مددلی ہے۔ خاتمہ   شیخ مبارک بودلےؒ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے، آپ کی اشاعتِ اسلام کی کاوشوں کے مختصر جائزے اور آپ کے خلفاوارادتمندگان کے بارے میں پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص آپ کی عظمت وبزرگی کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا، مگر اتنی عظیم ہستی کا اب تک پردۂ خفا میں رہنا انتہائی تعجب کی بات ہے، اور مسلم تذکرہ وسیرت نگاروں اور خود آپ کے خانوادے کے علما کی بے اعتنائی اور بے توجہی پر دلالت کرتا ہے۔ اپنی تمام کاوشوں کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں محسوس ہوتا کہ یہ مختصر کتابچہ  ا ٓپ کے کارناموں کو اجاگر کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ آپ کی زندگی پر مزید تحقیق کرنے اورآپ کے دعوتی کارناموں پر مزید روشنی ڈالنے کی ہنوز ضرورت ہے۔ حوالہ جات ۷۱؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص37 ۷۲؎          Nevill, H.R., Rai Bareli: A Gazetteer, Vol XXXIX of District Gazetteers of the United Provinces of Agra and Oudh, F. Luker, Supdt.Govt. Press, Allahabad,(1905), Page No.97 ۷۳؎   Macandrew, Major J. F., Report of the Settlement Operations of the Rai Bareli District, Oudh Government Press Lucknow,(1872), (Index K) Page No.6 ۷۴؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص39-42 ۷۵؎   Benett, W.C., A Report on the Family History of the Chief Clans of the Roy Bareilly District, the Oudh Government Press, Lucknow,(1870), Page No.29  ، ۷۶؎  ایضاً، ص ۳۹ ۷۷؎  ایضاً، ص۴۹ ۷۸؎  عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص42-44 ۷۹؎   ایضا، ص42 ۸۰؎   رضوی، زینت زہراء، جائس کے علمی وادبی خدمات، مقالہ برائے پی ایچ ڈی، شعبۂ اردو، الہ آباد یونیورسٹی، الہ آباد، 1995ء؁، ص76-84 

مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=32081

شیخ مبارک بودلے جائسی اور اودھ میں دعوت اسلام (تیسری قسط)


شیخ مبارک بودلےؒ کے خلفاء 
 شیخ مبارک بودلے ؒکے احوال وکارہائے نمایاں کے تذکرہ کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم آپ کے مشہور اور اہم ترین شاگردوں وجانشینوں کا بھی ذکر کریں اس لئے کہ آپ صرف ایک صوفی بزرگ اور داعی ہی نہ تھے بلکہ ایک متبحر عالم تھے اور خلق خدا کی ایک کثیر تعداد نے آپ سے استفادہ کیا۴۹؎۔آپ کے شاگردوں و جانشینوں میں سے چار اہم ترین شخصیات کے نام وحالات تاریخ نے محفوظ رکھے ہیں، اور وہ ہیں حضرت بندگی نظام الدین امیٹھویؒ،ملک محمد جائسیؒ، کالے پہاڑ خان اور میاں شیخ سلو نے انصاری ؒ۔ ان چاروں بزرگوں کے حالاتِ زندگی مندرجہ ذیل ہیں :  ۱۔حضرت بندگی میاں نظام الدین امیٹھوی: حضرت مبارک بودلےؒ کے پہلے خلیفہ بندگی میاں نظام الدین امیٹھوی تھے۵۰؎، جو چشتی سلسلہ کے ایک عظیم صوفی عالم وفقیہ تھے، اور شیخ سری سقطی العثمانی کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔   نظام الدین امیٹھویؒ900ھ ؁بمطابق 1494؁ء میں لکھنؤ سے مشرق میں واقع قصبہ امیٹھی کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، اور ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی۔اس کے بعد جونپور کا سفر کیا اور شیخ معروف بن عبدالواسع جونپوری کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیا، اور ایک مدت تک ان کی خدمت میں رہے، پھر مانکپور گئے اور وہاں شیخ نور بن حامد حسینی مانکپوری سے طریقت کی تعلیم حاصل کی۵۱؎۔ اس کے بعد حضرت انہوں نے شیخ مبارک بودلے ؒ سے کسب فیض کیا اور پدرانہ شفقت بھی حاصل کی اسلئے کہ حضرت مبارک بودلے ؒانہیں اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے اور کبھی کبھی ان کے وطن امیٹھی میں بھی قدم رنجہ فرماتے تھے۔۵۲؎   ایک بار شیخ مبارک بودلے ؒ، نظام الدین امیٹھویؒ سے ملاقات کی غرض سے قصبہ امیٹھی تشریف لے گئے۔جناب نظام الدین نے انتہائی تعظیم و تکریم کے ساتھ ٓاپکا استقبال کیا اور ایک فرـزند کی طرح آپکی خدمت کی جس سے آپ بہت خوش ہوئے اور اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔ایک دن جبکہ آپ خوشگوار موڈ میں تھے نظام الدین ؒ نے آپ سے درخواست کی کہ آپ اللہ تعالی سے باشندگان امیٹھی کی خوشحالی کی دعا کریں۔ آپ دعا کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ اسی وقت آپکو حضرت اشرف جہانگیر  سمنا نی ؒ کا وہ واقعہ یاد آگیا جس میں امیٹھی سے گزرتے وقت ان کو وہاں کے ایک باشندے نے تکلیف پہونچائی تھی جس کے سبب انہوں نے غصے سے امیٹھی کے حق میں کبھی آباد اور کبھی ویران رہنے کی بددعا کی تھی،چنانچہ آپ نے دعا کرنے میں تردد کیا۔نظام الدینؒ کی اہلیہ حضرت مخدومئہ جہاں، جو خود بھی ایک عبادت گزارعورت تھیں، کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو انہوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ یہ پوروہ امیٹھی قصبہ سے باہر ہے اس لئے حضرت اشرف جہانگیر سمنانیؒ کے عتاب سے خارج ہے۔نظام الدینؒ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس حقیقت کا اظہار کرنے کے بعد پھر دعا کے خواستگار ہوئے اور یہ التماس بھی کیا کہ آپ قدیم قصبہ امیٹھی اور ان کے پوروہ کے درمیان ایک حد فاصل کھینچ دیں۔ شیخ مبارک بودلےؒ کو یہ رائے بہت پسند آئی اور آپ نے اپنے عصا مبارک سے دونوں کے درمیان ایک نالی کھینچ دی اور دعا کی کہ نالی کے یہ سمت آباد رہے اور دوسری سمت ویران،چنانچہ آپ کے عصا شریف کا نشان وقت کے گزرنے کے ساتھ ایک عمیق و عریض نالے میں تبدیل ہو گیا اور آج آپکے عصا کے نام پر بعصا نالہ کے نام سے دور و نزدیک مشہور ہے۔۵۳؎   نظام الدین بندگی میاں ؒ کی پہلی شادی مخدومۂ جہاں بنت خاصہ خداصالحی سے ہوئی تھی۔آپ نے دوسری شادی درازئی عمر کے بعد شیخ عبدالرزاق کی صاحبزادی سے کی جن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے جعفر رکھا۔ پہلی بیوی مخدومہ جہاں سے آپ کے چھ لڑکے پیدا ہوئے جن کے نام یہ ہیں :عبدالجلیل، عبدالوہاب، عبدالواسع،محمد، احمداور عبدالحلیم۔ آپ کے پہلے تینوں صاحبزادے آپ کی زندگی ہی میں انتقال کر گئے تھے۔   حضرت نظام الدین علماء ربانیین میں سے تھے اور خلق کثیر نے آپ سے استفادہ کیا۔ آپ تاحیات پورے خلوص اور حسن نیت کے ساتھ زہد وعبادت وتدریس وتلقین میں مصروف رہے، اور دائمی مراقبے اور گریہ و زاری میں لگے رہے،حتی کہ آپ کو کبھی کسی نے مسجد یا گھر کے علاوہ اور کسی دوسری جگہ نہیں دیکھا، البتہ آپ کبھی کبھی شیخ نظام الدین خیر آبادی سے ملنے خیرآباد، شیخ عبدالغنی بن حسام الدین سے ملنے فتح پور اور شیخ مبارک بن شہاب سے ملنے گوپا مئو جایا کرتے تھے۔ آپ معرفت کے آثار کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے اور سلوک کے سلسلے میں احیاء العلوم، عوارف المعارف،رسالۂ مکیہ اور آداب المریدین جیسی کتابوں پر تکیہ کرتے تھے۔ آپ کی عادت تھی کہ نماز جمعہ سے قبل چار رکعت احتیاطا پڑھ لیا کرتے تھے، آپ کی خصوصیت تھی کہ آپ خطبہ میں سلاطین کا تذکرہ نہیں کرتے تھے اور شاذ ونادرہی کسی کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے۵۴؎۔آپ کی بزرگی اس قدر مشہور تھی کہ امیٹھی کو بندگی میاں کی امیٹھی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ شہنشاہ اکبر جب بنگال کو فتح کر کے واپس ہورہاتھا توامیٹھی سے گزرتے وقت آپ کی زیارت کو آیا اور آپ کو کچھ معافی زمین بھی دی تھی جو برطانوی دور میں بھی برقرار رہی اور آپ کی مزار کی دیکھ ریکھ کے لئے استعمال ہوتی تھی۔آپ کو اتنی عقیدت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے کہ علاقے سے بے دخل امیٹھیہ راجپوت بھی جب یہاں آتے ہیں تو آپ کی قبر پر چڑھاوا چڑھاتے ہیں۔ ۵۵؎   آپ 28ذی قعدہ 979ھ ؁ بمطابق 1572؁ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے اوراپنے وطن امیٹھی میں مدفون ہوئے۔ آپ کے قبر پر تردی بیگ خاں نے ایک عالی شان عمارت بنوائی، اور آپ کے عزیز دوست شیخ جنید سندیلوی نے آپ کی تاریخ وفات لکھی۔۵۶؎ ۲۔ ملک محمد جائسی :   شیخ مبارک بودلے ؒ کے دوسرے خلیفہ اودھی( ہندی)کے عظیم صوفی شاعر ملک محمد جائسی تھے جو اپنے ادبی شاہکار پدماوت کی وجہ سے ہندوستان کی ادبی تاریخ میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔ ۵۷؎  ملک محمد جائسی 900ھ؁ بمطابق1494ء؁کے آس پاس جائس میں پیداہوئے۵۸؎  اور علم ومعرفت کی تحصیل کی غرض سے ایک طویل مدت حضرت مبارک بودلےؒ کی صحبت میں گزاری۔۵۹؎  شیخ مبارک بودلےؒ سے ملک محمدجائسی کے تلمذ و بیعت کا تذکرہ تاریخ جائس کے علاوہ دیگر مصادر میں بھی ملتا ہے مثال کے طورپر نزہۃ الخواطر اور اردو انسایٔکلوپیڈیا میں ملک محمدجائسی عنوان کے تحت۔ اقبال احمد نے بھی اپنی کتاب تاریخ سلاطین شرقی اور صوفیائے جونپور میں شیخ مبارک بودلےؒ سے ملک محمدجائسی کی بیعت وارادت کا تذکرہ کیا ہے۔۶۰؎ جائسی کی صورت اچھی نہیں تھی اور انکی ایک آنکھ بھی روشنی سے عاری تھی جس کا اظہار انہوں نے پدماوت میں اس طرح کیا ہے ’’ایک آنکھ کوی محمد گنی ‘‘۔کہتے ہیں کہ جائسی ناقص الخلقت پیدا ہوئے تھے یعنی ان کا ایک طرف کا جسم مفلوج تھاچنانچہ جب وہ شیخ مبارک بودلےؒ کی خدمت میں تحصیل علم اور اکتساب معرفت کی غرض سے حاضر ہوئے تو آپ سے اپنے نقص اعضاء  اور اکتساب رزق سے اپنی عاجزی کا شکوہ کیا۔ آ پ بڑی شفقت و محبت سے پیش آئے اور فرمایا ’’ملک رنجیدہ مت ہو اور خاطر جمع رکھو،ان شاء اللہ تمہارا مقصد ریاضت و مجاہدت سے حاصل ہوگا۰۰۰۰تمہاری ریاضت یہ ہے کہ آج کے بعد سے تادم حیات تم اپنا کھانا کسی نہ کسی مہمان کے ساتھ تناول کروگے۔‘‘  جائسی نے اپنے شیخ کی اس ہدایت پر عمل کیا حتی کہ ایک روز ایک مجزوم کے ساتھ بھی کھانا تناول کرنا گوارہ کر لیا جس کے بعد آپ پر ولایت کے اسرارورموز ظاہر ہوئے۔۶۱؎  جائسی کواپنے بزرگوں سے چند بیگھا زمین بطور وراثت ملی تھی جس کی کاشت پر گزر بسر کرتے تھے۔۶۲؎  وہ شادی شدہ تھے اور ان کے کئی لڑکے ہوئے مگر سب کے سب مکان کی چھت گرنے کے حادثے کا شکا ر ہوکر انتقال کرگئے تھے جس کا  جائسی کے اوپر گہرا اثر پڑا تھا۔۶۳؎  جائسی جہاں ایک طرف صوفی اصولوں سے واقفیت رکھتے تھے وہیں دوسری طرف وہ ہندو مذہب کی مشہور روایات کا بھی علم رکھتے تھے۔۶۴؎جائسی کی علمی قابلیت، فنی مہارت اور بزرگی کی وجہ سے امیٹھی (سلطانپور) کا راجہ رام سنگھ انکا معتقد تھا اور بڑا احترام کرتا تھا، اس کے علاوہ جائسی کوشیر شاہ سوری کا بھی اعتماد حاصل تھا۔۶۵؎  جائسی کو اللہ تعالی نے اعلی تخلیقی قوت سے نوازا تھا اور انکی کی تصنیفات ہندی ادب میں اپنا خاص مقام رکھتی ہیں۔ جائسی کی تصنیفات کی تعداد بیس سے زیادہ بتائی جاتی ہے مگر ان میں سے صرف آٹھ کا ثبوت ملتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔  پدماوت،چیناوٹ،اکھراوٹ،چتراوٹ،آخری کلام، کہرا نامہ، مہرا نامہ، مواری نامہ، مثلہ نامہ۔ پدماوت میں آپ نے چشتیہ اشرفیہ طریقت کے نو اطوار اور سات انوار کا تذکرہ کیا ہے جو لطائف اشرفی میں مذکور ہیں۔ آپ نے سات انوار کو سات دیپوں اور نو اطوار کو نو کھنڈوں سے تعبیر کیا ہے۔ دوسری کتاب چیناوٹ بھی اسی طرز پر رکھی گئی ہے۔کتاب ’’اکھراوٹ‘‘ہندومت کے نکات واسرار پر مشتمل ہے۔ ’’چتراوٹ‘‘ عورتوں کے مکروفریب اور ہوشیاری وچالاکی کے بیان میں ہے۔جبکہ آخری کلام آثار قیامت کے سلسلہ میں ہے۔جائسی صاحب فطری طور پر عابد وزاہد قسم کے انسان تھے اور خوف خدا سے لرزا ں رہتے تھے۶۶؎۔آپ نے 1542ء؁ میں وفات پائی اور امیٹھی(سلطانپور) میں مدفون ہوئے۔۶۷؎ ۳۔ کالے پہاڑخان:   حضرت مبارک بودلے کے تیسرے خلیفہ جناب کالے پہاڑ خان تھے۔ ان کا نام اصلا پہاڑ خان تھا، مگرچونکہ وہ ایک حبشی النسل خاتون کے بطن سے تھے اس لئے ان کی رنگت گہری سیاہ تھی جس کی وجہ سے ان کے نام کے آگے کالے کا لفظ لگایا جاتا تھا۔  یہ شیر شاہی حکومت کی طرف سے صوبہ اودھ کے گورنر تھے،اور اس کے علاوہ اڑیسہ، بہاراور بنگال کی دیکھ ریکھ بھی انہیں کے سپرد تھی۔ یہ حضرت مبارک بودلے سے غایت درجہ عقیدت رکھتے تھے،اور اپنے زہد وورع، عدل گستری، انتظام سلطنت، اور رعایا پروری کی وجہ سے مقبول خاص وعام تھے۔ ان کی مصلحانہ پالیسیوں کی وجہ سے بھی لوگوں میں اسلام قبول کرنے کی تحریک ہوئی،اور راجگان اودھ کو حضرت مبارک بودلےؒ سے قریب لانے میں بھی آپ کا اہم رول رہا ہے۔۶۸؎ ۴۔ شیخ سلونے انصاریؒ:  حضرت مبارک بودلےؒ کے ایک اور جانشین تھے جو میاں شیخ سلونے انصاری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ ایک عالی ہمت، باشجاعت اور اعلی شخصیت کے مالک تھے اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی قبر جائس کے جنوبی حصے میں انصاری محلہ میں واقع ہے۔۶۹؎  آپ ملک محمد جائسی کے ان چار دوستوں میں سے ہیں جن کا تذکرہ انھوں نے پدماوت میں کیا ہے۔ وہ آپ کے بارے میں کہتے ہیں : میاں سلونے سنگھ پریارو بیر کھیت رن کھڑک جُجھارو ترجمہ: سلونے میاں ایک شیر دل شخص تھے، میدانِ جنگ میں وہ بڑی بہادری سے تلوارچلاتے تھے۔۷۰؎ حوالہ جات  ۴۹؎  الحسنی، عبدالحئی، نزہۃ الخواطر، ج4،دار ابن حزم، بیروت، 1999ء؁، ص401-402  ۵۰؎  خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص11 ۵۱؎   الحسنی، عبدالحئی، نزہۃ الخواطر، ج4،دار ابن حزم، بیروت، 1999ء؁،ص445 ۵۲؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص12 ۵۳؎   ایضاء، ص۱۲۔۱۴  ۵۴؎  الحسنی، عبدالحئی، نزہۃ الخواطر، ج4،دار ابن حزم، بیروت، 1999ء؁،ص445 ۵۵؎   Benett, William Charles, Gazetteer of the Province of Oudh Vol. 1, North Western Provinces and Oudh Government Press, Allahabad, (1878) Page No.42-43 ۵۶؎   الحسنی، عبدالحئی، نزہۃ الخواطر، ج4،دار ابن حزم، بیروت، 1999ء؁،ص445 ۵۷؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص13 ۵۸؎   کھیل چند آنند، ہندی ساہتیہ کا سمیچھاتمک اتہاس،جی لال اینڈ کمپنی، نئی دہلی،ص73 ۵۹؎   الحسنی، عبدالحئی، نزہۃ الخواطر، ج4،دار ابن حزم،بیروت، 1999ء؁،ص420 ۶۰؎   سید،اقبال احمد،تاریخ سلاطین شرقی و صوفیاء جونپور،ص 753 ۶۱؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص11-12 ۶۲؎   ایضا،ص7۱ ۶۳؎   کھیل چند آنند، ہندی ساہتیہ کا سمیچھاتمک اتہاس،جی لال اینڈ کمپنی، نئی دہلی،ص73 ۶۴؎   ایضا،ص73 ۶۵؎   ایضا،ص73 ۶۶؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص15-18 ۶۷؎   کھیل چند آنند، ہندی ساہتیہ کا سمیچھاتمک اتہاس،جی لال اینڈ کمپنی، نئی دہلی،ص73 ۶۸؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص22 ۶۹؎   ایضا،ص43 ۷۰؎   جائسی، ملک محمد، پدماوت،،مطبع نول کشور،لکھنؤ، صفحہ ۱۱ 

مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=31846

شیخ مبارک بودلے جائسی اور اودھ میں دعوت اسلام (دوسری قسط)


اسلام کی نشرواشاعت 
 اودھ میں اسلام کی روشنی شیخ مبارک بودلے ؒ کی ولادت سے کئی صدیوں قبل ہی پہنچ چکی تھی، اور مختلف مسلم گھرانے اودھ کے الگ الگ خطوں میں آباد تھے۔ اس خطے میں اسلام سب سے پہلے سید سالار مسعود غازی ؒ کے ذریعہ متعارف ہواجو محمود غزنوی کے ہمشیر زادے تھے۔ وہ اپنے ماموں کے ساتھ مختلف ہندوستانی مہمات میں شریک ہوئے اور اپنے ماموں کے برخلاف ہندوستان میں مستقل طورپر سکونت اختیار کرنا چاہتے تھے۔ محمودغزنوی کے ہندوستان چھوڑنے کے بعد وہ گیارہ ہزار فوج کے ساتھ ہندوستان کی حدود میں داخل ہوئے اور دہلی، قنوج، مانک پور، کڑا، سترکھا وغیرہ فتح کرنے کے بعد آخر کار 557؁ہجری بمطابق 1162؁ء میں بہرائچ کے قریب راجہ بالادت سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔۱۴؎ آپ کے کئی نائب سپہ سالاراودھ کے مختلف مفتوحہ علاقوں میں پھیل گیے اور وہیں آباد ہوئے مثال کے طورپر زکریا حسین نے جائس میں ۱۵؎ ، قاضی بدرالدین نے انہونہ میں ۱۶؎، خواجہ بہرام وخواجہ نظام نے صبیحہ میں ۱۷؎   اورملک یوسف نے امیٹھی میں سکونت اختیار کی۱۸؎۔ اس کے بعد اسلامی حکومت کے قائم ہونے پر مختلف جاگیردارانہ و زمیندارانہ گھرانے اس خطے میں آباد ہوئے اور اسی کے ساتھ صوفیاوعلما کا بھی ورود شروع ہواجنھوں نے اسلام کی نشر واشاعت کی غرض سے اس علاقے کا دورہ کیا اور ان میں سے بعضوں نے یہاں سکونت بھی اختیار کی مثال کے طور پرسید اشرف جہانگیر سمنانی، سید قطب الدین ثانی حسنی، شیخ نظام الدین نگلامی وغیرھم۔  اشاعتِ اسلام کی مذکورہ بالا مساعی کے باجود یہ خطہ کفر وضلالت اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور یہ سرزمین کسی ایسے اسلامی مصلح داعی کے انتظار میں تھی جو یہاں پر بنیادی تبدیلی پیدا کرسکے۔ اللہ تعالی نے یہ سعادت شیخ مبارک بودلے ؒ کی قسمت میں لکھی تھی جنھوں نے اپنے ارد گردپھیلی ہوئی تاریکی اور جہالت کو محسوس کیا، اس لیے  خانقاہ کی ذمہ داری سنبھالنے اور مسند ارشاد پر متمکن ہونے کے بعدآپ نے روایتی انداز میں خانقاہ میں گوشہ نشینی اختیار کرنا پسند نہ کیا بلکہ خانقاہ سے باہر نکل کر میدان عمل میں قدم رکھا اور قرب وجوار میں پھیلی ہوئی کفر وجہالت کی تاریکی دور کرنے اور اسلام کی روشنی کو مزید پھیلانے کی کوشش کی۔ آپ نے مختلف گھرانوں کو اسلام کے نور سے منور کیا، اور کئی چیدہ اشخاص کو اسلام کا سیدھا اور سچا راستہ دکھایا جن کی نسلیں آگے چل کر امت محمدیہ کا ایک حصہ بنیں ۔ کن لوگوں نے آپ کی دلی دعائوں اور دعوتی کوششوں کے نتیجے میں اسلام قبول کیا؟ان کے کیا نام تھے؟ان کی کیا تعداد تھی؟وہ کس طبقہ سے تعلق رکھتے تھے؟اس سلسلہ میں علامہ عبدالحئی حسنی ؒ نے صرف اشارہ کیا ہے کہ ’’وقد أسلم علی یدیہ جماعۃ من مرازبۃ اودھ‘‘۱۹؎  یعنی آپ کے دست مبارک پر زمینداران اودھ کی ایک جماعت نے اسلام قبول کیا، البتہ اس جماعت کی قدرے تفصیل ہمیں تاریخ جائس میں ملتی ہے۔ عبدالقادر خان صاحب نے تاریخ جائس میں اودھ کے پانچ ایسے  اہم راجائوں کے نام گنائے ہیں جو آپ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے۲۰؎۔ ان پانچوں راجائوں کے نام تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہیں ، اور ان کی ریاستوں پر ایک نظر ڈالنے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی نشرواشاعت کے سلسلے میں حـضرت مبارک بودلےؒ کا میدان عمل مشرق میں سلطان پور، مغرب میں لکھنؤ،جنوب میں رائے بریلی وفتح پور اور شمال میں فیض آباد جیسے شہروں تک وسیع تھا۔    ان چاروں شہروں کے وسط میں پڑنے والے علاقے کی مسلم آبادی کا ایک معتد بہ حصہ ان خاندانوں اور گھرانو ں پر مشتمل ہے جن کے آباء واجداد آپ کے دست مبارک پر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے تھے۔ذیل میں ان پانچوں راجائوں کا تذکرہ پیش ہے جو آپ کے دست مبارک پر اسلام لائے تھے۔ 1۔ تاتار خان کا قبول اسلام :  راجپوتوں کی بچگوٹی چوہان نسل سے راجہ تاتارخان نے آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا، جن کا غیر اسلا می نام تلوک چند تھا۔ راجہ تاتار خاں اودھ کے سب سے طاقتور راجا تھے۔ ان کی سلطنت کی حدود شمال میں دریائے گھاگرا جنوب میں دریائے گنگا مشرق میں جونپور واعظم گڑھ اور مغرب میں لکھنؤ تک وسیع تھیں ۔تاتار خاں کی سلطنت میں دس راجہ اور دو چودھری تھے جو ان کی سیادت کو تسلیم کرتے تھے۔ اس لئے کہ اودھ کے رجواڑوں میں تلکوتسو کے موقع پر قشقہ (تلک)لگا کر نئے راجہ کی تخت نشینی کے اعلان کا حق انہیں کوحاصل تھا۔۲۱؎   تاتارخان کے اسلام قبول کرنے سے سارے خطے میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا، اور ایسا لگا جیسے راجگان اودھ کے سرپر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ بیسواڑے کے ایک راجہ دیورائے نے قسم کھائی کہ ان کی آنے والی نسل تلکوتسو کے موقع پر راجہ تاتارخاں یا ان کی اولاد کی خدمات نہیں حاصل کرے گی، اور انہوں نے اپنے دوسرے لڑکے کو راجا کے لقب سے نوازا اور اپنے خاندان میں تلک لگانے کی ذمہ داری اس کے سپرد کی۔۲۲؎   باستثناء بیسواڑے کے راجہ دیو رائے،اودھ کے دیگر رجواڑوں میں تاتارخان اور ان کی نسل کے سرداران قوم، جو آگے چل کر حسن پور کے دیوان کی حیثیت سے مشہور ہوئے، کا وہی امتیاز باقی رہا جو قبل از اسلام تھا،چنانچہ ارور کے سوم بنسی سرداران، رام پور کے بیسن، تلوئی کے کنہپوریا اور امیٹھی کے بندھلگوٹی جب تک حسن پور کے دیوان کے ہاتھوں سے تلک نہ لگوالیتے تھے اپنے اسلاف کے اختیارات کو استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتے تھے۔۲۳؎   راجہ تلوک چند کے اسلام لانے کے سلسلے میں ایک غلط روایت عام ہے جسے ولیم چارلس بینٹ (W. C. Benett) نے گزیٹیئر آف اودھ کی تیسری جلد میں نقل کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’تلوک چند بابر کے ہم عصر تھے۔ بابر نے اپنی ایک مشرقی مہم کے دوران ان کو گرفتار کر لیا اور ان کو اختیار دیا کہ یا تو اسلام قبول کر کے پروانۂ آزادی حاصل کریں یا اپنے پرانے مذہب پر برقرار رہ کر غیر متعینہ مدت تک قید کی صعوبتیں برداشت کریں ۔قبول اسلام میں سبقت کرنے والی بہت سی قابل احترام شخصیات سے مشورے کے بعد جب آپ نے اسلام قبول کر کے آزادی حاصل کرنے کو ترجیح دی تو آپ کوغایت درجے احترام کے ساتھ آزاد کر دیا گیا اور خان بہادر کے لقب سے نوازا گیا،اور آپ کا نام بدل کر تاتارخان رکھا گیا۔‘‘۲۴؎  پروفیسر تھامس آرنالڈ (Thomas Arnold)نے بھی مذکورہ بالا واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے۔مگر اس کے بعد ایک دوسرا واقعہ نقل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ایک روایت کے مطابق تلوک چند کو بابر نے قید کر لیا تھا اور قید سے رہائی حاصل کرنے کی غرض سے تلوک چند نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ دوسری روایت کے مطابق تلوک چند نے ہمایوں کے عہد میں اسلام قبول کیا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ہمایوں نے جب تلوک چند کی اہلیہ کے حسن وجمال کی بڑی تعریفیں سنیں تو اسے اٹھوالیا۔ لیکن جب وہ ان کے پاس لائی گئی تو ہمایوں کا ضمیر جاگ اٹھااور اسے اپنی حرکت پر پشیمانی ہوئی۔ اس نے فورااس کے شوہر تلوک چند کو بلوا بھیجا۔ تلوک چند جنہوں نے اپنی اہلیہ کو دوبارہ نہ دیکھنے کی قسم کھائی تھی۔ ہمایوں کا حسن سلوک دیکھ کر اس کا مذہب یعنی اسلام قبول کر لیا، جس نے اسے ایسی سخاوت اور پاکی سکھائی۔ ‘‘۲۵؎   تلوک چند یعنی تاتار خاں کے تین صاحبزادے تھے ایک فتح شاہ جو قبول اسلام کے واقعے سے پہلے پیدا ہوئے تھے اور اپنے اسلاف کے قدیم مسلک پر قائم رہے، ان کی اولاد سلطانپور میں دھمور کے علاقے میں آبادتھی۔ دوسرے صاحبزادے جلال خان اور تیسرے بازید خان تھے جو اسلام قبول کرنے کے بعد پیدا ہوئے تھے اس لئے اسلامی تربیت پائی۔ انہوں نے اپنے والدکے لقب خان کی بنا پر اپنے لئے بطورفخرخانزادے کا  نیا لقب اختیار کیا۔  بازید خان کے صاحبزادے حسن خان کافی شہرت اور جاہ کے مالک ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ سوری نے بنگال سے دہلی کی طرف کوچ کرنے کے دوران ان کے یہاں قیام کیاتو انہوں نے شیر شاہ کے شایان شان خاطر تواضع کی اور بیش بہا ہدیے وتحائف ان کی خدمت میں پیش کئے، اور اس کے علاوہ اپنی ایک بیٹی بھی ان کی نکاح میں دی۔شیر شاہ حسن خان کی مدارات سے انتہائی خوش ہوا اور ان کو راجا کے لقب سے نوازا، اور انہیں مزید اختیار دیا کہ وہ بنودھا (اودھ) کی حدود میں جس کو چاہیں راجا کے لقب سے نواز سکتے ہیں ۔حسن خان نے ریوا کے راجہ کو شکست دے کر تمام اودھ میں اپنی عظمت وبرتری کا احساس کرادیا تھا۔حسن خان کے بعد وہ شان وعظمت ان کے خاندان کے کسی فرد کو حاصل نہیں ہوئی، البتہ ہر ایک نے اپنی اہلیت ولیاقت اور قائدانہ صلاحیت کے لحاظ سے خاندان کی عظمت کو برقرار رکھنے کوشش کی۔اس خاندان کے قائد حسین علی نے22مارچ 1857ء؁ کی سلطان پور کی  جنگ میں انگریزوں کے خلاف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور باغی فوج کی قیادت کی تھی، اور اس میں ان کا ایک لڑکا بھی شہید ہوا تھا۔۲۶؎ حسن خان نے شیر شاہ سوری کے ہی دور میں حسن پور نامی ایک قصبہ آباد کیا جو سلطان پور کے مغرب میں تقریبا چار میل کے فاصلے پر، لکھنؤ -سلطانپور قومی شاہراہ کے شمال جانب آباد ہے۔ حسن پور اور منیار پور کے تعلقے آخر تک آپ کی نسل میں برقرار رہے۔۲۷؎ 2۔ راجہ ملک پال کا قبول اسلام: سلطان پور ضلع کی بھالے سلطان نسل سے پالہن دیو نے حضرت مبارک بودلے ؒکے دست مبارک پر بعہد شیر شاہ سوری اسلام قبول کیا اور اپنا نام بدل کر ملک پال رکھا۔۲۸؎  ولیم کروک (William Crook)نے بھالے سلطانوں کی نسل سے راجہ بارم دیو کے اسلام لانے کا تذکرہ کیا ہے۔۲۹؎  جب کہ ولیم چارلس بینٹ نے رائے دودھیچ کے قبول اسلام کا ذکر کیا ہے۔۳۰؎ لیکن درحقیقت اسلام پالہن دیو نے ہی قبول کیا تھا، اسلئے کہ رائے دودھیچ اور بارم دیو مشہور بھالے سلطان راجہ رائے برار کے صاحبزادے تھے اور ان دونوں کی اولاد اپنے قدیم ہندو مذہب پر برقرار رہی، جبکہ پالہن دیو، بارم دیو کے لڑکے تھے اور سلطان پور کے مسلم بھالے سلطان انہی کی نسل سے ہیں ۔ ۳۱؎  پالہن دیو کی نسل میں ایک مشہور راجہ نہال خان ہوئے جنہوں نے1126؁ھ بمطابق 1715ء؁ میں جگدیش پور کے پاس نہال گڑھ نامی ایک  مضبو ط قلعہ بنایاتھا۔ اس قلعہ کی جگہ پر آباد نہال گڑھ نامی گائوں آج جگدیش پور میں شامل ہے،اور یہاں کا ریلوے اسٹیشن انھیں کے نام پر نہال گڑھ کے نام سے جانا جاتا ہے۔نہال خان کے چچا زاد بھائی میغل خان نے انہونہ کے جاگیر دار کی مدد سے  1157؁ ھ مطابق1745ء؁ میں نہال خان کو راج گدی حاصل کرنے کی غرض سے قتل کر دیا تھا۔۳۲؎ 3۔  راجہ باز سنگھ کا قبول اسلام:  مشہور روایت کے مطابق راجہ باز سنگھ نے شیر شاہ سوری کے عہد میں شیخ مبارک بودلے ؒکے دست مبارک پراسلام قبول کیاتھا۔راجہ باز سنگھ کے دادا کرن سنگھ مین پوری پرگنہ کے بھینسول نامی قصبہ کے چوہان راجپوت سردار جگت سنگھ کے صاحبزادے تھے، اور راجہ بنار شاہ کے ساتھ گڑیو کی مہم میں شریک تھے۔ فتح وکامرانی کے حصول کے بعد بنار شاہ کے صاحبزادے ٹیپوراوت کی اکلوتی صاحبزادی سے آپ کی شادی کر دی گئی۔ چونکہ ٹیپوراوت کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی اس لئے ان کے حصے کے بیالس گائوں کرن سنگھ کو وراثت کے طور پر ملے، جو ان کے صاحبزادے کنور سنگھ اور پھر ان کے پوتے باز سنگھ کو منتقل ہوئے۔ جب باز سنگھ اسلام لائے تو یہ بات شاہی دربار تک پہونچے بغیر نہ رہ سکی اور شیر شاہ سوری نے آپ کی قدر کرتے ہوئے آپ کو خان اعظم بھینسولیان کے لقب سے نوازا۔باز سنگھ کی اولاد خوب پھلی پھولی اور ان کے دادا کرن سنگھ کے وطن بھینسول کی نسبت سے پہلے بھینسولیان پھر آگے چل کر بھرسیاں کے نام سے معروف ہوئی۔آئین اکبری میں ان کی نسل کا تذکرہ نو مسلم چوہان کے نام سے کیا گیا ہے،جو انہونہ پرگنہ کی مالک تھی۔ آپ کی نسل میں بہوا کا تعلقہ آخر تک برقرار رہا، جو چوبیس گائوں پر مشتمل تھا۔۳۳؎  صاحب تاریخ جائس نے باز سنگھ کے بجائے محمد عالم خاں کے اسلام لانے کا تذکرہ کیا ہے جو غالبا باز خاں کے صاحبزادے تھے۔ لیکن دراصل محمد عالم خاں ایک صوفی بزرگ عالم تھے اور شیخ مبارک شاہ بودلے ؒکے خلفاء میں سے تھے۔عالم خاں کے صاحبزادے بھیکھی خان نے جب گدی سنبھالی تو بھیکھی پور نامی قصبہ آباد کیاجہاں آج بھی بھرسیّوں کی کثیر تعداد آباد ہے۔۳۴؎ 4۔  راجہ ڈینگر شاہ کا قبول اسلام:  حیدر گڑھ وانہونہ کے نواح میں آباد گڑیو کی بیس راجپوت قوم سے ایک راجہ نے شیخ مبارک شاہ بودلے ؒکے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۳۵؎۔ اس قوم سے کس شخص نے اسلام قبول کیا اس بارے میں مختلف نام اور روایات تاریخ کی کتابو ں میں درج ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں : ٭  نعیم اشرف جائسی نے  اس خاندان کے جد اعلی بنار شاہ کے پو تے ساتن رائے کے اسلام لانے کاتذکرہ کیا ہے۳۶؎؎   ٭  عبدالقادر خان جائسی نے ساتن رائے کے صاحبزادے دیاچند کے حضرت مبارک شاہ بودلے کے دست مبارک پر اسلام لانے کا تذکرہ کیا ہے۳۷؎؎۔    ٭  جناب اے ایف ملیٹ(A.F.Millet)نے بنار شاہ کے پڑپوتے بھرت سنگھ کے شیر شاہ کے عہد میں اسلام لانے کا تذکرہ کیا  ہے۔۳۸؎۔   ٭      مسٹر ڈبلیو سی بینٹ(W.C. Benett)نے بھی ملیٹ کی اتباع کرتے ہوئے بھرت سنگھ کا ہی تذکرہ کیا ہے،اور اس واقعہ کو گڑیو کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ قرار دیا ہے۔۹ ۳؎؎۔  ٭   بیس چھتری اتہاس۴۰؎، اور اس علاقے کی عام روایت کے مطابق جناب ڈینگر شاہ نے شیر شاہ سوری کے عہد میں حضرت مبارک  بودلے کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا تھا۔   جہاں تک ساتن رائے کا تعلق ہے تو اشرف جہانگیر سمنانی ؒ سے ان کی ملاقات کا تذکرہ لطائف اشرفی  میں ملتا ہے لیکن ان کے اسلام لانے کی طرف کہیں کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے،بلکہ لطائف اشرفی میں مذکور واقعہ ان کے اسلام نہ قبول کرنے پر صراحتا دلالت کرتا ہے۴۱؎،اس کے علاوہ بیس چھتری اتہاس اور دوسرے ذرائع سے حاصل کردہ شجر ہائے نسب سے پتہ چلتا ہے کہ ساتن رائے کے سارے صاحبزادگان اپنے قدیم مسلک پر قائم رہے۔اور اسی طرح ان کے صاحبزادے دیا چند کی اولاد بھی اپنے قدیم مذہب پر قائم رہی اسلئے ان دونوں کے اسلام لانے کا واقعہ صحیح نہیں ہے۔  جہاں تک بھرت سنگھ کا تعلق ہے تو راقم الحروف کو بنار شاہ کی اولاد کے شجرئہ نسب میں بھرت سنگھ نام کہیں بھی نظر نہیں آیا۔جیسا کہ اوپرذکر کیا گیا، بیس چھتری اتہاس اور اس علاقے کی عام روایت کے مطابق اس خاندان سے جناب ڈینگر شاہ نے شیر شاہ سوری کے عہد میں شیخ مبارک بودلےؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا تھا،اور یہی صحیح ہے اس لییٔے کہ ان کی اولادکے نام اسلامی پاے جاتے ہیں ۔  یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بھرت سنگھ اور ڈینگر شاہ دونوں نام ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال ہوتے ہوئے پائے گئے ہیں اس لیٔے غالب گمان یہ ہے کہ بھرت سنگھ ڈینگر شاہ کا اصل نام رہا ہوگا،جیسے کہ بنار شاہ کا اصل نام پرتاپ شاہ تھا۔اس کی تصدیق وہاب خاں اور سلامت خاں کے واجب العرض سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے ڈینگر شاہ کی جگہ پر بھرت سنگھ کا نام لکھا ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا ۴۲؎،جبکہ اس خاندان میں ڈینگر شاہ کے اسلام لانے کا ہی تذکرہ ملتا ہے۔   ڈینگر شاہ راقم الحروف کے جد اعلی تھے،اور ان کی نسل لکھنؤ -سلطان پور قومی شاہراہ پر واقع قصبہ انہونہ کے جنوب مغرب میں تقریبا سات کلومیٹر کے فاصلے پر واقع موضع ساتن پوروہ اور اس کے چھ ذیلی گائووں میں آباد ہے، جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں ۔گڑھی واصل،گڑھی اللہ داد،گڑھی محکم، گڑھی دلاور،بنگرہ اور پورے ٹھکرائن۔ 5۔  عجب سنگھ:  صاحب تاریخ جائس نے بیسواڑے کی تلوک چندی بیس قوم کے ایک سردار کے اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کیا ہے مگر انکا نام ذکر نہیں کیا ہے۴۳؎۔غالبا ان کی مراد عجب سنگھ یا ان کے تینوں لڑکوں رحمت علی، عنایت علی اور رستم علی سے ہے جو مسلمان ہو گئے تھے، مگر ان کی اولاد صحیح اسلامی تربیت وہدایت نہ ملنے اور خاندان کے ظلم وجور کی وجہ سے پھر اپنے قدیم ہندو مسلک پر واپس آگئی تھی۔۴۴؎  مذکورہ بالا پانچوں راجگان جو شیخ مبارک بودلےؒ کے دست مبارک پر اسلام سے مشرف ہوئے،صوبہ اودھ والہ آباد کے عمدہ ترین رؤساء میں سے تھے اور علاقے کے سب سے بااثر خانوادوں سے تعلق رکھتے تھے۴۵؎۔ ان حضرات کے علاوہ دیگر اشخاص بھی آپ کی کوششوں سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے، اس لئے کہ مذکورہ بالا راجگان کی نسل سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ اور بھی بہت سے گھرانے ایسے ہیں جو نو مسلم ہیں اور شیخ مبارک بودلے ؒکے خانوادے سے آج بھی ارادت رکھتے ہیں ،مگر چوں کہ اس سلسلے میں زبانی روایات کے علاوہ اور کوئی معلومات مہیا نہیں ہیں اس لئے اسے قلم انداز کیا جاتا ہے۔ شیخ مبارک بودلے ؒ کی وفات:  شیخ مبارک بودلے ؒ اسلام کی نشر واشاعت اور تعلیم وتعلم سے پر ایک طویل زندگی، جو بابر، ہمایوں ، شیر شاہ اور اکبر کے پرشکوہ ادوارِ حکومت پر محیط ہے، گزارنے کے بعد 974ھ؁ بمطابق 1566ء؁ میں اکبر کے عہدحکومت میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے، اور خانقاہ اشرفیہ، جائس کے احاطے میں اپنے داداحاجی قتال اور والد محترم جلال اول کے پہلو میں مدفون ہوئے۔۴۶؎ اخلاق و عادات:  شیخ مبارک بودلےؒ زہدو تقوی میں اپنی مثال آپ تھے اور شب و روز عبادت میں مشغول رہتے تھے۔جذب کی کیفیت بھی آپ سے منسوب کی جاتی ہے جس کی وجہ سے حکماء نے آپ کے لئے عرق کوکنار نوش کرنا تجویز کیا تھا۔۴۷؎ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی:  شیخ مبارک بودلے ؒ کو اللہ تعالی نے کئی اولادسے نوازا، مگر سب آپ کی زندگی ہی میں فوت ہوگئیں ۔آخر کار خدا تعالی کی عنایت سے ایک اور فرزند ار جمند پیدا ہوا، جس کا نام آپ نے اپنے والد کے نام پر جلال ثانی رکھا۔شیخ جلال اپنے والد کی طرح بڑے عالی أوصاف درویش صفت بزرگ تھے۔ انہوں نے اپنی تمام عمر عبادت وریاضت میں بسر کی اور رشد وہدایت کے کام میں لگے رہے۔جناب شاہ جلال ثانی کے سات بیٹے ہوئے جن میں سے دو یعنی شاہ مبارک ثانی اور شاہ ولی اشرف مسند ارشاد پر متمکن ہوئے۔ شیخ مبارک شاہ بودلےؒ کے بھائی شاہ کمال کی نسل بھی آگے پروان چڑھی اور دونوں بھائیوں کی اولادیں آج بھی جائس میں آباد ہیں ۴۸؎،مگر اسلام کی نشر واشاعت کا جوجذبہ آپ کے اندر تھا وہ پھرآپ کے بعد کسی میں نہ دکھا البتہ علمی تبحر کے معاملہ میں چند اشخاص کے نام گنائے جا سکتے ہیں ،جنہوں نے اپنی تعلیمی لیاقت کی وجہ سے کافی شہرت پائی،مثال کے طور پرمولانا شاہ غلام اشرف عرف ملاباسو، مولانا سید محمد باقرفاضل جائسی اور مولانا اشرف علی عرف ملا علی قلی جائسی۔  شیخ مبارک بودلے ؒ کے انتقال کے بعد آنے والی نسل اخلاق واعمال کے زوال سے دوچار ہوئی۔ ایک طرف ان کے عقائد نے ہندوستانی رنگ اختیار کیا، تو دوسری طرف ہندوستانی روایات نے اسلامی اقدار کی جگہ لینی شروع کردی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ تعلیم وتبلیغ اور ارشاد وہدایت میں مشغول ہونے کے بجائے عرس وفاتحہ اور محرم وعزاداری کے مراسم میں الجھ کر رہ گئی۔ اللہ تعالی آپ کی اولاد کو صراط مستقیم پر چلنے اور آپ ہی کی طرح اسلام کی نشرواشاعت میں خاطر خواہ حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ حوالہ جات  ۱۴؎  الحسنی، عبدالحئی، نزہۃ الخواطر، ج۱،دار ابن حزم،بیروت، 1999ء؁؁،ص80 ۱۵؎   ایضا،ص81 Benett, William Charles, Gazetteer of the  Province of Oudh Vol. 2 , North Western  ؎۱۶ Provinces  and Oudh Government Press, Allahabad, (1877), page no. 90 ۱۷؎     Benett, William Charles, Gazetteer of the Province of Oudh Vol. 3, North Western Provinces and Oudh Government Press, Allahabad, (1877), page no. 402 ۱۸؎     Benett, William Charles, Gazetteer of the Province of Oudh Vol. 1,Oudh Government Press, Allahabad, (1877), Page No.42. ۱۹؎   الحسنی، عبدالحئی، نزہۃ الخواطر، ج۴،دار ابن حزم، بیروت، 1999ء؁؁، ص402  ۲۰؎  خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص22-23 ۲۱؎   ایضا،ص23 ۲۲؎   Elliot, Charles Alfred, The Chronicles of Oonao, Allahabad Mission Press, Allahabad (1862), Page No.70 ۲۳؎   Crook, William, The Tribes and Castes of the North Western Provinces and Oudh, vol 1,Office of the Superintendent of Government Printing, Calcutta, (1896), Page No.95 ۲۴؎   Benett, William Charles, Gazetteer of the Province of Oudh Vol. 3, North Western Provinces and Oudh Government Press, Allahabad,(1878) Page No.465 ۲۵؎   Arnold, Thomas, The Spread of Islam in the World, Good Books, New Delhi,(2008) Page No.259-260 ۲۶؎   Benett, William Charles, Gazetteer of the Province of Oudh Vol. 3, North Western Provinces and Oudh Government Press, Allahabad, (1878) Page No.466-468  ۲۷؎  Benett, William Charles, Gazetteer of the Province of Oudh Vol. 2, North Western Provinces and Oudh Government Press, Allahabad,(1877) Page No.76 ۲۸؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص32  ۲۹؎  Crook, William, The Tribes and Castes of the North Western Provinces and Oudh, vol 1,Office of the Superintendent of Government Printing, Calcutta, (1896), Page No.254-255 ۳۰؎   Benett, W.C., A Report on the Family History of the Chief Clans of the Roy Bareilly District, the Oudh Government Press, Lucknow,(1870), Page No.23  ۳۱؎  Millet, A.F., Report on the Settlement of the Land Revenue of Sultanpur District, the Oudh Government Press, Lucknow(1873), Page No.182 ۳۲؎    ایضا،ص181 ۳۳؎   ایضا،ص178 ۳۴؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص36 ۳۵؎   ایضا،ص37 ۳۶؎   جائسی، مولانا نعیم اشرف،محبوب یزدانی، دار العلوم جائس،جائس، 2009ء؁، ص61 ۳۷؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص38 ۳۸؎   Millet, A.F., Report on the Settlement of the Land Revenue of Sultanpur District, the Oudh Government Press, Lucknow, (1873), Page No.177 ۳۹؎   Benett, William Charles, Gazetteer of the Province of Oudh Vol. 3, North Western Provinces and Oudh Government Press, Allahabad, (1878) Page No.461  ۴۰؎  سنگھ، بھگوان  وتس، بیس چھتری اتہاس،نول کشور پریس، 1993ء؁،ص165 ۴۱؎   یمنی، نظام الدین، لطائف اشرفی، لطیفہ نمبر 57،ص628 ۴۲؎   خان عبدالوہاب، وسلامت،واجب العرض، دیش بندھو پریس،بارہ بنکی، 1925ء؁،ص1 ۴۳؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص23 ۴۴؎   سنگھ، بھگوان  وتس، بیس چھتری اتہاس،نول کشور پریس، 1993ء؁،ص173  ۴۵؎  خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص23  ۴۶؎  جائسی، مولانا نعیم اشرف،شجرئہ اشرفیہ،حاصل کردہ از مندرجہ ذیل لنک، http://www.darululoomjais.com/documents/shajra.pdf ۴۷؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص11 ۴۸؎   ایضاء، ص46

مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=31691

شیخ مبارک بودلے جائسی اور اودھ میں دعوت اسلام (پہلی قسط)


 شیخ مبارک بودلے جائسی، ؒ جو عوام میں ” حضرت شاہ سید مبارک بودلےؒ” کے نام سے مشہور ہیں ، ان عظیم برگزیدہ داعیان اسلام میں سے ایک تھے جنہوں نے ہندوستان اور بطور خاص اودھ میں اسلام کی نشرواشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ سولہویں صدی عیسوی میں روشنی کا ایک ایسا مینار تھے جس نے اودھ کے ایک و سیع خطہ کو اسلام کی روشنی سے منور کیااور مختلف راجگانِ اودھ کو ہدایت کا راستہ دکھایا۔ آپ کاخاندان:   آپ شریف النسب حسنی سادات کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کا سلسلئہ نسب حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ۱؎ سے ملتا ہے۔ آپ کے جد اعلی سید عبدالرزاق نور العین حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی دسویں پشت میں تھے، اور چودہویں صدی عیسوی کے صوفی بزرگ سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ  ۲؎ کے خالہ زاد بہن کے فرزند تھے۔  حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ جب 764؁ھ بمطابق 1362؁ء میں عراق کے دورے پر گئے تو جیلان بھی تشریف لے گئے جہاں سید عبدالرزاق آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے گرویدہ ہوگئے۔ جب حضرت سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے جیلان سے رخت سفر باندھا توسید عبدالرزاق جو اس وقت بارہ سال کے تھے آپ کے ساتھ چلنے پر بضد ہوئے اور کسی بھی طرح آپ سے الگ ہو کر اپنے وطن میں رہنا گوارہ نہ کیا۔ آخر کار سید عبدالرزاق کے والد سید عبدالغفور کی اجازت سے حضرت سمنانی ؒ نے سید عبدالرزاق کو اپنی فرزندی میں لے لیا، اور نور العین کے لقب سے نوازا، اور تاحیات اپنی صحبت میں رکھا۔ ۳؎  حضرت سید عبدالرزاق نور العینؒ نے ایک سو بیس سال کی عمر پائی اور تقریبا اڑسٹھ سال حضرت سمنانی ؒ کی خدمت میں گزارے۔ ۴؎ان کے چار صاحبزادے تھے جن کے نام اس طرح ہیں :سید حسن، سید حسین، سید فرید، سید احمد۔ جب حضرت سمنانی ؒ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے حضرت عبدالرزاق ؒکے چاروں فرزندوں کو بلابھیجا اور انہیں الگ الگ مقامات کی خلافت عطا کی اور خانقاہوں کے قیام کی ہدایت فرمائی۔ سب سے بڑے بیٹے سید حسن کو کچھوچھا، سید حسین کو جونپور، سید فرید کو ردولی اور سب سے چھوٹے بیٹے سید احمد کو جائس کی خلافت عطا کی۔ ۵؎ مؤخر الذکر سید احمدؒ جو بندگی میاں کے نام سے معروف ہوئے حکم کے بموجب جائس کے لئے روانہ ہوئے اورٹھیک اس مقام پر اقامت اختیار کی جہاں حضرت سمنانی ؒ دوران قیام جائس خیمہ زن ہوئے تھے، اور وہاں پر ایک خانقاہ قائم کی جو حضرت اشرف جہانگیر سمنانی ؒکی نسبت سے خانقاہ اشرفیہ کے نام سے قرب وجوار میں معروف ہوئی، اور اسی نسبت سے آگے چل کر سید احمد بندگی میاں کی نسل خانوادۂ اشرفیہ کے نام سے موسوم ہوئی۔ سید احمد بندگی میاں کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے سید حاجی قتالؒ ؒنے خانقاہ کا انتظام سنبھالا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دونوں پوتوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری بھی بحسن وخوبی انجام دی اس لئے کہ ان کے فرزند جناب سید جلال اوّل ؒاپنے دو صاحبزادوں شیخ مبارک بودلے اورشیخ سید کمال کی پیدائش کے بعد جوانی ہی میں انتقال کر گئے تھے۔ ۶؎ شیخ مبارک بودلےؒ اور شیخ کمال ؒ کا تذکرہ سو لہویں صدی کے مشہور صوفی شاعر ملک محمد جائسی نے اپنے ادبی شاہکارپدماوت کے شروع میں کیا ہے اور ان کی خوب خوب تعریفیں کی ہیں اور ان کے ساتھ اپنی عقیدت وارادت کا اظہار کیا ہے، وہ کہتے ہیں : جہانگیر وے  چستی  نہکلنک جس  چاند  وہ مخدوم جگت کے ہوں ا وہ گھر کے  باند ترجمہ : خاندان چشتیہ حضرت اشرف جہانگیر جو مانند چاند تمام عیوب سے پاک صاف ہے، جن کی خدمت تمام دنیا نے کی میں ان ہی کا غلام ہوں ۔  اوہ گھر رتن ایک نرمرا حاجی شیخ سبے گن بھرا ترجمہ: ان کے گھر ایک لڑکا گوہرِ نایاب نہایت صاف وشفاف پیدا ہوا، جو تمام ہنر کا مخزن تھا اور جس کا نام حاجی شیخ تھا۔   تیہ گھر  دوئی دیپک  اجیارے      پنتھ دیئی  کہنہ  دیو  سنوارے ترجمہ: ان کے گھر میں مثلِ چراغ کے روشن دو لڑکے پیدا ہوئے، گویا خدا نے انھیں عوام کی رہبری کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔   شیخ مبارک پو  نیو کرا  ۷ ؎      شیخ کمال جگت نرمرا ترجمہ: اول شیخ مبارک بودلےؒ جو چودہویں کے چاند کی طرح روشن تھے، دوسرے شیخ کمال جو تمام عالَم میں پاک وصاف تھے۔  دو ؤ اچل دھوؤ ڈولہ ناہیں      میر کھکھند تنہنہ  اپرا ہیں ترجمہ: یہ دونوں حضرات مثلِ قطب ستارہ اپنی جگہ پر قائم تھے، کوہِ سمیر اور کوہِ  کشکند ھا سے بھی اعلی مرتبہ تھے۔ سے بھی اعلی مرتبہ تھے۔   دینھ  روپ  اوجوت گوسائیں      کینھ کھمبھ دوئی جگ کے تائیں ترجمہ: خدا نے انھیں خوبصورتی د ی اور نور عطا فرمائی اور دنیا میں گویا دو ستون کھڑے کردیے ہیں ۔   دہوں کھمبھ ٹیکے  سب  مہی     دہوں کے بھار سسٹ تھر رہی ترجمہ:  وہ دونوں ستون اس زمین کو سنبھالے ہوئے ہیں ، انہیں دونوں کے سہارے یہ تمام خلقت رکی ہوئی ہے۔  جیہ در سے اوپر سے پایا      پاپ ہرا نرمل بھے کایا ترجمہ :  جنھوں نے انکا دیدار اور قدمبوسی حاصل کی، ان کے تمام گناہ معاف ہوگئے اور جسم پاک وصاف ہوا۔   محمد تیئی نچنت پتھ جیہ سنگ مرسد پیر      جیہ کے ناواو کھیوک بیگ لاگ سو تیر ترجمہ:  اے ملک محمد! راہِ دنیا میں وہی بے فکر ہے جس کے ہمراہ مرشد وپیر ہیں ، جس کو کشتی اور ملاح میسر ہیں وہ جلد سے جلد کنارے لگ جاتا ہے۔ ۸؎ شجرۂ نسب:     شیخ مبارک بودلے کا شجرۂ نسب اس طرح ہے : شیخ مبارک بودلے بن جلال اول بن حاجی قتال بن سید احمد(بندگی میاں ) بن عبدالرزاق نورالعین بن سید عبدالغفورحسن بن سید احمد جیلی بن سیدابوالحسن بن سید موسی شریف بن سید علی شریف بن سید محمد شریف بن سید حسن بن سید احمدشریف بن سید ابی نصیر محی الدین بن سید ابوصالح بن سید عبدالرزاق بن سید عبدالقادر جیلانی  بن سید محمد ابوصالح بن سید محمد موسی جیلی بن سید زاہد بن سید عبداللہ بن سید یحی بن سید محمد بن سیدداؤد بن موسی الجولی بن عبداللہ محض بن سید شمس الدین مثنی بن امام حسن ؓ بن سیدنا علی ؓبن ابی طالب۔ ۹؎ ولادت:    شیخ مبارک بودلے ؒ کی ولادت کی تاریخ کا تعین یقینی طورپر نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ آپ کی تاریخِ ولادت کا تذکرہ نہ تو عبدالحئی حسنی ؒ نے کیا ہے اور نہ ہی عبدالقادر جائسی نے، مگرآپ کے دعوتی کارناموں ، آپ کے خلفاء نظام الدین امیٹھوی اور ملک محمد جائسی کی تواریخِ ولادت، اور خود آپ کی تاریخِ وفات کو مدنظر رکھ کر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ آپ پندرہویں صدی عیسوی کے ربع آخِر میں پیدا ہوئے ہوں گے۔ تعلیم وتربیت:    جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، شیخ مبارک بودلےؒ کے والد ماجد جوانی ہی میں انتقال کر گئے تھے اس لئے آپ نے اپنے دادا جناب سید حاجی قتال کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی اور انہیں کی نگرانی میں پروان چڑھے۔ چار سال کی کم سن عمر میں آپ نے مکتب جانا شروع کر دیا اور سات سا ل کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آپ نے حفظ قرآن مکمل کر لیا۔ اس کے بعد آپ علم ظاہری کی طرف متوجہ ہوئے، اور بیس سال کی عمر میں تمام معقول ومنقول علوم کے حصول سے فارغ ہوئے۔ ۱۰؎ حج کے لئے روانگی : تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے دادا بزرگوار کے حکم پر آپ تقریباًپانچ سال تک افادہ واستفادہ میں مشغول رہے اور طالبان علوم نبوت کو فیض پہنچاتے رہے۔ پچیس سال کی عمر میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ حج کا قصد کیا اور حرمین شریفین میں تقریبا تین چار سال گزارے اور وہاں کے علماء سے کسبِ فیض کیا۔ ۱۱؎ شادی:     جب آپ حج بیت اللہ سے واپس آئے تو آپ کی عمر تیس برس کی ہو چکی تھی اس لئے دادا بزرگوار کے حکم سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ ۱۲؎ خلافت: تعلیم سے فراغت، حج کی ادائیگی اور پھر ازدواجی زندگی سے جڑنے کے بعد اب وقت آگیا تھا کہ آپ خلافت سے مشرف ہوں اورمسند ارشاد پر متمکن ہوں ۔ چنانچہ آپ کے جد امجد سید حاجی قتال نے آپ کو خرقئہ خلافت عطا کیا اور طالب علموں کی تدریس، مریدوں کی تربیت اور فقراء کی خدمت کی ذمہ داری آپ کے سپرد کر کے خود عبادت وریاضت میں مشغول ہوگئے۔ خلافت عطا کرتے وقت آپ کے جد بزرگوار نے تاکید کی کہ آپ سلاطین وامراء کی ملاقات سے گریز کریں ، ہمیشہ خدا پر بھروسہ رکھیں اور فقراء وطالب علموں کی خدمت کریں ۔ ۱۳؎ حوالہ جات ۱؎   آپ کی بے مبالغہ اور معتدل سیرت کے لئے ملاحظہ ہو’’تاریخ دعوت وعزیمت، ج1، ازمفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ، مطبوعہ مجلس تحقیقات ونشریات، لکھنؤ۔  ۲؎    آپ کی سیرت کے مطالعہ کے لئے ملاحظہ ہو’’بزم صوفیاء ‘‘از صباح الدین عبدالرحمن، مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ  ۳؎    یمنی، نظام الدین، لطائف اشرفی، مخدوم اشرف اکیڈمی، کچھوچھہ، ص56۔  ۴؎   ایضا، ص15  ۵؎    سید، اقبال احمد، تاریخ شیراز اہند جونپور، مطبع نامی پریس، لکھنؤ، 1983ء؁، ص 579-580  ۶؎    خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، لکھنؤ، ص6 ۷؎     میرے سامنے اس وقت پدماوت کے دو نسخے ہیں ، ایک اردو رسم الخط میں ہے جوپنڈت بھگوتی پرساد کے ترجمے کے ساتھ مطبع نول کشور، لکھنؤ سے شائع ہوا ہے،  اور دوسرا دیوناگری رسم الخط میں ہے جو ڈاکٹر ماتا پرساد گپت کی تحقیق و ترجمے کے ساتھ نومبر۱۹۶۳؁ میں بھارتی بھنڈار پریس الہ آباد سے شایٔع ہوا ہے۔ اشعار مع ترجمہ اول الذکر سے ماخوذ ہیں مگر اس میں "مبارک "کی جگہ پر” محمد” لکھا ہوا ہے، جبکہ مؤخرالذکر میں ، جو کہ پدماوت کے مختلف نسخوں سے رجوع کرنے کے بعد تیار کیا گیا ہے، "مبارک” ہی لکھا ہوا ہے، ملاحظہ ہو صفحہ نمبر ۱۴۔ ۸؎        جائسی، ملک محمد، پدماوت، ، مطبع نول کشور، لکھنؤ، صفحہ : ۹  ۹؎        یمنی، نظام الدین، لطائف اشرفی، مخدوم اشرف اکیڈمی، کچھوچھہ، صفحہ۱۴ ۱۰؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی)، ذاتی لائبریری مولانا سلمان اشرف، ص6، (ندوۃ العلماء کے نسخہ میں حفظ کا تذکرہ نہیں ہے ا س لئے مغالطہ ہوتا ہے کہ آپ نے نو ہی سال کی عمر میں تمام معقول ومنقول علوم حاصل کرلئے تھے جو صحیح نہیں ہے، ص6) ۱۱؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص8  ۱۲؎  ایضا، ص8 ۱۳؎   ایضا، ص8 


مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=31442

Thursday, November 2, 2017

مغربی تہذیب کی تنقید یا خود احتسابی


مغرب کی نشاۃ ثانیہ اورمسلمانوں کے زوال کے ساتھ مسلم علماء و دانشوروں کے درمیان مغربی تہذیب کی تنقید کا جو فیشن شروع ہوا تھا وہ آج بھی بدستور جاری ہے اور اسی شدومد کے ساتھ۔حالانکہ تنقید کرنے والے ایک کے بعد ایک میدان ہارتے چلے گئے اور توحید کے پرستاروں میں بھی وہ اسی تیزی اور قوت کے ساتھ سرایت کرتی چلی گئی جیسے کہ دیگر تہذیبوں میں ، اور اسکا اصل سبب یہ ہے کہ حقیقی اسلامی تہذیب آخر زمانہ میں اپنی شناخت کھوچکی تھی اور جسے اسلامی تہذیب سمجھا جاتا رہا تھا اس کی حیثیت ایک زوال پذیر تہذیب کے متعفن جثہ سے زیادہ نہ تھی۔  دوسرا سبب یہ ہے کہ تنقید کرنے والوں نے کبھی روایتی تنقید کے خول سے باہر آکر یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ کون سی وجہ ہے جو لوگوں کو مغربی تہذیب کا دلدادہ بنارہی ہے۔ آخر تمام نقائص کے باوجود اس تہذیب کی ترقی کا راز کیا ہے۔ وہ کون سا ایسا سبب ہے کہ دنیا کی تمام تہذیبیں اس تہذیب کے سامنے سر تسلیم خم کرتی چلی جارہی ہیں ۔ آخر اس تہذیب کے تمام تہذیبوں پر غالب آنے کی وجہ کیا ہے۔ لوگ دین تو وہی پرانا فالو کرتے ہیں مگر رہن سہن کا ڈھنگ بدل دیتے ہیں ، رسم ورواج تو کچھ وہی پرانے سے ہیں مگر سوچنے سمجھنے کا طریقہ بدل گیا ہے۔ تنقید کرنے والوں کو کبھی یہ خیال تک نہیں آتا ہے آخر اپنی تمام کوششوں کے باوجو د وہ پچھلی کئی صدیوں سے شکست کیوں کھاتے چلے آرہے ہیں ، اور انکی تمام مخالفتوں کے باوجود لوگ اسے روز بروز اور زیادہ سے زیادہ کیوں قبول کرتے چلے جارہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ تنقید کرنے والوں کی حالت ظلمت شب کا شکوہ کرنے والوجیسی ہے جو اپنے حصہ کی کوئی شمع جلانا نہیں چاہتے شکوہ ظلمت شب سے تو یہی بہتر تھا اپنے حصہ کی کوشمع جلاتے جاتے انھیں یہ سمجھ میں ہی نہیں آیا یا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ لوگ مغربی تہذیب کے دلدادہ، مغربی تہذیب کی خوبیوں کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ اس تہذیب کے متبعین کی موجودہ عالمی سماج کی تشکیل میں ناقابل فراموش خدمات کی وجہ سے ہیں ۔ ان کی یہ خدمات ان کے اختراعی جذبے اور تخلیقی کاوشوں کا نتیجہ ہیں جس سے ہم کوسوں دور جاچکے ہیں ۔ موجودہ دور میں مختلف علوم وفنون اور ٹکنالوجی میں ان کی جو تحقیقات اور دریافت ہیں اور جو ایجادات انھوں نے کی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے دور حاضر میں تمام طرح کے استحصال کے باوجود انسانی سماج کی فلاح وبہبود کے لئے جو کاوشیں کی ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔  اب ہمیں انکی تنقید کی نہیں بلکہ اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ جب تک ہم انسانی سماج کی بھلائی کے لئے کام کرتے رہے ہمیں سر آنکھوں پر بٹھایا گیا اور جیسے ہی ہم نے تساہل اختیار کی اور اپنے فرض منصبی سے ہٹ گئے دنیا کی تمام قوموں نے ہمیں اپنے پیروں تلے روندنا شروع کردیا۔ ہمیں تنقید کے بجائے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم دنیا کی بھلائی کے لئے کیاکام کر رہے ہیں ، اگر نہیں کر رہے ہیں اور نہیں کرنا چاہتے تو اپنی بے وقعتی کا شکوہ کرنا بے جا ہے کیونکہ ہمیں اپنا کھویا ہو اوقار اسی وقت ملے گا جب ہم انسانی سماج کی خاطرخود کاوش کریں گے۔ یقینا ہمیں بطور امت، بطور قوم ایک نئی پرواز کی ضرورت ہے ایک نئی اڑان بھرنے کی ضرورت ہے۔ 

مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=30823

عارف صاحب: ایک نادر روزگار استاد


دراز قد، کشادہ پیشانی، سفید داڑھی جس میں کہیں کہیں کالے بال ،جسم کااوپری حصہ آگے کی جانب قدرِخم، بارعب
 چہرہ اور آواز میں بھاری پن، یہ تھے میرے پسندیدہ استاذ مولانا عارف سنبھلی ندویؒ۔ عارف صاحب کو میں جانتا تو معہد ہی سے تھا، مگر ان سے تعلم کا شرف پہلی بار مجھے عالیہ ثانیۃ میں حاصل ہوا۔ آپ ندوہ کے سینئر اساتذہ میں سے تھے اور صرف تفسیرپڑھاتے تھے اور ایسے انداز میں کہ انکی ساری باتیں ہمارے ذہن ودماغ میں اترتی چلی جاتیں ، طریقہ تدریس بڑا بے تکلفانہ تھا اور عام طور سے ہم طلبہ ان کے درس سے غائب نہیں ہوتے تھے۔ وہ ہر درس تازہ وعمیق مطالعہ کے بعد دیتے تھے اور اگر کبھی کسی وجہ سے مطالعہ نہیں کر پاتے یا کو ئی بات واضح نہ ہوتی تو بڑی دیانت داری کے ساتھ کہہ دیتے کہ آج میں مطالعہ نہ کرسکا اس لئے آج کا درس کینسل۔ جمعرات کے روز آپ کا پیریڈ سوال وجواب کے لئے خاص ہوتا تھاجس میں ہم طالب علموں کو آزادانہ سوال کرنے کا اختیار تھا خواہ وہ کسی بھی موضوع سے متعلق ہو۔ جمعرات والے دن اپنے پیریڈ میں جب آتے تو کہتے کہ بھائی جو سوال پوچھنا ہو پوچھو میں تمہارے ہر سوال کا دونگا اور جب کو ئی طالب علم کو ئی ایسا سوال کرتا جس کا علم آپ کو نہ ہوتا توکہ دیتے کہ مجھے معلوم نہیں اور جب طلبہ کہتے کہ آپ نے تو ہر سوال کا جواب دینے کا وعدہ کیا ہے تو آپ فرماتے ’’معلوم نہیں ‘‘ بھی سوال کا ایک جواب ہے۔ آپ کے جوابات آپ کی دقت نظر، عمیق علم اور وسیع مطالعہ پر دلالت کرتے تھے اور پوری طریقہ سے واضح ہوتے تھے نہ کوئی گھماؤ پھراؤ نہ کوئی پیچیدگی۔  توحید کے معاملے میں پختہ عقیدے کے حامل تھے اور کسی بھی قسم کی بدعت کے سخت مخالف تھے اور اس سلسلے میں ذرا سی لچک بھی آپ کو برداشت نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ آپ ندوہ کے مصلحتانہ مزاج کے باوجود بریلویت ک سخت مخالف تھے۔ توحید کے موضوع پر آپ کی تقریریں اپنی مثال آپ ہوتی تھیں اور سمجھانے کے انداز میں جدت ہوتی تھی۔ آپ کوئی شعلہ بیان مقرر نہ تھے مگر تقریر کا انداز بہت دلچسپ اور سلجھا ہوا ہوتا تھا جو سامعین کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا اور لوگ ہمہ تن گوش ہوکر سننے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ایک بار درس دیتے ہوئے کسی پس منظر میں آپ نے اپنا ایک واقعہ سنایاکہ جناب عبد اللہ حسنی صاحب کے ہمراہ ایک جلسہ میں آپ کو تقریر کرنے کے لئے مدعو کیا گیا، آپ نے توحید کے موضوع پر تقریر کی جسے عوام نے بہت پسند کیا ،اختتام پر قریبی علاقہ کے کچھ لوگ آئے اور اپنے یہاں اگلے دن جلسہ میں تقریر کرنے کی آپ کو دعوت دی، جب وہاں پہونچے تو معلوم ہوا کہ اس علاقہ میں تعلیم نہ کے برابر ہے اور بریلوی علماکا اثر عوام پر زیادہ ہے، بعض لوگوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ توحید پر تقریر نہ کریں اس لئے کہ یہاں کے لوگ بریلوی خیال کے ہیں مگر آپ نے کہا کہ میں ذات باری تعالی کی توحید بیان کرنے میں کسی سے خوف نہیں کھاتا اور میری تقریر اسی موضوع پر ہوگی بادل نا خواستہ منتظمین نے آپکو اسٹیج پر مدعو کیا، اور آپ نے توحید کے موضوع پر اتنی عمدہ تقریر کی کہ عوام عش عش کراٹھی، جلسہ کے بعد وہاں کے لوگوں نے حسب معمول ایک لفافہ عارف صاحب کو لاکر چپکے سے دیا آپ نے پوچھا یہ کیا ہے تو جواب ملا نظرانہ، آپ نے کہا میں تقریر دین اسلام کی اشاعت، اصلاح وارشاد کے لئے کرتا ہوں نہ کہ اجرت کے لئے، اگر میں نے اصلاح وارشاد کی غرض سے نکالے گئے اپنے وقت کا پیسہ لیا تو اللہ تعالی مجھے کیوں کراجر دینگے۔آپ کی اس بات کا منتظمین پر کافی اثر پڑااور بعض نے یہ کہا کہ ہم تو جلسہ کا مطلب صرف یہ سمجھتے تھے کہ مولانا لوگوں کو بلاؤشعلہ بیان تقریر یں کراؤ اور نظرانہ دو بس۔  آپ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کے قائل تھے اور کہاکرتے تھے کہ قرآن تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے اترا ہے اور اس کو بغیر سمجھے پڑھنے سے ہدایت حاصل نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں آپ نے ایک بار ایک بڑا دلچسپ واقعہ درجہ میں سنایا۔ وہ یہ کہ رمضان میں آپ جب قرآن پڑھنے بیٹھتے تو آپ کی بچی بھی ساتھ میں بیٹھتی اور وہ بیٹھے بیٹھے کئی پارے پڑھ جاتی اور جب اٹھنے لگتی تو دیکھتی کہ آپ نے جہاں سے شروع کیا تھا اس سے ایک ہی دو صفحہ آگے بڑھے ہیں تو وہ معصومیت سے کہتی ابو آپ کتنی آہستہ تلاوت کرتے ہیں میں نے اتنے پارے پڑھ لئے اور آپ نے ابھی دو تین صفحے بھی نہیں پڑھے، آپ اس کی یہ بات سنتے اور مسکرادیتے۔ آپ انتہائی درجہ کے امانت دار اور دیانتدار تھے، اگر کسی سے کبھی بوقت ضرورت قرض لیتے تو جب تک ادا نہ کردیتے انھیں چین نہ ملتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار ہم لوگوایک خالی پیریڈ میں دار العلوم کے اس کونے پر کھڑے تھے جود دار القضاء کی جانب ہے۔ اور آپس میں ہنسی تفریح کر رہے تھے کہ دیکھا عارف صاحب ندوہ مارکٹ سے نکل کر ہماری طرف بڑھے چلے آرہے ہیں ۔ ہم لوگ گھبرا کر درجہ کی طرف جانے لگے تو آپ نے دور ہی سے رکنے کا اشارہ کیا ، میں اور میرے ایک ساتھی وہیں رک گئے کچھ خوفزدہ سے، آپ نے آکر کہا کہ مجھے پانچ روپئے کی ضرورت ہے ، اگرکسی کے پاس ہوں تو مجھے دے دے میں اسے بعد میں واپس کردونگا، ایک صاحب نے دس کا نوٹ نکال کر آگے بڑھایا مگر آپ نے کہا بھائی مجھے صرف پانچ روپئے چاہئے، اتنی دیر میں میں اپنی جیب ٹٹول چکا تھا اور حسن اتفاق سے میرے جیب میں پانچ کا ایک بوسیدہ سا نوٹ پڑا ہوا تھا۔ میں نے وہ نوٹ نکال کر آپ کو دیااور آپ نے شکریہ کہہ کے نام پوچھا اور ندوہ مارکیٹ کی طرف بڑھ گئے۔ کئی دنوں کے بعد ایک دن آپ نے درس دینے سے پہلے پوچھاکہ ارے بھائی تم میں کوئی ہے جس سے میں نے پانچ روپئے اس دن ادھار لئے تھے۔ میری تو بولنے کی ہمت نہ ہوئی البتہ میرے ایک دوست نے میری طرف اشارہ کیا اور آپ نے پانچ کا ایک نوٹ میرے طرف بڑھادیا اور اطمینان کی سانس لی اور کہا  ’’بھائی بڑی مشکل سے ملے تم، میں ان دو تین دنوں میں جس کلاس میں بھی پڑھاتا ہوں سب میں پوچھ چکا ہوں ، یہ آخری کلاس تھی اچھا ہوا تم مل گئے نہیں تو بڑی مشکل ہوتی ڈھونڈنے میں ۔‘‘ اور اس وقت معلوم ہوا کہ عارف صاحب کو قرض کیوں لینا پڑا، در حقیقت ندوہ مارکٹ میں وہ جس دکان سے پھل لیتے تھے وہاں ایک دو بار انھیں ٹوٹے نہ ہونے کہ وجہ سے کچھ روپئے ادھار کرنے پڑے اور دوکاندار نے یہ سوچکر کہ عارف صاحب کو یاد نہیں رہتا آپ سے کئی بار پیسے وصول کرلئے اور آپ نے شرافت کی وجہ سے نا توکبھی نہ کہی اور نا ہی کبھی بحث کی اور آخر کار یہ فیصلہ کیا کہ اس کے یہاں سے ہمیشہ نقدہی خریدوں گا چاہے کسی دوسرے سے ادھار لینا پڑے۔  آپ  بہت حساس طبیعت کے تھے اور علاقائیت اور مسلکی عصبیت کے سخت مخالف تھے۔ آپ کے نزدیک ایک مسلمان صرف مسلمان تھا چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو یا وہ کسی بھی علاقہ سے آیا ہو۔ البتہ ان مسالک کی کا مسئلہ مختلف تھا جو شرک وبدعات اور خرافات کو رواج دیتے ہوں یا اسلام کو زبردستی ہندوستانی رنگ میں رنگنا چاہتے ہوں ۔ اس سلسلے میں مجھے آپ کا ایک واقعہ یادآرہا ہے وہ یہ کہ ایک بارآپ درس کے بعد دفتر اہتمام کے سامنے سے گزر رہے تھے جہاں کچھ طلبا نے داخلہ سے متعلق کاروائی کے سلسلے میں بھیڑ لگاررکھی تھی اور دفترکا ایک ملازم ان سے گفتگو کر رہاتھا، اس نے کسی طالب علم سے تحقیر آمیز انداز میں ہندوستان کے ایک صوبہ کانام لے کر کہا کہ ’’ اچھا تم وہاں کے ہوا۔‘‘ــ  یہ بات آپ کے کان میں پڑی تو آپ بے چین ہو اٹھے اور آپ نے فورا حضرت مولانا ؒ سے بات کی جو اس وقت ندوہ کے مہمان خانہ میں تشریف رکھتے تھے، انہوں نے فورا طلبہ کے درمیان یہ اعلان کروایا کہ آج آخری پیریڈمیں درس نہیں ہوگا بلکہ طلبہ وملازمین مسجد میں جمع ہونگے ،چنانچہ چھٹے پیریڈکے بعد چھٹی ہو گئی اور تمام طلبہ مسجد میں جمع ہوگئے جہاں آ پ نے علاقائیت کے خلاف سخت لہجہ میں تقریر کی اور کہاکہ اس قسم کی چیزوں کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔   ایک بار ایک صاحب جو ایک میگزن کی ادارت کرتے تھے اور مسلک اہل حدیث کے خلاف لکھنے کے لئے مشہور تھے عارف صاحب سے ملنے آئے اور آپ کو بھی اہل حدیث حضرات کے خلاف لکھنے کی دعوت دی۔ آپ نے ان سے سیدھا سوال کردیا کہ کیا وہ شرک کرتے ہیں جواب نفی میں ، کیا ان کے عقائد اور اعمال قرآن وحدیث کے خلاف ہیں جواب نفی میں ، تو پھر آپ ان کے خلاف کیوں لکھتے ہیں آپ کے قلم میں اللہ نے طاقت دی ہے تو آپ کو اسے ایسے لوگوں کے خلاف استعمال کرنا چاہئے جن کے عقائد قرآن وحدث کی تعلیمات کے خلاف ہوں اور جو شرک میں مبتلا ہوں ۔ عارف صاحب  ایک مکمل اور مثالی استادتھے اور ان کے دروس تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے پہلو بھی اپنے اندر سموئے رہتے تھے، اللہ تعالی انھیں کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے۔ 

مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=30547

Wednesday, November 1, 2017

دل و نظر سے ترا انتظار کرتا ہوں





غزل



دل و نظر سے ترا انتظار کرتا ہوں



دل و نظر سے ترا انتظار کرتا ہوں

 تجھے ائے جان وفا کب سے پیار کرتا ہوں

 وہ  رات وصل کی بیتی وفا کی باتوں میں
 میں ویسی شب کی تمنا ہزار کرتا ہوں

 غریب جان کے تم نے ستم بہت ڈھائے
 چمن میں بیٹھ کے آنسو شمار کرتا ہوں

 ملا ہے مجھ کو محبت میں یاد کا تحفہ 
تمہارے ہجر میں محسنؔ اشعار کہتا ہوں 

مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=30766

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...