Saturday, May 5, 2018

فرحانہ میم: کچھ یادیں کچھ باتیں



ہندوستان میں عربی زبان و ادب کے اساتذہ کی فہرست میں شاذ و نادر ہی کسی خاتون کا نام نظر آتا ہے اور ایسا ہی  ایک  نادر نام پروفیسر فرحانہ صدیقی میم کا تھا۔آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی ، میں شعبئہ عربی کی صدر تھیں اور مختلف مضامین اور کتابوں کی خالق۔ عربی زبان و ادب کا طالب علم ہونے کی وجہ سے میں نے آپ کا اور آپ کی کتاب نازک الملائکہ کا نام پہلے سے سن رکھا تھا مگر آپ کو قریب سے جاننے اور سننے کا موقع اس وقت ملا جب۲۰۱۰ میں مجھے جامعہ میں پی ایچ ڈی میں دا خلہ ملا۔

آپ شعبئہ عربی کی صدر تھیں اس لئے شروع ہی میں ایک دو موقعوں پر دستخط کے لئے آپ سے ملنا ہواـ،آپ خندہ پیشانی سے ملیں اور بڑے اخلاق سے پیش آئیں۔ ایک دن میرے ایک عزیز جامعہ میں داخلے کے سلسلے میں آئے، وہ شاید داخلہ لینے کی آخری تاریخ تھی اور ان کے ڈکیومینٹس اٹیسٹیڈ نہیں تھے، اور سوء اتفاق ، انصاری آڈیٹوریم میں جو صاحب اٹیسٹ کرتے تھے وہ بھی اس دن نہیں آئے تھے۔میں ان کو لیکر اپنے شعبے میں آیا تو دیکھا کہ لنچ ٹائم ہونے کی وجہ سے اکثر اساتذہ کے کمرے بند ہیں، میں جب میم کے کمرے کے دروازے پر پہونچا تو دیکھا کہ آپ کہیں جانے کے لئے اپنی سیٹ سے اٹھ رہی ہیں، میں نے اپنا تعارف دینے کے بعد آپ سے اٹیسٹ کرنے کی درخواست کی تو آپ اپنی کرسی پر واپس بیٹھ گئیں ، اور ڈاکیومینٹس پر دستخط کرنے لگیں ، میں نے جب اصل کاٖغذات آپ کی بڑھائے تو آپ نے کہا، میں آپ کو جانتی ہوں، آپ ہمارے اسٹوڈنٹ ہیں ،اور ہمیں آپ پر پورا اعتماد ہے۔حالانکہ اب تک میں میم سے دو چار بار سے زیادہ نہ ملا تھالیکن آپ کا یہ اعتماد میرے لئے مسرت کی بات تھی۔

آپ نہ بے جا اصول کے پابند تھیں اور نہ ہی طلبا کے لئے کسی قسم کی مشکلات کھڑی کرنا پسند کرتی تھیں البتہ صحیح اور غلط کا فرق ضرور ملحوظ رکھتی تھیں، آپ کے اخلاق سے میں کافی متاثر ہوا اور دھیرے دھیرے میں آپ سے مانوس ہوتا گیا اور یہ انس اس وقت اور بڑھ گیا جب ہمارے پہلے سیمیسٹر کے پی ایچ ڈی کورس ورک میںلائبریری سائنس کی تدریس کی ذمہ داری آپ کے حصہ میں آئی۔آپ نے لائبریری کے استعمال کے تعلق سے صرف ضروری ہدایات اورنوٹس مہیا کرانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ معمول سے آگے بڑھ کر ہمارے لئے ایک لائیبریرین کے ساتھ خاص طور سے سیشن کا انتظام کیا تاکہ لائبریری کے استعمال کی تکنیکی باریکیوں سے ہم واقف ہو سکیں ، آپ کا یہ قدل یقینا طلباء کے لئے آپ کے خلوص پر دلالت کرتا ہے۔

آپ کے خلوص کے تعلق سے ایک واقعہ اور عرض کرتا چلوں جو خود راقم کے ساتھ پیش آیا۔ آج کے دور میں طلباء کی کثرت کی وجہ سے اساتذہ عام طور سے خود اپنے زیر نگرانی کام کررہے ریسرچ اسکالرس کے موضوع نہیں یاد رکھ پاتے دوسرے اسکالرس کی بات ہی کیا، مگر صدر شعبہ ہونے کی وجہ سے فرحانہ میم سب کی خبر رکھنے کی کوشش کرتی تھیں، اور اگر کسی کے موضوع کے متعلق کچھ مواد آپ کو دستیاب ہوتا تو آپ مہیا کرا دیتیں اور اس کا ذاتی تجربہ راقم کو اس وقت ہوا جب ایک دن ایک کاغذ پر دستخط کرانے میم کے پاس گیا۔ جب میم دستخط کر چکیں تو مجھ سے پوچھا ــ کہ آپ غسان کنفانی پر کام کر رہے ہیں نا، جب میں نے ہاں میں سر ہلایا تو میم نے کہا مجھے ایک میگزین موصول ہوئی ہے جس میں غسان کنفانی کے اوپر ایک مضمون ہے، میں نے میگزین الگ نکال کر رکھی ہے ، دیکھ لیجئے شاید آپ کے کام کا ہو۔ جب میں میم کا شکریہ ادا کرکے وہ میگزین لیکر آپ کے چیمبر سے باہر جانے لگا تو آپ نے مسکراتے ہوئے کہا، ارے بھائے میگزین رکھ مت لینا اپنا کام کرکے واپس کر دینا اس لئے کہ مجھے بھی کام ہے۔میں نے پلٹ کر او کے میم کہا اور تشکر کے جذبات سے لبریز آپ کے چیمبر سے باہر آگیا۔

فرحانہ میل قصیرالقامت تھیں اور اسکا خود انکو اعتراف تھا، اور اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ہمارے شعبے میں ہندوستان میں عربی زبان و ادب کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد ہونے جا رہا تھا جس میں ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیز سے عربی اساتذہ کو مدعو کیا گیا تھا۔سیمینار کی تیاریاں زوروں پر تھیں اور ایک کارکن کی حیثیت میں بھی انتظام میں شریک تھا،سیمینار شروع ہونے سے ایک دن قبل میرے ایک عزیز دوست کو ایک ذمہ داری سونپی گئی اور وہ تھی اسٹیج کے پاس ایک الگ سے لکڑی کا ڈیسک منگواکر رکھنے کی، ابتداء میں سمجھ نہ سکا کہ آخر اسکی کیا ضرورت مگر شام کو جب فرحانہ میم سیمینارہال کے معاینہ کے لئے آئیں اور آپ کے اشارے پر وہ ڈیسک ڈائس کے پیحھے رکھی گئی تب اسکا اصل مقصد پتا چلا۔آپ ڈائس کے پیحھے گئیں اور اس ڈیسک پر چڑھ کر یہ چیک کیا کہ آیا آپ مائیک تک پہنچ پا رہی ہیں یا نہیں، جب آپ مطمئن ہو گئیں اور ڈیسک سے نیچے اتریں تو زیر لب مسکرا رہی تھیں اور انہیں دیکھ کر میری زبان سے بے ساختہ عربی کا یہ شعر نکل گیا۔

ان لم یطل جسمی طویلا فاننی

لہ بالفعال الصالحات وصول

ترجمہ: میں بلند قامت نہیں ہوں تو کیا ہوا، میں اپنے کارناموں سے بلندی پر پہونچوں گا۔

میم نے یہ شعر سنا تو ہنس کر کہا، محسن جی اس طرح کے میں نے بہت سے شعر یاد کئے تھے ، کیا کروں چھوٹی ہوں نا۔ آپ کی یہ بات سن کر وہاں پر موجود دوسرے لوگ بھی ہنس پڑے۔ آپ ہنستی مسکراتی ایک زندہ دل شخصیت کی مالک تھیں اور خود اپنے اوپر ہنس کر بھی ہنساتی تھیں جو بہت کم لوگوں کو آتا ہے۔ میں نے میم کو عربی بولتے سب سے پہلے اسی سیمینار میں سنا تھا، آپ انتہائی شستہ اور سلیس زبان بول رہی تھیں، نہ کہیں تکلف تھا نہ کہیں بناوٹ بلکہ ایک روانی تھی جو آپ کے تجربے اور عربی زبان و ادب پر آپکے عبور اور عربی ثقافت سے آپکے گہری واقفیت پر دلالت کر رہی تھی۔ مجھے آپ سے استفادہ کا بہت زیادہ موقع نہ مل سکا اس لئے کی ایک سال کے اندر ہی آپ کا انتقال ہو گیا۔ آپ شعبئہ عربی صدر رہتے ہوئے ہی ۳۱ دیسمبر۲۰۱۱ کو اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔اللہ تعالی آپ کو غریق رحمت کرے۔

مزید ⇦ http://mazameen.com/?p=42117


Friday, May 4, 2018

A Sketch of My Granny


In the country side of UP, in a small village of Raebareli, there once lived an elegant elderly lady, my maternal Granny. A square tract of land bounded from all the sides by the sticks of bamboo (Tatia) was comprised of her mud house situated in a corner and her favorite time-pass garden and orchard in the remaining space in which she would grow fruits like, guava, Banana, Custard-apple and Dates. The bigun-belia, planted alongside the boundary line had grown well and at many places covered the wall of bamboo sticks, and when it would bear flowers, the scene was awesome and  treat for the eyes. The fragrance of the plant of Bella in the early hours of morning would fill the courtyard. There was a date tree just next to the small gate, which used to be laden with sweet dates in its season. In one corner there was a tree of black-berry which would give juicy black fruits in the hot summer and it was a great delight to enjoy them with a pinch of salt under the cool shade of that tree itself. And in the same way the trees of Guava and custard-apple which were about half a dozen in number would bear sweet fruits.

Of all these fruits the custard-apple had the best test for me, and it still reminds me of my grand mother when ever I see this. I remember well that when we would pay a visit to her place in the summer, we found that she had already plucked some raw custard-apple and put them in an earthen pot (Matki) to make them ripen sooner for us.

All these trees and plants owed to her efforts. As far as I could collect my reminiscent of her, she was in her sixties but still energetic, I had seen her taking care of the flower plants of, marigold and Bella in her compound, After finishing all the chores, she would take a round in her compound and water the plants, make a fencing of sticks or burnt bricks around the trees if required to save them from wandering goats and cows of the neighbors which would barge in the court-yard sometimes.

She was a pious and god-fearing, and a very generous and charitable kind of lady and was always ready to help others. She would feel pleased and happy after giving alms and I never saw her rebuking a beggar. Through my constant visits to her I came to recognize many faces of the beggars who would come to her door from time to time and not only took alms but also demand used-clothes to wear and she would bring some old and intact dresses of my uncles to give them eagerly.

My mother was the only daughter she had and she would give special care whenever we reached there. I still remember the delicious indigenous cuisines she used to cook for us and her happiness after seeing us. 

One morning, when I was in my school, one of my uncles came to take leave for me and I was shocked to hear that the soul of my Granny has left her mortal figure to the final abode, and streams of tears rolled down from my eyes onto my cheeks. At that very young age, I had never felt so sad and grief-stricken as that day and felt like I had lost some very precious thing of my life. May her soul rest in peace. 

Thursday, April 26, 2018

يوم في مدينة بونى

كنت مشغولا في مكتبي في نيودهلي، في ظهيرة اليوم الثامن من شهر ديسمبر عام 2010 وأعمل على الكمبيوتر، إذ رن هاتفي المحمول، فاستلمت المكالمة وكانت على طرف آخر امرأة عذبة الصوت، تتكلم من شركة وودافون من مدينة بونى، وما إن علمت بأن المكالمة تتعلق بالوظيفة خرجت من مكان العمل لكى أتكلم بطمأنينة. إنها قامت بتعريف شركتها أولا ثم أخبرتني عن وظيفة شاغرة و سئلتني عن رغتي في وظيفة أخرى و استعدادي للترحيل إلى مدينة بونى لو يتم اختياري للوظيفة. أجبت لها كل ما سألت ثم قالت “سأقوم بتحديد موعد المقابلة لك.” فسألت: في أي مكان؟ فقالت “في نيو دهلي، و سأرسل جميع التفاصيل إلى بريدك الإلكتروني،” و بعد كلمات الوداع انقطعت المكالمة، ثم اتصلت بي مرة أخرى بعد قليل وقالت “لا يمكن إجراء المقابلة في دهلي و عليك أن تجئ إلى بونى للمقابلة الشخصية” ثم طلبت مني أن اقوم بتحجيز مقعد لي في صباح اليوم التالي 9 ديسمبر، و أن اخبرها على الهاتف بعد الحجز، ولا أفكر في النقفة لأن الشركة سيقوم بتعويض ذلك. فقمت بتصفح الانترنت للبحث عن مقعد خال، ولكن التذاكر كانت غالية جدا فلم أجترأ ان اقوم بالحجز، وبعد نصف ساعة اتصلت بي وقالت لي إنها ستقوم بحجز التذاكر لي بنفسها ثم قطعت المكالمة. في الساعة السابعة اتصلت بي وأخبرتني بأنها قد قامت لي بحجز التذكرة و أرسلتها على بريدي الإلكتروني، كنت فرحا و مسرورا، فكانت هناك تذكرتين للذهاب في الصباح الباكر والإياب في المساء في نفس اليوم.

وهكذا حوار وظيفي في شركة فودافون وفر لي فرصة ذهبية لزيارة مدينة بونى إذ وفرت لي الشركة تذكرتى الذهاب والإياب بالطيران. والجدير بالذكر أن هذه المدينة كانت عاصة لحكماء الدولة المرهتية التي تشكلت عند انهيار الامبراطورية المغولية قضى عليها الملك الأفغاني أحمد شاه الأبدالي. وهي ثاني أكبر مدينة في ولاية مهاراشترا، و سابع أكبر مدينة في الهند، وهي تعتبر واحدة من مراكز خدمات تكنولوجيا المعلومات الرائدة في الهند، وهي موطن لأكبر حديقة لتكنولوجيا المعلومات في الهند المعروفة بـ”حديقة راجيف غاندي لتكنولوجيا المعلومات”، وكذلك حديقات أخرى للتكنولوجيا.

كان ذلك في اليوم التاسع من شهر ديسمبر عام 2010، خرجت في الصباح الباكر من البيت ووصلت المطار في الوقت المحدد إذ كانت تذكرة الذهاب في أول رحلة صباحية لشركة كنغ فيشر ايرلائن التي كانت أغلى شركة للطيران في الهند وعُرفت لاهتمامها الزائد بسبل راحة المسافرين، وبجمال المضيفات الجوية. كانت الرحلة مريحة وممتعة ووصلنا الوجهة النهائية في حوالى ساعة ونزلت من على متن الطائرة بسلام. كان على باب مطار بونى حشد كبير لأصحاب أوتو والتاكسي، وبدا من وجوههم ولغاتهم كأنهم مزيج من شمال الهند وجنوبها، فشعرت كأنني أطل من نافذة على جنوب الهند التي تختلف من شمال الهند في الثقافة واللغات، وملامح الوجوه، ولون الجلد. تحادثت أحد السائقين وغادرت إلى المنطقة الاقتصادية الخاصة بتكنولوجيا المعلومات والمقاولات المعروفة بـ”حديقة خرادي للمعرفة” (Kharadi Knowledge Park)، حيث تم الحوار مع المدير لحوالى نصف ساعة، ووقف الأمر على أن التحق بالشركة في أسرع وقت ممكن، ولكنني كنت قد قررت في نفسي أن لا ألتحق بهذه الشركة إذ كنت نلت القبول في الدكتوراه في الجامعة الملية الإسلامية بنيو دهلي ووددت أن أواصل الدراسة العليا. بعد ما خرجت من المبنى، اتصلت بصديقي الحميم أياز أحمد الذي كان يسكن في هذه المدينة في ذلك الحين بسبب وظيفته في شركة هناك، وعندما تأكدت من أنه لا يمكن لقاءه اليوم بسبب بعض أشغاله المهمة، اكتريت أوتو لطول اليوم وقلت لصاحبها أن يذهب بي إلى بعض الأمكنة السياحية الشهيرة في بونى.

زيارة قصر آغا خان (بيليس): فذهب بي إلى قصر آغا خان الذي كان على بعد حوالى ست كم. هذا قصر شامخ جميل وتحيط به حديقة مترامية الأطراف، وهذه الزيارة جاءت مثيرة إذ ساعدتني في فهم تجربة مهاتما غاندي وحياته، فقد كان هذا الرجل العظيم وُضع في هذا القصر تحت إقامة جبرية مع زوجته كاستوربا غاندي وسكرتيره ماهاديفاي ديساي عقب إطلاق حركة “أخرج من الهند” في عام 1942، فاقاموا في هذا القصر من 9 أغسطس 1942 إلى 6 مايو 1944، وخلال هذه المدة توفي ماهاديفباي وكاستوربا في هذا القصر ويقع مقبراهما في فناءه. وهكذا أصبح هذا القصر نصبا تذكاريا وطنيا لغاندي وحياته، وواحدا من أكبر المعالم لحركة استقلال الهند والتاريخ الهندي.

كذلك عرفتني هذه الزيارة إلي شخصية عظيمة أخرى، شخصية سلطان محمد آغا خان الثالث (1877-1957) الذي كان بنى هذا القصر الجميل في عام 1892، وذلك ليس ليعيش حياة مترفة فيها بل كعمل خيري لمساعدة الفقراء في المناطق المجاورة الذين كانوا ضربوا بشكل كبير من المجاعة. كان آغا خان الإمام الثامن والأربعين للفرقة الإسماعيلية النزارية ولكنه بسبب عبقريته وإخلاصه عُرف في جميع الشعوب الهندية وتم اختياره كأول ريئس للعصبة الإسلامية لعموم الهند التي تم تأسيسها في عام 1906 للدفاع عن حقوق المسلمين السياسية في الهند. إنه سافر في أنحاء الهند وتلقى اعترافات من الإمبراطور الألماني، الإمبراطور التركي، وملك فارس لخدماته العامة، وقد منحته الملكة فيكتوريا في عام 1897 تمييز قائد فارس الإمبراطورية الهندية. إنه كتب عديدا من الكتب من أهمها “India in transition” الذي يتناول سياسة الهند قبل ما قبل تقسيم الهند، وسيرته الذاتية بإسم “World Enough and Time”.

قضيت في هذا المبنى عدة ساعات خلالها زرت المتحف ومعرض الصور في داخل المبنى، وتنفست الهواء النقي في فناءه، وعندما غلب علي الجوع اتصلت بسائق أوتو وطلبت منه أن يذهب بي إلى مطعم أو مول حيث أشبع بطني الذي كان خاليا منذ الصباح.

زيارة فونكس ماركيت سيتي (Phoenix Market City): عندما نزلت من أوتو وجدت نفسي أمام مول كبير وبين حشد من الناس، وكما عرفت فيما بعد أنه أفضل وأشهر مول في مدينة بونى. وبعد ما شبعت تجولت فيه فوجدت فيه كل المحلات التجارية التي كان يمكن لي أن أتخيل بما فيها الهندية والدولية، وخيارات التسوق التي لا نهاية لها، والمطاعم المتنوعة، والحانات والبارات، وخيارات الترفيه لكل من الصغار والكبار، والأجواء الفائقة، و المراحيض النظيفة التي أقرب إلى مراحيض الفندق ذات النجوم في الجودة والطهارة، ومساحة وافرة لوقوف السيارات، هكذا لم أجد هناك ما يشكى، فكان رائعا حقا. لم أدرك كيف مضى الوقت بسرعة، وكنت أريد أن أزور الأمكنة الأخرى في هذه المدينة ولكن يكن لدى مزيدا من الوقت فاتصلت بالسائق وغادرت إلى المطار.

بعد ما تم انهاء إجراءات الوصول في المطار وجدت أن رحلة الطائرة قد تأخرت لساعة، ثم لساعة أخرى ثم لساعة ثالثة. كان هذا الجلوس في هذا المطار الصغير مملا ولكن تصادقت مع بعض المسافرين الذين كانوا ينتظرون لنفس الطائرة ثم خرجنا من المطار بعد ما تكلمنا مع حراس الباب أقنعناهم ثم شربنا الشائ في مطعم عام كان يديره رجل مسن له ذوق في الأدب الفن، وعندما اسلتمنا رسالة في هاتفنا عن وقت المغادرة للطائرة رجعنا من هناك. وهكذا هذا السفر رغم كونه ليوم واحد فقط، كان مليئا ببعض التجارب المهمة، وجاء ببعض الاكتشافات المثيرة للاهتمام.

رابط النشر: 
http://www.aqlamalhind.com/?p=999


Wednesday, March 7, 2018

الهنـد وإســرائيل وأمـــريكا: عــــــلاقات ثلاثيــة الأطــــراف


الهنـد وإســرائيل وأمـــريكا: عــــــلاقات ثلاثيــة الأطــــراف


بقلم: فارغيسي كيه. جورج

تعريب وتلخيص: د. محسن عتيق

كتب الصحفي فارغيسي كيه. جورج، المحرر السياسي لصحيفة دي هندو اليومية، مقالا بعنوان: It is a trilateral partnership of India, U.S. and Israel ، ويُنشر مفاد هذا المقال باللغة العربية .

سيتغير مسار العلاقات بين الولايات المتحدة الأمريكية وإسرائيل بعلاقات أفضل تحت إدارة الرئيس الأمريكي دونالد ترامب، وذلك سيؤثر على علاقات الهند مع كلا البلدين تأثيرا إيجابيا، صرح مسؤول رفيع المستوى في اللجنة اليهودية الأمريكية (AJC ) وهي مجموعة مناصرة ذات نفوذ بالغ.

قال مدير الشؤون الدولية في اللجنة اليهودية الأمريكية جيسون آيزاكسون الذي زار إسرائيل مؤخرا، إنه يتوقع بتبادل الزيارات بين رئيسي الوزراء الهندي والإسرائيلي في عام 2017م، واصفا في نفس الوقت، زيارة الرئيس الهندي براناب موخرجي إلى إسرائيل في العام الماضي بـ”الخروج من الخزانة” في سياق العلاقات مع إسرائيل، كما صرح المدير أن هناك أقل تردد في الهند في احتضان إسرائيل، مما قد بدأ قبل السيد نارندرا مودي، لأن ذلك موقف الحزبين المركزيين في الهند، ولكن هذا الاحتضان يمثل أكثر ظهورا تحت قيادة السيد مودي بأن إسرائيل هي الحليف الطبيعي للهند، وثمة منافع متبادلة .

ومتحدثاً مع صحيفة “دي هندو” الهندية في مقر اللجنة التي يتجاوز عمرها 110 عام في واشنطن، وصف السيد آيزاكسون الذي يؤيد ويناصر تعزيز التعاون بين الجاليات الهندية واليهودية عبر العالم، العلاقات بين الهند وإسرائيل والولايات المتحدة الأمريكية بأنها علاقات ثلاثية الأطراف.

مضيفا إننا سنعمل معاً على إبراز منافع العلاقات الثلاثية بين الهند وإسرائيل والولايات المتحدة الأمريكية. وفيما يخص قيام اللجنة اليهودية الأمريكية بالتنسيق مع الهنود الأمريكيين. أكد مدير الشؤون الدولية أن هذه اللجنة قد بذلت كل ما في وسعها في دعم الاتفاق النووي المدني بين الهند والولايات المتحدة الأمريكية .

على الصعيد السياسي:

قال السيد آيزاكسون الذي يزور الهند بانتظام، إنه “يمكن للهنود الأمريكيين واليهود الأمريكيين أن يحققوا أشياءا كثيرة معا. ورداً على سؤال حول طموح العديد من المبادرات الهندية والأمريكية والتي ترمي بنجاح محدود، إلى متابعة النموذج اليهودي للتدخل في السياسة الأمريكية، قال السيد آيزاكسون: “إن الطريقة التي يمكن أن تجعلك مؤثرا في هذا المجتمع، هي جمع الناس معاً، وإعداد جدول أعمال، وجمع الأموال، وتوظيف الموظفين. وإذا لديكم مجتمع له صوت سياسي، فلا بد من التعامل معه كعمل تجاري. وأمريكا ترحب بهذا النوع من النشاط السياسي، ولكن يجب أن تأخذ ذلك على محمل الجد.

ورداً على سؤال حول علاقات الهند مع إيران وكيفية تأثيرها على علاقاتها مع إسرائيل والولايات المتحدة الأمريكية، قال السيد آيزاكسون إن اللجنة اليهودية الأمريكية تتمنى لتتضاءل شراكة الطاقة بين الهند وإيران مع مرور الوقت.

وقال المدير إن الاجتماعات التي عقدتُها مع المسؤولين الهنود في كل من نيودلهي ونيويورك وواشنطن، تناولت قضية إيران، وأنا لن أخفي عليكم قلق اللجنة اليهودية الأمريكية ومجتمعنا تجاه إيران وطموحاتها. إذ نحن ندرك أيضا بأن إيران هي جيران وشريك تجاري هام ومورد مهم للطاقة بالنسبة للهند… فنأمل أنه بإمكان الهند أن تستخدم علاقاتها مع إيران في تأثير تعاملها مع إسرائيل ومع جيرانها في منطقة الخليج وفي دعمها للارهاب. ويجب أن يشعر الإيرانيون بعدم ارتياح من قبل شريكها التجاري الهند.”

وقال السيد آيزاكسون، في حين أعطت إدارة الرئيس ترامب القادمة إشارات واضحة بشأن سياسته تجاه إسرائيل، فأن هناك عدة مسائل أخرى ولا سيما الحرب الأهلية في سوريا، لا تزال متوفرة للنقاش .

رابط النشر: 







حوار: علاقات الهند والصين مع أمريكا تحت الإدارة الأمريكية الجديدة


حوار: علاقات الهند والصين مع أمريكا تحت الإدارة الأمريكية الجديدة


بقلم: سهاسني حيدر

تعريب وتلخيص: د. محسن عتيق

أجرت الصحفية الهندية سهاسني حيدر حواراً مع الخبير الأمريكي بشؤون السياسة الخارجية ديفيد روثكوف، رئيس تحرير البوابة (FP.com) أخيرا، وذلك حيال علاقات الهند والصين مع الولايات المتحدة تحت إدارة الرئيس الأمريكي الجديد دونالد ترامب، وفيما يلي مفاد هذا الحوار .

في حين لم يبق إلا عشرة أيام لأداء اليمين الدستورية للرئيس الأمريكي الجديد دونالد ترامب، سألنا خبير السياسة الخارجية ديفيد روثكوبف، الرئيس التنفيذي ورئيس تحرير البوابة (FP.com)، عما يُتوقع من بعض الأيام الأوائل عقب تولي ترامب مهام مكتبه .

– وُصف العام 2016 بعام الغضب بما شاهدنا فيه النتائج المذهلة من الانتخابات في العديد من البلدان. وفي رأيك، ما هي الاتجاهات الواسعة للعام في العالم خلال 2016 ؟

كثيرا ما شاهدنا في عناوين الصحف التي تتراوح ما بين خروج بريطانيا من الاتحاد الأوروبي ورفض اتفاق السلام في كولومبيا وانتخاب دونالد ترامب للرئاسة الأمريكية، كلها تتعلق بانعدام الثقة العامة بين المؤسسات، وبشعور واسع النطاق بأن الحكومات هي أكثر استجابة لاحتياجات نخبة الناس مما هي لعامة الناس بشكل عام. وهناك عوامل أخرى تكمن وراء تحريك هذه المشاعر – يرتبط عدد منها بالاتجاهات ذات المدى الطويل. وأود أن أشير إليها كالتغيير السريع والتغيير البطيء. فإن التغيير السريع ناتج عن تكنولوجيا، ويؤدي إلى فرط الإنتاجية، مما يقوم بتغيير طبيعة العمل (بتدمير عديد من الوظائف التقليدية في الطريق) وكذلك ظهور وسائل التواصل الاجتماعي التي تقوم بتغيير طبيعة المجتمع والخطاب السياسي. أما التغيير البطيء فهو ديموغرافي يقود المجتمعات القديمة في العالم المتقدم والصين إلى تحويل ظاهرة الكثافة السكانية في جميع أنحاء العالم، وذلك يثير خوفا من “الآخر” (الذي تفاقم بسبب أزمة النزوح والإرهاب) وما إلى ذلك. ويؤدي كلاهما إلى إثارة القلق الاجتماعي والاقتصادي والذي مهد الطريق لعدم القدرة على التنبؤ السياسي وردود الفعل التي شاهدناها. وبالتالي، ملاحظة جديرة بالذكر هي أن ما نراه من عناوين الصحف يختلف من الاتجاهات التي تسود التاريخ. فكانت عناوين هذا العام مثيرة للقلق ولكن الاتجاهات التاريخية الإيجابية بما فيها اتصال متزايد، ورعاية صحية أفضل، وحياة أطول، واقتصادات نامية، وتزايد فرص الوصول إلى المعلومات، وانتشار حريات، وأقل وفيات ناجمة عن الحروب والصراع وغيرها، يشير كلها إلى أن الحياة على هذا الكوكب تتحسن رغم أنه لايمكنك أن تقول ذلك بسبب التطورات السياسية في بعض البلدان.

– هل تهدأ صدمة نتيجة الانتخابات الآن في واشنطن؟

الصدمة آخذة في الخفوت قليلا. وكثير من الناس في الجانب الجمهوري يسعون للتعامل مع ترامب كالعادة. ولكن الغالبية العظمى من الأمريكيين صوتت لصالح شخص آخر، بينما يدخل ترامب المكتب بأقل تقدير من الموافقة بالنسبة لأي رئيس مقبل في التاريخ الحديث. ويشعر كثير من المهنيين والرجال العاديين بقلق شديد بأن ترامب سيكون رئيسا مدمرا بشكل غير عادي لمصالح الولايات المتحدة في الداخل والخارج. وبالتأكيد، هذا هو رأيي.

– وفي رأيك، ماذا ستكون الخطوات الأولى للسياسة الخارجية للرئيس ترامب في 20 يناير؟

من المحتمل أن يأخذ السيد ترامب على الصين في مجال التجارة، ويتخذ خطوات “لبناء الجدار” (مع المكسيك) أو يتعامل مع الهجرة غير الشرعية من الجنوب، وربما يقترب من روسيا أكثر فيما يخص الحرب ضد الداعش، ويتخذ خطوات لتجديد الضغط على إيران اعتناقا بآراء أكثر تطرفا في إسرائيل (بما يتفق مع حكومة نتنياهو) و ما إلى ذلك.

– في رأيك، كيف ستتعامل إدارة ترامب مع الهند؟

إنني أعتقد بأن العلاقة مع الهند ربما تتحسن بشكل جيد لأن فريق ترامب متشكك فيما يتعلق بالصين، وليس هناك وسيلة لمواجهة الصين بدون علاقة وثيقة بين الولايات المتحدة والهند. وعلاوة على ذلك، أن الرئيس ترامب له علاقات تجارية في الهند، الأمر الذي يهمه. أما المكالمة الهاتفية الحارة التي أجراها مع نواز شريف كانت استنادا إلى الجهل تقريبا، فلذا لا ينبغي لنا أن نستنتج الكثير منها. إلى ذلك، يريد رجال الأعمال تعزيز العلاقات بين الولايات المتحدة والهند، وسيستجيب الرئيس ترامب لذلك. حيث تشير اتجاهات التاريخ إلى تعاون أقرب وأوثق بكثير بين الولايات المتحدة والهند، فلا يمكنه أن يتراجع عن تلك الاتجاهات و هو بنفسه لا يميل إلى ذلك.

– هل سيواصل ترامب سياسة التركيز على آسيا كالمركز الدفاعي؟

أنا متأكد من أن التركيز لن يستمر على نحو سياسة كلينتون وأوباما. مما يعني بأن أهمية آسيا المتصاعدة ليست خيارا سياسيا لأنه اعتراف بالواقع الاقتصادي والسياسي. وقد تحول مركز الثقل الاقتصادي والسياسي في العالم من الولايات المتحدة عبر المحيط الهادي فيجب أن يتبعه صانعو السياسات في كل مكان.
رابط النشر:

Tuesday, February 13, 2018

أدب المقاومة: دراسة في النشأة والتطور

Adab Al-Muqawama: Dirasah Fi al-Nashaah wa al-Tatawwur, Majallah Al-Mushahid (ISSN 2348-716X), Lucknow, Vol.2, issue 1, Feb 2016, Page no. 25-33.

أدب المقاومة الفلسطينية: دراسة في الشعر

Adab al-Muqawama al-Falsatiniyah: Dirasah fi al-Sheir, Al Thazamun (ISSN 2350-1219), Vol. 1, Issue No. 5, Nov-Dec 2015, Alwya-Kerala, Page no. 19-23.


سوانح مولانا روم: دراسة تحليلية

Sawaneh Maulana Rome: Dirasah Tahliliyah, Majalla-tul-Hind (ISSN 2321-7928), Volume No. 3, Issue 1-4, 2014, Feb-Dec 2014, Bolpur-West Bengal, Page no. 395-415.


العلامة شبلي النعماني وتاريخ الطب

Al-Allamah Shibli al-Noamani wa Tarikh al-Tib, Majalla-tul-Hind (ISSN 2321-7928), Volume No. 4, Issue 3-4, 2014, July-Dec 2015, Bolpur-West Bengal, Page no. 254-270.

رابط النشر:
http://azazmi.com/majallatulhind-pdfs/Majalla%20Vol%204%20%20-3-4%20New.pdf


الخطابة العربية في الهند

Al-Khitabah al-Arabiyyah Fil Hind wa Dauruha fi Nashr a- Dawah, Al-Baas-El-Islami (ISSN 2347-2456), Vol. No. 60, Issue no. 04, Sept-Oct 2014, Lucknow, Page no. 44-61.
رابط النشر:

شیخ مبارک بودلے جائسی اور اودھ میں اسلام کی نشرواشاعت

Sheikh Mubarak Budley Jaisi aur Awadh Mein Islam Ki Nashr wa Ishaat men Unki Khidmat, Maarif (ISSN 0974-7346), Vol. No. 193 (3), March 2014, Azamgarh, Page no. 203-227.

رابط النشر:



Thursday, February 1, 2018

The First Gift From My Son




The First Gift From My Son

When I started opening my bag to take out my clothes, my fingurs touched upon a box, out of curiosity I took it out and was amazed to see a gift pack. It was a pencil box wrapped neatly and elegantly. I immediately remembered my wife saying, “Abdullah bought you a gift and put it in your bag” when I was leaving the village the day after the Eid after celebrating it with my family. At that time Abdullah appeared to be blushing and refused to tell me and his mother what he had put in my bag. I had not taken this seriously that time, but now I remembered the face of Abdullah and I found myself curious enough to find out what this box actually contains, a thought rushed to my my mind, is Abdullah mature enough now to buy a gift for his father? does he know what a father like me loves to have as a gift? Does he know the meaning of the gift? Does this mischievous and annoying boy loves me so much? Does he feel he will miss me after I leave the village?

I received the first gift from my son, and this is the best gift for me and a father like me, and I could not help myself but to admit his thorough understanding of my hobbies and liking. he must have noticed me busy with writing during the night after returning from my office, sometimes to dusk, and awake during the weekly holidays when I needed the rest. After seeing this pen, memories of a poem of Mohammad Nazim Nadwi flashed through my mind, that I had read during my school days some 20 years ago. The poem was originally written in Arabic when he got a gift from his teacher who had just returned from Deccan, and it can be roughly translated as below:

My lord gifted me a very slim pen from Deccan

This is more precious than the pearls and and slimmer than a beautiful figure

This is the best thing that can be gifted to a person who want to remain in good memories of the people

Oh, my goodness, this has the best ink of the world

how many penniless people have made great fortune through it during turbulent times.

And how many despicable people have earned respect and glory in their country by this.

This Arabic poem of an Indian poet describes the importance of the pen in human life and its value among the sons of Adam, and what can be more joyous and pleasurable for me than my son’s realization of the truth of the pen, the secret of success hidden in it, and its value that can not be guessed, the respect that it brings to its bearer, and the glory in which its user ushers, and the memories of its holder.

I remember Abdullah, who was only seven years old, was waiting along with his little brother for the joy of the Eid hoping to get the Edis from the adults in our house, and to see the fair of Eid. On the day of Eid he seemed to be the richest man on earth, and he kept the money received from elders in his pocket cautiously without allowing anyone to reach out to his pocket however he thought to spend some money to buy a pen for me. He bought the finest pen available in the village for me and in fact this is the most beautiful gift he could have ever given me.

May god bless you, your brother and sister my son.

الخواطر: أول هدية من ابني



الخواطر: أول هدية من ابني



بدأت أفتح حقيبتي لإخراج الملابس فاحتكت أناملي بحزمة هدية و عندما أخرجتها أدركت بأنها علبة أقلام الرصاص قد تم تغليفها بدقة وأناقة. فتذكرت على الفور قول زوجتي “عبدالله ابتاع لك هدية و وضعها في حقيبتك” عندما كنت أغادر القرية في اليوم التالي للعيد بعد أن احتفلت به مع أسرتي، وبدا عبدلله في ذلك الحين على استحياء و أبى أن يبوح لي و لأمه عما وضع في حقيبتي. عند ذلك الوقت لم أحمل هذا على محمل الجد، ولكن الآن تذكرت وجه عبد الله ووجدت في نفسي حب الاستطلاع عما في هذه العلبة، فكنت فرحا وجال في خاطري هل بلغ عبد الله عمرا يهدي فيه إلى أبيه، هل يعرف ما يهدى إلى أب مثلي، هل يدرك معنى الهدية، هل يحبني هذا الولد المزعج إلى هذا الحد، هل شعر بأنه سيفتقدني بعد مغادرتي القرية. فتحت العلبة بشوق و حنين ولم يسعني الأرض فرحا عندما وجدت فيها قلما جميلا، فأتلقى أول هدية من ابني، وهذه أفضل هدية لدي و لأب مثلي، ولم أتمالك على نفسي إلا أن اعترف بإدراكه الدقيق لهواياتي، فقد كان لاحظني أثناء الليل مشغولا بالكتابة بعد العودة من مكتبي في بعض الأحيان إلى غسق الليل، ويقظا خلال العطلة الأسبوعية. وبعد رؤية هذا القلم أسرعت إلى ذهني أبيات للأستاذ محمد ناظم الندوي، وكنت قد قرأتها خلال دراستي في المكتب قبل حوالى عشرين عاما:

أهــــدى إلـي سيــــدي قـــلما رشيقـــا مــــن دكن

أغلى من اللؤلؤ وارشقا من القد الحسن

هو خير ما يهدى الى من يبتغي الذكر الحسن

يا حبذا تلك العلى من ماجد حبر الزمن

كم معدم نال به مالا عظيما في المحن

كم صاغر عز به و نال مجدا بالوطن

هذه الأبيات للشاعر الهندي تشير إلى أهمية القلم في الحياة الإنسانية و قيمته بين أبناء آدم ، وما الذي يمكن أن يكون أكثر بهجة و سرورا لي من إدراك ابني لحقيقة القلم، و السر المختفي فيه للنجاح، ، وقيمته الغالية التي لا تقدر بثمن، والعز الذي يكمنه لحامله، والمجد الذي يقدر لمستخدمه، والذكر الحسن لمستخدميه.

فهذا الابن الذي لم يتجاوز إلا العام السابع من عمره، كان ينتظرمع اخيه الصغير لبهجة العيد بفارغ الصبر آملا في الحصول على العيادي من الكبار في بيتنا، ورؤية سوق العيد. كان يبدو يوم العيد كأنه أغنى من كل رجل ويحتفظ بربياته في جيبه بكل احتياط ولم يدع أحدا أن يمد يده إلى جيبه وحتى أنا، قد أراد أن يبذل بعض المال في اشتراع قلم لي، وكانت رشاقة القلم و أناقته تدلان على أنه اشترى أحسن وأفضل قلم متوفر في القرية. فهذا أجمل هدية استطاع أن يهدي إلي.

.الله يسلمك ويخليك ويحفظك يا بني و دم أنت و أخوك و أختك وما يحرمني الله منكم أبدا.

رابط النشر: http://www.aqlamalhind.com/?p=808





ذكريات و خواطر: طفل مطرود


ذكريات و خواطر: طفل مطرود


كلما أرى طفلا يطرده شيخ هرم أو شاب بشقاوة في المسجد تعود إلى ذاكرتي قصص طفولتي في مسجد القرية. كنت لم أتجاوز السابعة عندما بدأت أذهب إلى المسجد خائفا مترددا، و أول مرة عندما ذهبت إلى المسجد كان ذلك في رمضان. قدأعدت أمي انواع الوجبات للإفطار وأحضر أبي بعض الحلويات من سوق القرية، وضعت هذه الوجبات في طبق كبير و ذهبنا إلى المسجد قبل غروب الشمس بنصف ساعة. عندما دخلت المسجد قرأت دعاء دخول المسجد كما علمتني أمي، ثم توضأت و جلست حول طبقنامع أبي و أعمامي في صحن المسجد، و كان بعض رجال القرية جالسين حول أطباقهم التي جاءوا بها مع أبناءهم الصغار و الكبار و كان الناس لا يزال يجئون واحدا بعد واحد يحملون في أيديهم سلة أو طبقا. أحضر أحدهم “بلاؤ” الرز المطبوخ الملون المالح في سلة كبيرة و تم توزيع هذا الرز في الجالسين بالحفنة. و كان أكثر الجالسين شيوخا أو أطفالا و كان شيخ عجوز من حينا مشغولا في مطالعة تقويم قد اصفر بسبب القدم، و كان شيخ آخر يأخذ في يده تمرا، و ينظر مرة إلى الساعة الكبيرة المعلقة بالجدار عند المصلى و مرة إلى التمر في يده. و كان في الحلقة القريبة من حلقتنا طفل يبدو جائعا و مضطربا كلما يمد يده إلى الطبق ليأخذ شيئا يحدق أبوه فيه فيسترد يده بخوف..

ماإن غربت الشمس حتى صاح بعض الشبان الذين كانوا يقومون عند الساعة في داخل المسجد “قد حضر وقت الإفطار”، فأكل ذلك الشيخ الذي كان يحمل في يده تمرا بسرعة و شرب جرعة من الماء ثم استقام و بدأ يؤذن بصوت جهوري حسب استطاعته لكئ تفطر النساء اللئ ينتظرن لصوته في بيوتهن. والأطفال الصغار الذين كانوا قائمين خارج المسجد ويطلون من فوق جداره الخارجي جروا إلى بيوتهم ليخبروا أمهاتهم عن الآذان لتفطرن. و عندما فرغ ذلك الشيخ عن الأذان اشتغل مرة أخرى بالأكل مع الذين كانوا بدأوا الإفطار قبل أن يؤذن، و واصل الناس الأكل و الشرب إلى ما يقرب سبع أو عشر دقائق حتى نفد ما جاؤوا به من المأكولات و خلت الأطباق إلا البعض. فتوجه الناس إلى الصلاة و كان الإمام أول من فرغ عن الأكل فتابعه المؤذن و قامت الصلاة و بدأ الناس ينضمون إلى الصفوف. كان أبي من الذين سبقوا إلى الصلاة و كنت أتابعه فقمت بجنبه في الصف الأول و لكن لم تمض دقيقة حتى أخذ أحد بيدي و أقامني في الصف الثاني بدون أي شفقة. و عندما ركع الإمام للركعة الثانية جاء أحد يجري و جذبني بكل قوته إلى الخلف و قام في مقامي. شعرت بخوف و لم أدر لماذا يتعاملون معي هكذا كنت في حيرة لماذا يحدث هذا بي، و لماذا يجتذبونني بهذه الشقاوة، و شعرت كأنني سأبكي و تمنيت ليتني لم أحضر المسجد.، و قد رأيت طفلا آخر يبكي لأنه وبخه شيخ لسبب قيامه في الصف الثاني و دفعه إلى الخلف بدون أي شفقة. بما أنني كنت لم أعرف كيف أصلي فكنت أشاهد من كان في يمني أو يساري, وعندما رأيت هذه المرة إلى يساري رأيت أطفالا مثلي الآن و كذلك في يميني و لكهنم لم يكونوا صامتين بل كان بعضهم يتشاجرون و بعضهم يضحكون و بعضهم يبكون، و أحد منهم ضرب على راسي من الخلف فالتفت إلى الخلف و دهشت لما رأيت، فقد رأيت عمي عمران الذي لم يكن إلا أربع أو خمس سنوات أكبر مني كان يأكل “سنبوسا” من طبق أحد الجيران، ثم توجه إلى طبق آخر ولكن تركه من فوره لعله لم يجد فيه شيئا، ثم أدخل يده في صحن آخر و بدأ يأكل “براتها” منه..

و ما أن قال الإمام “السلام عليكم و رحمة الله” بدأ رجل منهم يصيح على الأطفال و يوبخهم “لماذا تحضرون المسجد”؟ ألا يمكن أن تبقوا في البيت؟ لماذا تصرخون؟ ألا يمكن أن تصمتوا؟ يجب أن لا يحضر أحد منكم إلى المسجد منذ الآن. كان ذلك الرجل يصيح على الأظفان و كنت أفكر، ألا يعلمون هؤلاء الرجال أن يفهموننا بشفقة مثل أمي،ألا يعرفون بأن قلوبنا مثل القواري، ألا يمكن أن يرفقوا بنا في المسجد كما يفعل أبي بي في البيت. ألم تتلمذوا على أستاذ المدرسة الذي يقول ” كان رسول الله _صلى الله عليه و صلم_ شديد الاهتمام بالصبيان و يرفق بهم”.

الرابط: http://www.aqlamalhind.com/?p=141

Sunday, January 28, 2018

غسان كنفاني: الصحفي المناضل



غسان كنفاني: الصحفي المناضل


الكتابات الصحفية تُعد من أبرز عطاءات كنفاني، و أضخمها حجما، و تراثه الصحفي ليس أبدا أقل قيمة من إنجازاته في القصة والرواية، و دوره في الصحافة يعد من أكبر العوامل التي أدت إلى اغتياله، و هذه هي الصحافة التي قادته إلى السجن، ولكن -من الغريب- قد لقي هذا الجانب المهم من شخصيته بالإهمال الكبير لدى الدارسين لإنتاجاته، فلم يحظى غسان بالاهتمام الذي كان يستحقه في هذا المجال.

فهو كان صحفيا قبل كل شئ، و له طابع خاص في كتابة المقال، و تحليل القضاى، و تناول الأخبار، و يتبوأ مكانة مرموقة في مجال الصحافة، و مهارته فيها مسلمة كما يقول الشاعر والصحفي اللبناني عبده وازن: “غسان كنفاني في النهار صحفي من الطراز الأول، و في الليل يتحول إلى القاص المأساوي.”[1] و يقول حنا مقبل: “يكفي أن يشار إلى أنه وصل إلى مرتبة من الإتقان من حيث كتابة المانشيت، إلى كتابة الخبر، إلى صياغة المقال السياسي إلى درجة لم يصل له أي صحافي فلسطيني، و كثير من الصحفيين العرب من الأسماء اللامعة.”[2] و قول حنا مقبل يدل على مدى إلمام غسان بالصحافة، و الموقع الصحفي الذي احتله غسان في العالم العربي.

مسيرة غسان الصحفية:

بدأت مواهب غسان في الكتابة تظهر أمام الناس لأول مرة عن طريق مجلة “الرأي” التي أسسها مجموعة من أعضاء حركة القوميين العرب عام 1954 نتيجة لمحاولاتهم في تأسيس مقر للحركة في دمشق،[3] و كان غسان قد أصبح عضوا نشيطا لهذه الحركة بعد أن لقي جورج حبش رئيس حركة القوميين العرب في عام 1953. إنه ركز على القضية الفلسطينية التي أصبحت شغله الشاغل طول حياته غير المديدة منذ أول يوم أخذ القلم للكتابة.

و بعد أن انتقل غسان إلى الكويت للعمل في المعارف الكويتية عام 1955، رغم اشتغاله مدرسا للرسم والرياضة ، عمل في مجلة “الفجر” الأسبوعية التي كان يصدرها النادي الثقافي القومي و بعض المنظمات لحركة القوميين العرب في الكويت.[4] ثم بدأ يعمل محررا و ناشرا لصحيفة “الرأي” الناطقة بلسان حركة القوميين العرب في الكويت، و ظل يعمل فيها حتى عام 1960م حين غادر الكويت إلى بيروت.[5]

و في إحدى هاتين المجلتين، بدأ غسان يكتب التعليقات السياسية بـتوقيع “ابو العز” بعد أن زار العراق إثر الثورة العراقية التي قضى فيها الجيش العراقي في قيادة عبد الكريم قاسم على المملكة الهاشمية العراقية في 14 يوليو عام 1958، و رأى انحراف النظام والفساد المتفشي هناك. و مقالاته بهذا التوقيع استلفتت أنظار الناس و هي تدل على تطور فن الكتابة الصحفية لدى غسان خلال بضع سنوات تطورا ملحوظا فالذي بدأ حياته الصحفية مبكرا في عام 1954، قد ارتقى المراحل بسرعة فائقة واكتسب اعتماد قادة الحركة إلى حد كبير حتى نرى جورج حبش يدعوه إلى بيروت عام 1960 لينضم إلى أسرة تحرير مجلة “الحرية”، و يتولى مسؤوليات القسم الثقافي فيها.

مجلة “الحرية” كانت مجلة عربية أسبوعية صدرت في بيروت وقد اشترت امتيازها حركة القوميين العرب عام 1959، فأصدرت العدد الأول في 4 يناير عام 1960 للتعبير عن وجهة نظر الحركة.[6] و بقي غسان يعمل في هذه المجلة لثلاث سنوات خلالها ازداد اسم هذا الشاب الطموح لمعانا و شهرة في ميدان الصحافة حتى عُرضت عليه عام 1963 رئاسة تحرير جريدة “المحرر” اليومية التي كانت تعبر عن وجهة نظر الناصريين والقوى المتقدمة في لبنان.[7]

إنه تولى رئاسة تحرير جريدة “المحرر” البيروتية التي كانت تصدر في البداية أسبوعية في كل اثنين، ثم غدت تصدر بشكل يومي. و بعد توليه رئاسة التحرير، بدأ يصدر ملحقا لهذه الجريدة بإسم “فلسطين”. و قد صدر العدد الأول لهذا الملحق في 5/11/1964 و استمر في الصدور حتى 6/7/1967. و حسب قول أوس داؤد يعقوب، هذا الملحق السياسي، والتحليلي، والتثقيفي الذي كان يعبر عن موقف حركة القوميين العرب من مجمل القضايا الفلسطينية إلى حد كبير، كان يصدر نصف شهري بإشراف كنفاني،[8] حينما يذكر محمد صديق بأن هذا الملحق كان يصدر أسبىوعيا.[9] وعلى أي حال، كان هذا الملحق من نوع متفرد يهتم بالأدب الفلسطيني، ويدعو إلى حرب وقائية ضد العدو المحتل، ويوزع مع المحرر علنيا. إن مقالات غسان في هذا الملحق دلت على عنايته البالغة بقضية فلسطين، ولفتت أنظار الناس إليه كمفكر فلسطيني وصحفي جاد، فأصبح مرجعا للذين يهتمون بالقضايا الفلسطينية، من تاريخها، وأخبارها، وشؤونها، وأحداثها.

في عام 1967 إنضم غسان إلى مجلس تحرير جريدة “الأنوار” اليومية اللبنانية الرائدة، التي كانت تعبر عن وجهة نظر الناصريين، ، و تولى رئاسة تحرير ملحقها الأسبوعي، فيكتب لها الافتتاحية الأسبوعية الشهيرة.[10] وكذلك كان يكتب عمودا يوميا في الصفحة الأولى لمجلة “الأنوار” بعنوان “أنوار على الأحداث”، وكان هذا العمود خاصا بالقضايا القومية، وفي مقدمتها القضية الفلسطينية.[11]

مجلة الهدف:

في يوليو عام 1969، استقال غسان عن “الأنوار” ليتولى رئاسة تحرير مجلة “الهدف” الناطقة بلسان “الجبهة الشعبية لتحرير فلسطين” التي كانت ولدت عقب حل حركة القوميين العرب عام 1967. كان غسان عضو المكتب السياسي لهذه الجبهة، و ناطقا رسميا بإسمها، فاشترت الجبهة امتياز هذه المجلة، التي كانت في الحقيقة مجلة سياسية يومية، بإسم غسان كنفاني لتكون لسان حالها.[12]

عندما دخلت هذه المجلة بحوزة الجبهة، و تولى غسان رئاسة تحريرها جعل يصدرها كل أسبوع بعشرين صفحة على قطع كبير- إلا أنه أصدرها خلال أحداث أيلول الجسام عام 1970 بشكل يومي لمدة تسعة أيام- وحولها إلى منبر للصحافة الثورية تهدف إلى توحيد القوى المتحاربة الفلسطينية، وتوجيه العمل السياسي والثوري بكل أنواعها إلى العدو المحتل، ونبذ جميع أنواع مشاريع المهاودة، والمساواة، والاستلام. وقد عبر غسان عن الغاية من إصدارها في عددها الأول الذي صدر 26 يوليو 1969، وهي كما يلي:[13]
الرفض لكل الصيغ العاجزة المتخذة حينا طابع المساواة، و حينا طابع المهاودة، وحينا ثالثا طابع الوسيطة، و اعتناق هذا الرفض الثوري أساسا للمعركة المصيرية.
إنها أتت ردا على الصناعة الإعلامية العربية التي اسقطتها القيم التجارية، وقيم المجتمع المنهار، وفي دوامة العجز والفشل.
أنها لم تسمح لمواقف الارتجال والانفعال المزايدة أن تحل مكان موقف الموضوعية والعلمية

فكما تبدو من الأهداف المذكورة أعلاه، كانت هذه المجلة مجلة ثورية ضد كل ضعف طرأ على موقف الشعب الفلسطيني والعربي تجاه الحرية والاستقلال بدون أية رعاية. وكانت لافتتاحيات غسان الجريئة دوية في المجتمع، و وقع على ملوك العرب، فقد تعرضت المجلة للمحاكمة مرات عديدة نتيجة لبعض افتتاحياته، و أودع غسان السجن في 17 تشرين الثاني عام 1972م بتهمة القدح و الذم والإساءة إلى ملكين عربيين. و عند غسان “هذه التهمة تفقد المقال قيمته، و تجعله بلا معنى، فالمقال ليس إلا نقدا لموقف سياسي مسؤول عن ذلك الملك الذي هو بدوره نتيجة منطقية لبنية النظام الذي يجلس على قمته.”[14]

و ركز غسان على القضايا العديدة من خلال مقالاته و افتتاحياته في هذه المجلة، و من أهمها ما يلي:[15]
الوضع الداخلي للثورة الفلسطينية من كافة جوانبها، ووحدة العمل الوطني الفلسطيني، والقضايا المختلفة التي تهم الشعب العربي و ظروف حياته.
تطور العمل الثوري المسلح، وتعبئة الجماهير، وتنظيمها، وتجهيزها لمعركة التحرير.
قضايا حركة التحرير الفلسطينية
فضح القوى الإمبريالية العالمية والصهيونية، والقوى الرجعية الحليفة لهما.
القضايا الثقافية، طبقية الأدب والفن، إبراز أدباء الأرض المحتلة، تسليط الأضواء على الأدب الصهيوني، النقد الأدبي.

لم يكتف غسان بكتابة الافتتاحيات فقط، بل تحمل مسؤوليات تحرير الأركان العديدة في هذه المجلة من أهمها أركان الأحداث العربية، وأركان الثقافة، رغم أن مرض السكر، والتهاب المفاصل قد نهش جسده الرقيق، و هو يذكر في حوار ظروفَ العمل المرهقة في هذه المجلة فيقول “إن العمل في المجلة مرهق جدا. هذا هو شعوري الآن و قد أتممت عدد هذا الأسبوع. إنني أشعر بالإرهاق، و أنه لأمر مروع لأي كان أن يعمل في مجلة كهذه. ففي اللحظة التي تنتهي فيها آخر جملة من العدد الآخر، تجد نفسك فجأة تجاه عشرين صفحة فارغة تملأها…و أنه لمن الصعب أن يصدق الآخرون بأن ثلاثة أشخاص فقط يقومون بتحرير الهدف. و هذه الحالة قائمة منذ ثلاث سنوات.”[16]

و أدت هذه الظروف والمسؤوليات المكثفة أن يختار غسان توقيعات مختلفة لنفسه بالإضافة إلى إسمه الحقيقي لملأ صفحات هذه المجلة، والمجلات الأخرى بما فيها مجلة “الشؤون الفلسطينية”، و مجلة “الصياد”. فكان يكتب بتوقيع “غ.ك.”، و “فارس فارس”، و “أبو العز”، و “أبو فايز” و بعض الإشارات. و ظل غسان يشتغل كرئيس تحرير هذه المجلة حتى استشهد في صباح الثامن من شهر تموز عام 1972.[17]

مقالات فارس فارس:

من كتابات غسان الصحفية، مقالات تمتاز بالنقد الساخر كتبها خلال خمس سنوات أخيرة من حياته بتوقيع مستعار. إنه كتب هذه المقالات الساخرة أولا في “ملحق الأنوار” الأسبوعي خلال العام 1968 بتوقيع “فارس فارس”، تحت عنوان عام هو “كلمة نقد”. ثم كتب بنفس التوقيع و بنفس العنوان في مجلة “الصياد” اعتبارا من أوائل شباط عام 1972 حتى أوائل تموز من نفس العام حين استشهد.[18] و قد جمع هذه المقالات الأستاذ محمد دكروب في كتاب بعنوان “مقالات فارس فارس: كتابات ساخرة”، و نشرها مع مقدمة قيمة. و يجب التنويه هنا بأن تناولي لكتابات غسان الساخرة بالتالي يعتمد إلى هذا الكتاب الذي طبعته دار الآداب ببيروت عام 1996 لأول مرة.

و هذه المقالات الساخرة التي كتبها بتوقيع “فارس فارس” لم تظهر بالمصادفة، و لم يتجه غسان الجاد إلى كتابة السخرية بصورة مفاجئة، بل نجد عنده قبل ظهور هذه المقالات بوادر السخرية في شكل يومياته التي كان نشرها في جريدة “المحرر” اليومية خلال العام 1965 تحت عنوان “بإيجاز”، بتوقيع “أ.ف.” اي “أبو فايز”، و فائز هو إسم ابنه الذي ولد في عام 1961. و يقول محمد دكروب عن هذه اليوميات: “الطابع العام لهذه اليوميات هو التناول الساخر لجوانب من الحياة السياسية والاجتماعية مع إطلالات نادرة و خفيفة على الحياة الثقافية. و لعل هذه اليوميات كانت بمثابة بروفة في الكتابة الساخرة مهدت لظهور فارس فارس و مقالاته النقدية الأكثر تنوعا و عمقا و نضجا.”[19] فهذه اليوميات، التي تدل على دراما الحياة والموت، كانت التجربة الأولى لغسان في مجال الكتابة الساخرة، النوع الأدبي الذي كان مفقودا في الأدب العربي المعاصر.

و لفهم مدى السخرية في هذه اليوميات، ونوعيتها، أعرض هناك نموذجا من دفتر يومياته. إنه كان كتب هذه اليومية بعنوان “السبب الحقيقي وراء الأزمة”، وهي كما يلي:[20]

“يجب أن يفهم الناس أن عدم اكتراث أعضاء الحكومة بأزمة الغلاء في البلد يعود إلى سبب بسيط وهو أنهم يقومون بتطبيق ريجيم غذائي بناء على نصائح الأطباء، و لذلك فهم يأكلون خضرة مسلوقة دون دهن، و دون لحم، في محاولة يائسة لتذويب كروشهم. و هم لن يقولوا للناس “كلوا بسكوت إذن” لأنهم أنفسهم لا يأكلون البسكوت، بناء على تعليمات الريجيم. و كذلك فإن غلاء أجور المواصلات في البوسطات الجديدة يعود إلى سبب مماثل وهو أن معاليهم يفضلون المشي، للغايات الريجيمية نفسها. و لذلك فليس هناك أي سوء نية في الموضوع، والصحف التي تتحامل على الحكومة ليس عندها أي ذوق ولا تقدير، يعني أنها لا تهتم بالقضية الأساسية القائمة الآن وهي تذويب كروش أركان الحكومة. صحيح أن الصحف لا تتعاطف مع الحكومة، ولا تقدر ظروفها واهتماماتها وهمومها، ولا تتعمق في البحث عن سبب عدم اكتراث الحكومة بأزمة الغذاء.”

كتب غسان هذه اليومية في 9 أبريل 1965، و تناول فيها أزمة الغلاء في بلده بطريق ساخر، وبإيجاز مازحا من كروش أركان الحكومة، والريجيم الغذائي الذي يختارونه لتذويب كروشهم، كأن القضية الأساسية القائمة ليست الغلاء بل تذويب الكروش.

على أساس هذه اليوميات الساخرة، بنى غسان صرخا شامخا في مجال السخرية في السنوات التالية. كان غسان يأنس إلى هذا الصرخ مرة كل أسبوع بقناع “فارس فارس” انفلاتا من وطأة المستلزمات النضالية، وموجات الحزن في زمان فُجع العرب بهزيمة حزيران عام 1967، و يبدو كأن غسان اختار لنفسه طريقا غير طريق اليأس والإحباط العام في ذلك الحين، كما يقول محمد دكروب في مقدمته لـمجموعة “مقالات فارس فارس”:

“تحت قناع فارس فارس هذا، كان غسان ينطلق على هواه، يتحرر إلى حد كبير من صفة كونه: غسان كنفاني المناضل الفلسطيني الحزبي الملتزم والمسؤول…ينتقد، وينكر، ويسخر، ويتمسخر، ويفضح، ويكشف الزّيف-في الفن وفي الموقف- بما لم يكن ليتيح لنفسه أن يكتبه تحت خيمة إسمه المعروف…فتظنه انزلق على هواه الفردي المحض. ولكنك إذا تابعت هذه الصفحات متمعنا، ومتذوقا، ترى أن الساخر فارس فارس يلتزم بأعلى درجات الأمانة للخط النضالي الفكري السياسي، والفني خصوصا لغسان كنفاني.”[21]

وهذه المقالات التي عالجت الأعمال الأدبية، والفكرية والفنية، حينا بسخرية ضاحكة وحينا آخر بسخرية جارحة، كانت من نوع فريد بالنسبة للنقد الأدبي العربي، فالأدب الساخر يندر في الأدب العربي، والأدباء لا يأخذونه بعين الاعتبار، فعندهم، هذا خارج عن مجالات الأدب لأنه يتعارض مع وقار الأدب والإبداع.

كانت هذه المقالات تدل على اطلاع غسان الواسع العميق على آخر تيارات الفكر والفن، و متابعته المتواصلة للصراعات التجديدية التي حفل بها العقد السابع من القرن الماضي، كما يقول عادل الأسطة: “يبدو كنفاني في مقالاته قارئاً جيداً ومتابعاً حثيثاً لما كانت المطابع العربية في لبنان تطبعه، وقد أقرّ هو بهذه الخصلة، خصلة القراءة والمتابعة. كان قارئاً نهماً….. ولديه حسّ نقدي، ويبدو إنساناً طالعاً من بين الناس، ذا موقف ملتزم، وفوق هذا يبدو كاتباً ساخراً متهكّماً.”[22] وفي هذه المقالات كان غسان منفتحا على الأفق العربي بكل سعته فيتناول الإنتاجات الأدبية والفنية، والأعمال الفكرية والسياسية من أنحاء الأقطار العربية والعالمية، ويستعرضها استعراضا نقديا ساخرا.

و قول غسان في هذه المقالات، كان يستند إلى المعرفة و يصدر عن دراية، وتأمل، و ذلك جعله ناقدا أدبيا لماحا يتصف بتذوق فني رفيع، و بخفة الدم، و يميز بين عناصر الإبداع والأصالة و بين عناصر الضحالة والاصطناع واللاموهوبة بكل مهارة ونجاح، وبسليقة سخرية فائقة. وسليقة السخر عنده –كما يقول محمد دكروب- “كانت تميل به إلى التفتيش عن أعمال أدبية تتيح له ضحالتها، وادعاءاتها وتفاهتها.”[23]

ونجد في ثنايا مقالات فارس فارس، أنه عبر عن بعض آرائه في النقد الساخر، فيقول في مكان “الأدب الساخر ليس تسلية، و ليس قتلا للوقت، ولكنه درجة عالية من النقد”. و يقول في مكان آخر “السخرية ليست تنكيتا ساذجا على مظاهر الأشياء، ولكنها تشبه نوعا خاصا من التحليل العميق. إن الفارق بين النكتجي و بين الكاتب الساخر يشابه الفرق بين الحنطور والطائرة، و إذا لم يكن للكاتب الساخر نظرية فكرية فإنه يضحي مهرجا.” و يقول “كى يستطيع الكاتب أن ينقد بسخرية فإنه أولا يجب أن يمتلك تصورا لما هو أفضل، أو لما كان يجب أن يكون.” و في رأيه “إن فن السخرية هو أصعب فنون الكتابة على الإطلاق، إذ المطلوب من الكاتب أن يقنع القارئ-بالإضافة إلى جميع البنود المعروفة في الكتابة-بأن دمه خفيف.” و يقول “إن الجملة الساخرة الأفضل هي الجملة التي يبذل فيها جهد أكثر.”[24]

و نرى في الأمثلة التالية كيف جملة واحدة تستطيع أن تجبر القارئ على الابتسامة والقهقهة، فيقول غسان وهو يتناول كتاب الشيخ أمين بن نخلة الزمخشري المسمى بـ”الهواء الطلق”:

“وها هو ذا رجل يساوي ثقله ذهبا، مثل الآثار القديمة و أنت إذ تقرأ كتاباته تصاب بدهشة ما بعدها دهشة، كأنك و أنت تنقب عن الآثار القديمة تحت جبل من الركام والرمل، تفتح حجرا فترى هناك، بين الفخار المكسور والعظام، و صفائح الرق، رجلا يقول لك: السلام عليكم! و مع أن أمين نخلة يسمى كتابه (في الهواء الطلق ) فإن القارئ في الواقع لا يشعر بذلك أبدا، ليس هواء ولا من يتهوون، وليس طلقا ولا من ينطلقون.”[25]

و يقول غسان، وهو يتناول كتاب مصطفى أبو لبده”ليس في الكتاب أكثر مما في عنوانه إلا من حيث الكم.”[26] ويقول وهو يقوم بتحليل كتاب عبد الكريم الجهيمان المعنون بـ”من أساطيرنا الشعبية في قلب جزيرة العرب” الذي احتوى على 27 أسطورة: ” للمؤلف 27 أسطورة، وهو شخصيا الأسطورة الـ28.”

و يقول وهو يتناول كتاب ملحم قربان في أبحاث فلسفية: “إن الدكتور قربان يريد أن يثبت أن فلاسفة العالم في بحثهم عن الحقيقة يشتبهون رجلا معصوب العينين يبحث عن قطة سوداء في غرفة مظلمة……ولكن الدكتور قربان نفسه، في هذا البحث، يشبه رجلا معصوب العينين يبحث في غرفة مظلمة عن قطة سوداء..غير موجودة فيها.”[27]

إنه يتحول في هذه المقالات من السخرية إلى الجدية الممتزجة بالسخرية في كثير من الأحيان حين يرى الانتاجات في الأدب والفن التي تراعي الفن، و تصدر عن موهبة فياضة، كما نراه يبدو معجبا كثيرا برؤية “خمسة أصوات” لـ”طعمة غائب فرمان” فيقول: “أنا لا أعرف إسم المؤلف، ولم أسمع عنه قبل الآن، إنني حين اشتريت الرواية قلت للبائع إن الإسم لا يوحي إلى بشيئ، وأنه من الغريب أن يطمح رجل إسمه “غائب” بأن يكون “حاضرا” في عالم الإنتاج الأدبي، أو يكون لدى شخص إسمه الثاني “فرمان” طموع أعلى من أن يتوظف ككاتب في دائرة الطابق الطابعة للباب العالي. و مع ذلك فقد غامرت و اشتريت الكتاب بخمس ليرات لأن اسمه جميل، لأنني كنت أفتش عن رواية أنشرها نشرا في هذه الزاوية التي ولدت لئيمة، و ستموت كذلك.” ثم يعبر فارس فارس عن مدى تأثره بهذه الرواية فيقول: “منذ السطر الأول لهذه الرواية التي تطول إلى 295 صفحة شعرت أنني بين أصابع رجل موهوب، أخذني في رحلة إلى أعماق العراق، و أعماق أناسها، و رد للأدب المعاصر في ذلك البلد السباق دائما في الانتاج الفني قيمته و معناه، و أعطاني شيئا كنت أفتش عنه دائما و عبثا أن أجده!”

و بعد ذكر إعجابه بهذه الرواية، يقصد فارس فارس الخروج عن إطار هذا العمود الساخر، و يظهر في الزي الجاد اعترافا بالمستوى الفني لهذه الرواية، وإظهارا لإعجابه العميق بها، فيقول: “فلذلك كله، أيها السادة، قررت أن أخرج من طابع الزاوية هذه المرة على الأقل لأبرهن لأولئك الذين يعتقدون أن الله سبحانه و تعالى خلقني شتاما أنهم مخطئون، وأن الذي يجعلني أشتم هو نوع الانتاج الأدبي الذي يستحق الشتم، فأنا في الواقع مرآة للأشياء، و لست مطبلا مزمرا لها.”[28]

و شخصية فارس فارس لم تظهر في زيها الحقيقي أي بزي غسان إلا بعد استشهاده، و عندئذ عرف الناس أن غسان كنفاني هو الذي كان يظهر في زي “فارس فارس”. والمقالة الأخيرة التي كتبها غسان بتوقيع فارس فارس ظهرت بعد اغتياله بأسبوع في مجلة “الصياد”، في 16 تموز 1972، بعنوان “ملحمة المعزاية والذئب”. وهذه المجلة للمرة الأولى والأخيرة كشفت قناعا عن وجه فارس فارس، وأوضحت بإسم غسان كنفاني فتقول: “هذا المقال الذي كتبه غسان قبل أيام من استشهاده، لم يكن مقدرا له أن يكون المقال الأخير بإسم فارس فارس…ولم يكن مقدرا له أيضا أن ينشر بإسم كاتبه الحقيقي.”[29] فلم يكن يعرف القراء إلا عدد قليل منهم أن فارس فارس هو غسان كنفاني كما تحدث غسان كنفاني نفسه عن ذلك: “البعض يقول إن فارس هو شخص غير حقيقي (أ تراني شبحا دون أن تعرف أمي ذلك؟).. والبعض يقول إن إسمي مستعار (لمجرد أنهم لم يتعرفوا علي شخصيا)، والبعض يقول إن أحدهم يكتب لي (لماذا؟)…خلال هذه الفترة راح عدد من الناس ضحية هذه الاتهامات ما عداى!.و إذا كان صحيحا أن بعض المتهمين غيروا آراءهم حين قابلوني وتحققوا من تذكرة هويتي طلوعا ونزولا، و نظروا إلى من فوق لتحت غير مصدقين (لأنني أبدو في الأحوال العادية مهذبا جدا) فإن غيرهم ممن لن تتح حتى الآن فرصة مقابلتهم قد راحوا يتهمون غيري بي.. فكم عانى الأستاذ كنفاني/غسان/ من هذه الاتهامات، و كم انصبت الشتائم على رأس الأستاذ جرداق/جورج بسببي، و كم سمع الأستاذ غانم/روبير، سكرتير تحرير ملحق الأنوار/ كلمات هائلة على التلفون…و في كل هذه الحالات كنت سعيدا حقا.”[30]

فكان القراء الكثيرون لم يكن يعرفون الكاتب المختفي خلف توقيع فارس فارس، و لم ينكشف ذلك بصورة جلية إلا بعد استشهاد غسان عن طريق بعض أصدقاءه، و عندما نشرت مجلة “الصياد” مقاله الأخير بإسمه الصريح. و بما أن شخصية فارس فارس ظهرت بشكل غسان كنفاي، كان هذا المقال الأخير يحمل الطابع العام لكتابات غسان، فنراه يرفع القناع عن العصبية المتأصلة في الإعلام الغربي ضد العرب والفلسطينين، ويذكر انحياز الإعلام الغربي المتعصب إلى جانب إسرائيل الغاصب في سياق قصف إسرائيل القنابل من وزن 2500 رطل فوق بيوت اللبن والطين في دير العشاير، فيقول:

“أثناء ذلك، كان محرروا “الإكسبرس” الفرنسية يحللون هجمات المقاومة بقولهم: “إن الطائفة الأرثوذكسية في العالم العربي قد تأثرت بالإسلام، إلى حد صارت تسمح لنفسها بالقيام بعمليات همجية ضد الآمنين المدنيين المتربعين بهدوء و سلام فوق الأراضي المحتلة.”..و قلت لنفسي: يا سلام كيف ينحدر العقل الغربي حين يصبح مرشوا وجبانا، ألا يشبه هذا الكلام كلام هتلر، و روزنبرغ و أمثالهما؟ على أن الإكسبرس نفسها لم تذكر حرفا واحدا عندما زخ مطر الموت فوق فرويي الجنوب العزل، و أطلقت على تلك العملية البربرية إسم “رد عسكري”. قلنا: لعل “التايم” على انحيازها، لم تنحط إلى درجة جنون “إكسبرس” و “النوفيل أوبزرفاتور”، فإذا بنا نستفتح بالعبارة التالية: لماذا يجب أن يقتل يابانيون حجاجا بورتوريكيين لمجرد أن العرب يكرهون اليهود؟ قلت: عجبا! ألم يكن بوسع الكاتب أن يقول: لمجرد أن العرب و اليهود يكرهون بعضهم بعضا؟” إذا شاءت الموضوعية المزيفة؟”

“و صباح اليوم الذي تلاه، قلنا: لعل إذاعة لندن معقولة أكثر..فإذا بها ألعن وألعن..أما نشرتها بالإنكليزية فلم تشأ أن تزعج أفكار السادة سكان لندن، فلم تذكر شيئا، ولا حرفا واحدا، عن المئات الذين ماتوا تحت قصف الطائرات الإسرائيلية أثناء العدوان على جنوب لبنان.”

“لجأنا إلى “النيويورك تايمز”، و إلى “الإيكونوميست”، إلى الفيغارو، و إلى “اللوموند”، إلى “ستامبا”، إلى “دي فليب”، و كانت الشعار المستتر واحدا، وهو الشعار الذي يجد رواجا كبيرا هذه الأيام: “إن العربي الجيد هو فقط العربي الميت!”.

“قلت: قرأت الصحف، و قرأت تعليقاتها إثر حادث مطار اللد الأول، ثم حادث مطار اللد الثاني، ثم حوادث الاعتداءات الإسرائيلية. و طويت الجرائد و أنا أنفخ غيظا، إذ إن هذا العالم الأحمق ليس بوسعه أن يكون أكثر حماقة. و بعد ملايين السنين من انحدارنا من العصور الحجرية، ما زالت القاعدة الذهبية إياها هي الصحيحة: إن صاحب الحجر الأكبر، و حامل العصا الأتخن، والبلطجي الشراني هو الذي معه حق.”[31]

و ليس في هذا المقال فقط، بل طابع غسان العام متواجد في مقالاته الساخرة هذه أيضا في كثير من الأحيان كما يقول محمد دكروب: “أن واحة فارس فارس، التي خلقها غسان كنفاني ليفئ اليها، مرة في الأسبوع، متخففا من أعباء ومسؤوليات إسمه وصفته الحزبية النضالية والقيادية في حركة التحرير الفلسطيني.. كانت، في حقيقتها ومسارها، ذهابا أعمق في اتجاه القضية نفسها، وأن مفاعيل الهزيمة، سلبا وإيجابا، حاضرة في النسيج العميق لهذه الكتابات كلها، و حاضرة كذلك و بصورة مباشرة في عدد من الجدالات ذات اللغة الساخرة و ذات الطابع الجدي، على حد سواء.”[32]

نظرة غسان إلى الصحافة:

و كان غسان يَعتبر الإعلام إحدى معارك المقاومة كما يقول في مقال له :”إن الإعلام معركة. و بالنسبة لنا، فإن معركتنا الإعلامية لا تحقق انتصارا إذا ما جرى خوضها من خلال المبادرة الكلامية مع العدو أمام رأي عام في مجمله منحاز، وعلى شبكات إذاعية وتلفزيونية تقف جوهريا ضد قضايانا. إننا في حالة حرب، و هي بالنسبة للفلسطينيين، على الأقل، مسألة حياة أو موت.”[33]

مراجع البحث: 

[1] الأهرام الأسبوعي، العدد 594، 11-17 يوليو 2002

[2] حنا مقبل، ندوة “غسان كنفاني..قال الوعي الفلسطيني”، مجلة “الهدف”، العدد 496، 11تموز، 1981، صـ35.

[3] أوس داؤد يعقوب، غسان كنفاني: الشاهد والشهيد، مجلة الفكر، ملحق العدد 113، صـ 23

[4] نفس المصدر، صـ 23.

[5] Muhammad Siddiq, Man is a Cause: Political consciousness and the fiction of Ghassan Kanafani, University of Washington Press, London, 1984, P no.95-96.

[6] الأسدي، عبده، دليل صحافة المقاومة الفلسطينية (1965-1995)، دار النمير للنشر والطباعة والتوزيع، دمشق، 1998، صـ 57.

[7] Muhammad Siddiq, Man is a Cause: Political consciousness and the fiction of Ghassan Kanafani, University of Washington Press, London, 1984, P no. 97.

[8] أوس داؤد يعقوب، غسان كنفاني: الشاهد والشهيد، مجلة الفكر، ملحق العدد 113، صـ 23.

[9] Muhammad Siddiq, Man is a Cause: Political consciousness and the fiction of Ghassan Kanafani, University of Washington Press, London, 1984, P no.97.

[10] نفس المصدر، صـ 98.

[11] أوس داؤد يعقوب، غسان كنفاني: الشاهد والشهيد، مجلة الفكر، ملحق العدد 113، صـ 23.

[12] الأسدي، عبده، دليل صحافة المقاومة الفلسطينية (1965-1995)، دار النمير للنشر والطباعة والتوزيع، دمشق، 1998، صـ 171.

[13] نفس المصدر، صـ 171.

[14] أوس داؤد يعقوب، غسان كنفاني: الشاهد والشهيد، مجلة الفكر، ملحق العدد 113، صـ 28.

[15] نفس المصدر، صـ 29.

[16] نفس المصدر، صـ 28.

[17] كنفاني غسان، حول قضية أبو حميدو و قضاى التعامل الإعلامي والثقافي مع العدو، مجلة شؤون فلسطينية، العدد 12، آب 1972م.

[18] كنفاني، غسان، مقالات فارس فارس، دار الآداب، بيروت، ط1، 1996، صـ 5.

[19] نفس المصدر، صـ 236.

[20] نفس المصدر، صـ 238.

[21] نفس المصدر، صـ 8.

[22] عادل الأسطة، غسّان كنفاني: “فارس فارس”، صحيفة الأيام، تاريخ 13/04/2013

[23] كنفاني، غسان، مقالات فارس فارس، دار الآداب، بيروت، ط1، 1996، صـ 13.

[24] نفس المصدر، صـ 9-10.

[25] نفس المصدر، صـ 40.

[26] نفس المصدر، صـ 46.

[27] نفس المصدر، صـ 54.

[28] نفس المصدر، صـ 49-51

[29] نفس المصدر، صـ 232.

[30] نفس المصدر، صـ 11.

[31] نفس المصدر، صـ 232-235.

[32] نفس المصدر، صـ 23-24.

[33] أوس داؤد يعقوب، غسان كنفاني: الشاهد والشهيد، مجلة الفكر، ملحق العدد 113، صـ 28.

رابط النشر: http://www.aqlamalhind.com/?p=884





ريادة غسان كنفاني في دراسة أدب المقاومة، والأدب الصهيوني في ضوء دراساته



ريادة غسان كنفاني في دراسة أدب المقاومة، والأدب الصهيوني في ضوء دراساته


في العقد السابع من القرن العشرين، أصدر غسان كنفاني دراستين اكتشف فيهما لأول مرة الإنتاجات الأدبية المتواجدة في الأرض المحتلة التي كانت صلتها بالعالم العربي قد انقطعت بعد الاحتلال الصهيوني. فإنه، عن طريق هاتين الدراستين، فتح للعرب نافذة على الأدب العربي الفلسطيني الذي مليئ بالحيوية والأفكار الثورية، و رغم كل أسباب القمع لا يخلو عن الأمل والإيمان بالنجاة.

أدب المقاومة:

أما الدراسة الأولى، فقد صدرت من دار الآداب بـ”بيروت” عام 1966م بعنوان “أدب المقاومة في فلسطين المحتلة 1948-1966″، و هي تحتوي على ثلاثة فصول، الفصل الأول يتناول الإنتاجات الأدبية الفلسطينية بعد النكبة، والثاني يدرس البطل العربي في الرواية الصهيونية مقابل الأدب العربي الفلسطيني، والثالث يعرض نماذج من الشعر الفلسطيني.

و هذه الدراسة تعطي غسان مكان الريادة من ناحيتين، في ناحية إنه وضع مصطلحا خاصا للانتاجات الأدبية الثورية التي وجدت في فلسطين المحتلة لأول مرة، و هو مصطلح “أدب المقاومة” كما يبدو من عنوان دراسته. فقد عبر غسان عن الأدب الفلسطيني بـ”أدب المقاومة” لأن هذا الأدب يقوم ضد جميع أسباب القمع، و يشجع على الوقوف في وجه الاحتلال، و يحرض على الثورة، والمشي في سبيل الحرية رغم أن الطريقة شائكة. و هذا المصلطح الخاص لم يقتصر على الأدب العربي، بل سرعان ما سرى إلى الآداب العالمية الأخرى و تلقي بالقبول في الدول المحتلة من العالم. و قد اعترف بريادة غسان في هذا المجال النقاد الكثيرون، بل لا أبالغ إذا قلت أنه لا تخلو أية دراسة من دراسات أدب المقاومة عن ذكر غسان، فهو يمثل اللبنة الأولى التي قام عليها القصر الشامخ لأدب المقاومة.

و من ناحية أخرى، إنه عرض الأدب العربي الفلسطيني أمام العالم العربي لأول مرة و أتاح الفرصة لقراء العربية أن يتعرفوا على هذا الأدب الفلسطيني الذي أكثر مقاوما من الأدب العربي في أي مكان آخر.

كان غسان قد كتب هذه الدراسة قبل نكسة 1967 التي انهزمت فيها القوات العربية على يدى إسرائيل و أتاحت لها الفرصة أن تحتل غزة، و نهر الأردن، و الضفة الغربية. و بما أن المصادر لم تكن متوفرة بسبب الحدود الإسرائيلية المغلقة على العرب، والقمع الإسرائيلي للعرب في داخل إسرائيل، إنه سمى الأوضاع التي كان الفلسطينيون يعيشون فيها في الأرض المحتلة بـ”الحصار الثقافي”، و في الحقيقة دراسته هذه تبدو كأنها نقب في هذا الحصار إذ حاول أن تكون دراسته هذه وثيقة أكثر من أن تكون تحليلا نقديا للنص الوارد فيها.

لم يختر غسان منهجا أكاديميا في هذه الدراسة بل سلك سبيله في جمع المواد و حفظها بصورة تكون وثيقة للأجيال القادمة التي قد تفقد هذا التراث القيم بسبب الظروف القاسية التي كان يمر بها الأدباء والكتاب والشعراء الفلسطينيون.

و لم يقصر كنفاني “مصطلح أدب المقاومة” على الأدب العربي الفصيح فقط بل أطلقه على الشعر الشعبي أيضا الذي يمثل عنده قلعة المقاومة التي لا تهدم، فقد تناقلته الأجيال عن طريق الحفظ، و تغنت بها الأمهات لأبنائها الناشئين، والفتيات لإخوانها الصغار.

إنه يميز في هذه الدراسة بين الأدب الذي كتب في الأرض المحتلة و سماه “أدب الاحتلال”، و الأدب الذي كتب في أرض الشتات و في المنافي و المخيمات و سماه بـ”أدب المنفى”، و عنده أدب الأرض المحتلة أدب الإشراق، والثورة، والأمل حينما أدب المنفى عبارة عن النواح والبكاء، و اليأس والحنين إلى الوطن. و تقول باربارا هارلو “هذا التمييز يدل على علاقة أناس الخاصة بالأرض المشتركة، وبالهوية المشتركة، و بالقضية المشتركة بينهم، و على أساس هذا الاشتراك، يمكن الفصل بين شكلين من الوجود التاريخي والسياسي، و هما الاحتلال والمنفى. و هذا التمييز يدل على قوة محتلة أخضعت شعبا أو نفتهم، و بالإضافة إلى ذلك، إنها تدخلت في التطور الأدبي والثقافي للذين سلبت أراضيهم، و احتلت مناطقهم. و في ألفاظ أخرى، إن الناقد (غسان كنفاني) قد عرض الأدب كمجال للكفاح.”[1]

في عام 1966 عندما كتب كنفاني دراسته هذه، كان أدب الأرض المحتلة مجهولا في العالم العربي و غير معروف خارج الحدود الإسرائيلية بسبب القيود الرسمية و القمعية. و لذلك ركز كنفاني عمله و جهوده على توثيق الانتاجات الأدبية الفلسطينية التي ولدت تحت السلطة الإسرائيلية التي أطلق عليها غسان مصطلح “الحصار الثقافي”. و نفس الأوضاع السياسية التي قامت بتحديد الانتاجات الأدبية في إسرائيل، أدت دورا مهما في تحديد الموازين و والمناهج في الكتابة النقدية الأدبية الفلسطينية في المنفى.

الأدب الفلسطيي المقاوم:

أما دراسته الثانية التي صدرت عن مؤسسة الدراسات الفلسطينية، بيروت، لأول مرة عام 1968 بعنوان “الأدب الفلسطيني المقاوم تحت الاحتلال 1948-1968″، فكانت خطوة ثانية في هذا المجال كما يوضح ذلك غسان في مقدمتها “لا بد من الإشارة إلى أن البحث التالي ليس طبعة جديدة أو منقحة لكتابي الذي أصدرته دار الآداب باسم أدب المقاومة في فلسطين المحتلة، بل يمكن اعتباره إلى حد بعيد دراسة مكملة، خطوة ثانية في هذا النطاق، ولا يسعني إلا أن أشير إلى أن الكتاب الأول يعتبر مقدمة ضرورية لهذا الكتاب، سواء من حيث التحليل أو من حيث النماذج.”[2]

كتب غسان هذه الدراسة بعد الدراسة الأولى بسنتين، و استفاد من الحدود الإسرائيلية المفتوحة حديثا بين إسرائيل والضفة الغربية، و أكد على العلاقة المتكاملة بين المقاومة المسلحة و المقاومة الأدبية،[3] و ادعى على أنه “ليست المقاومة المسلحة قشرة، هي ثمرة لزرعة ضاربة جذورها عميقا في الأرض.” إنه يضع الخصوصية التاريخية لحركة المقاومة ضمن النضال الأكبر الجماعية في جميع أنحاء العالم، و يؤكد على أهمية الأشكال المعينة للمقاومة الثقافية في تحديد الاستراتيجيات العامة للمنظمة المقاومة كما يقول “إذا كان التحرير ينبع من فوهة البندقية، فإن البندقية ذاتها تنبع من إرادة التحرير، و إرادة التحرير ليست سوى النتاج الطبيعي والمنطقي والحتمي للمقاومة في معناها الواسع: المقاومة على صعيد الرفض، وعلى صعيد التمسك الصلب بالجذور والمواقف.” ولدى كنفاني “إن الشكل الثقافي في المقاومة يطرح أهمية قصوى ليست أبدا أقل قيمة من المقاومة المسلحة ذاتها.”[4]

و حاول كنفاني أن تكون نماذجها غير النماذج التي كانت قد أصبحت متوفرة إثر النكسة كما يقول بنفسه “إن معظم النماذج التي اخترناها في هذه المجموعة حرصنا على أن تكون من خارج نطاق النماذج التي باتت متوفرة الآن، والتي ستطبع في مجموعات شعرية منفصلة خلال الفترة الوجيزة القادمة.”[5]

و هذه الدراسة التي تحمل عنوانا تتشابه بالدراسة الأولى، تناولت نفس الموضوع و عرضت الأدب الفلسطيني المقاوم على الطريقة التي عرضت الدراسة الأولى، و هي لا تختلف من الأولى من حيث النقد والتحليل إلا أنها تفرد فصلا لدراسة الوضع الثقافي لعرب فلسطين المحتلة حينما كانت الدراسة الأولى قد خصت فصلا لدراسة البطل العربي في الرواية الصهيونية مقابل الأدب العربي الفلسطيني. و غسان قد تكلم عن نوعية هذا البحث في المقدمة فيقول “إن ما يهم هذه الدراسة، في الأساس، هو أنها تحاول تقديم وثيقة أخرى للأدب الفلسطيني المقاوم بعد الوثيقة الأولى التي جاءت قبل ثلاث سنوات في كتاب أدب المقاومة في فلسطين المحتلة، فإذا حققت ذلك فإنها لا تطمع إلى شيئ آخر.”[6]

فصول الدراسة:

إن هذه الدراسة تتضمن على ثلاثة فصول يتناول أولها الوضع الثقافي لعرب فلسطين المحتلة، والثاني يدرس أبعاد و ومواقف أدب المقاومة الفلسطيني، والثالث يعرض نماذج من الشعر، والقصة، المسرحية.

الفصل الأول: الوضع الثقافي لعرب فلسطين المحتلة

كما يبدو من عنوان هذا الفصل، إنه عرض الأوضاع الخطرة التي كان ولا يزال يعيش فيها الشعب العربي الفلسطيني في الأرض المحتلة عرضا مقنعا كباحث عن طريق استخدام المصادر والمراجع بما فيها المجلات والوثائق والتقارير المختلفة. إنه أطلق على هذه الأوضاع مصطلح “النضال الثقافي” و ذكر الدور الذي لعبت هذه الأوضاع في الانتاج الأدبي العربي كما يقول: “إن الحرب النفسية، والاقتصادية، والسياسية، والبدنية التي تشنها السلطات الإسرائيلية على الثقافة العربية والمثقف العربي كان لها الأثر الأكبر في بلورة الانتاج الأدبي العربي في فلسطين المحتلة على الصورة التي سنراها، و من ذلك اللجوء غالبا إلى الرمز.”[7]

و حاولت حسب مقدوري أن أقوم بتحديد أنواع الحرب التي تشنها إسرائيل على الشعب العربي المسلم والتي ذكرها غسان في هذا الفصل، و هي -حسب دراستي لهذا الفصل- كما يلي:

أولا: سياسة التجهيل المتعمد
عدم تعليم اللغة العربية في المعاهد والمدارس الرسمية
تخفيض مستوى المدارس العربية عن قصد
تهديد الطلاب في الجامعات والكليات
إغلاق أبواب الكليات والجامعات الإسرائيلية على المسلمين

ثانيا: نسف الجذور الثقافية العربية
إلقاء المثقفين العرب خلف القضبان و الإقامة الجبرية.
طرد المثقفين العرب عن الوظائف و الرقابة على انتاجاتهم
حقن المجتمع العربي بسموم الثقافة الهجينة
الدعوة إلى ترك اللغة العربية الفصحى.

ثالثا: نهب الوسائل الاقتصادية
إضاقة الخناق على خريجى المدارس و تحريمهم عن الوظائف
امتلاك أراضي العرب جبرا
طرد المثقفين العرب عن الوظائف

الفصل الثاني: أدب المقاومة الفلسطيني: أبعاد و مواقف

بعد عرض أنواع الحروب التي تشنها إسرائيل على سكانها العرب في الفصل الأول، اتجه غسان إلى تناول الأدب الفلسطيني المقاوم الذي يكافح ضد عمليات إسرائيل الشنيعة، و تكلم في كيفية مواجهته للتحديات الإسرائيلية، و تحدث عن الأبعاد و المواقف لهذا الأدب الفلسطيني المقاوم الذي برز إلى حيز الوجود لالتزام الشعراء والأدباء بقضيتهم رغم كل أسباب القمع كما يقول كنفاني: “الغالبية الساحقة من أدباء المقاومة في فلسطين المحتلة يمدون التزامهم إلى ما هو أبعد من الحدود الفنية، إنهم منتسبون فعلا إلى الحركة الوطنية بصورة أو بأخرى، و يناضلون من خلال تنظيماتها، و يذوقون في سبيلها، نتائج القمع الإسرائيلي، لقد بات معروفا – مثلا – أن الشاعر محمود درويش قد أودع السجن مرارا، و أن الشاعر سميح القاسم قد ذاق بدوره مرارة الأحكام العسكرية. و قد مارست الحكومة الإسرائيلية ضغطا متواصلا على شركة أهلية لتطرد من بين موظفيها الشاعر فوزي الأسمر بسبب شعره، و نضاله السياسي معا.”[8]

و قد ذكر غسان عدة أبعادا لهذا الأدب المكافح في مقدمتها كما يلي:
البعدلاجتماعي
البعد العربي
البعد العالمي

البعد الاجتماعي: يقصد غسان بالبعد الاجتماعي تناول الأديب الفلسطيني قضايا التقاليد الكابحة داخل المؤسسة الاجتماعية العربية، و رفضها في سبيل تجديد دماء المجتع العربي ليكون قادرا على مواصلة مسؤوليات المقاومة، والمضي فيها إلى مداها، و ذلك في مقاومة و مكافحة للمحاولات الإسرائيلية في تفتيت المجتمع العربي في الأرض المحتلة و تأليبه على بعضه. و قد أورد غسان في هذا المجال شعر سميح القاسم، و محمود درويش، وراشد حسن ثم قال:

“في الخمسينات سنقرأ شعرا كثيرا، في الأرض المحتلة، يركز تركيزا متواصلا على قطاع ضيق من الإشكال الاجتماعي، و في هذا النطاق ترد أسماء القاسم و الدرويش، و حسين، و كذلك فهد أبو خضرة (و هو شاعر موهوب و صاعد لم نعد نسمع عنه)، و أحمد حسين، و عصام عباس، و إبراهيم مؤيد، و غيرهم كثيرون.

و لكن بعد ذلك بعدة سنوات سيأخذ ذلك التنبه الجزئي آفاقه الأبعد، و أبعاده الأعمق، و ففي ذلك الوقت المبكر كانت الكارثة الفلسطينية ما تزال حارة، و كان الغضب المجرد، بصورة فاجعة و مذهلة، يطفو إلى السطح، شأنه في ذلك شأن ما حدث في أعقاب 5 حزيران 1967 في البلاد العربية حين مضى عدد من الكتاب والشعراء يصبون غضبهم على جبهة جزئية، إلا أن ذلك الغضب ما لبث أن تبلور في صيغة موقف، و مما لا شك فيه أن محمود درويش، و سميح القاسم هما طليعة لافتة للنظر في هذا الشأن.”[9]

البعد العالمي: هو تناول الشعراء الفلسطينيين لقضايا الاحتلال خارج بلدهم، و تأثرهم بالثورات التي قامت في البلدان المحتلة الأخرى في العالم، و انسجامهم مع أولئك الثائرين، كما يقول غسان: “عالميا يدرك شعر المقاومة التزامه بحركة الثورة في العالم، التي هي في نهاية المطاف المناخ الذي تنمو داخله الحركة الثورية المحلية، تؤثر به و تتأثر منه.”[10] و نجد قصائد كثيرة لدى شعراء الأرض المحتلة في هذا الشأن، فلمحمود درويش قصائد في ثورات كوبا منها “أناشيد كوبية”، و ديوانه الأول “عصافير بلا أجنحة” في معظمه غناء لثورات إفريقيا، و لفوزي الأسمر قصائد بهذا المعنى، أبرزها، “أنا عبد” موجهة لشعب إفريقيا، و لسميح القاسم عدة قصائد عن باتريس لومومبا، و إفريقيا، و زنوج أميركا، و له أيضا في قصيدته الطويلة “ارم” مقطع أسمه “بطاقات إلى ميادين المعركة” و هي سلسلة من القصائد القصيرة الموجهة إلى المغني الزنجي بول روبنسون، و فيدل كاسترو، و كريستوف غبانيا، و ثوار الفيتكونغ. و في هذا النطاق نجد قصيدة لراشد حسين عن آسيا “”بلد الرجال الثائرين على مماطلة الزمان” و قصيدة أخرى لإبراهيم مؤيد إسمها “أنشودة زنجي”، و نجد عددا كبيرا من القصائد، في نفس النطاق، لمحمود دسوقي، و قصائد ذا أهمية قصوى لحنا أبو حنا عن كوبا و عن إفريقيا المشرقة.[11]

و يقول غسان عن هذا البعد: “إن الالتزام بالبعد العالمي للمعركة كان دائما من ميزات شعر المقاومة، و مع ذلك فإن هذا الالتزام لم يؤد إلى تمييع الالتزام بالصيغة المباشرة للنزال، ولكنه أغناه و أعطاه معنى و عمقا و حافزا.” و يضيف قائلا: “إن وعي الالتزام بحركة الثورة في العالم يكتسب قيمته مما يؤديه إلى وعي الالتزام بالثورة المحية، و ليس من كونه صيغة رومانطيكية ذات طابع تنصلي عن طريق المزايدة، و هذا الإدراك الذي عبر عنه أدب المقاومة العربي بوضوح و مباشرة و حسم يضع البعد الإنساني في المقاومة في مكانه الصحيح، الذي يشكل حافزا و مسؤولية، في آن واحد.”[12]

البعد العربي: أما البعد العربي فهو عناية أدباء الأرض المحتلة البالغة بالثورات و التحولات و القضايا في العالم العربي كما يقول غسان “الأمر يختلف من حيث الكم و النوع، حين يتعامل أدب المقاومة مع واحد من أبعاده الأساسية، و هو البعد العربي. إن طبيعة القضية الفلسطينية تضعها في مركز الوسط من التفاعلات العربية، وبالتالي فإن شعر المقاومة في فلسطين المحتلة يمكن أن يوصف بأنه الناطق بلسان تلك التفاعلات والمؤرخ لها.”

في ديوان شعر المقاومة ليس بالإمكان مرور أي حدث عربي دن أن يؤرخ في ذلك الشعر، بل إن عدوان 1956 على مصر كان نقطة تحول أساسية في تاريخ ذلك الشعر، و كذلك كانت ثورة الجزائر، و ثورة اليمن، و بناء السد العالي، و في هذا النطاق بالذات تبدو ولاءات المقاومة العربية والاجتماعية ممتزجة بصورة عضوية لا تحتمل الفكاك.”[13]

قد ساق غسان في هذا السياق قصائد عديدة تتعلق بالعدوان الثلاثي على مصر(1958)، و بالثورة الجزائرية، وثورة العراق(1956) للشعرءا البارزين من أمثال محمود درويش، سميح القاسم، و عصام عباسي، و حبيب قهوجي، محمود دسوقي. و بعد ذكر هذه القصائد، والبحث في بنائها الفني يقول كنفاني: “و في الحقيقة، فإن البعد العربي في الأدب الفلسطيني كان دائما ظاهرة أساسية. و ليس ارتباط أدب المقاومة الفلسطيني الراهن بهذا البعد، و تعميقه و وعيه، إلا استمرارا لتلك الظاهرة تاريخيا.”[14]

و توصلا إلى النتيجة يقول غسان عن هذه الأبعاد الثلاثة: “إن هذه الارتباطات الثلاثة، في إطارها من الالتزام الفني المسؤول، تظل تدور حول محور أساسي هو التصدي الشجاع للمعركة المباشرة، اليومية والقاسية، والباهظة الثمن، مع العدو المحتل الذي يجثم بثقل مباشر على صدر الوجود العربي، في فلسطين المحتلة.”[15] ثم يقول غسان عن هذه المقاومة المباشرة “وقف شعر المقاومة العربي في فلسطين المحتلة مؤرخا ليوميات المقاومة الجماهيرية، جاعلا من انتكاساتها و عذابها وقودا لتجديد توق ملتهب.”[16] و قد ساق غسان في هذا السياق قصائد لحبيب قهوجي و راشد حسين و محمود درويش الذين سجلوا مجزرة كفرقاسم التي جزرت فيها القوات الصهيونية خمسين عرب عشية العدوان الثلاثي، والتي شكلت نقطة انعطاف أساسية في الموقف المقاوم لشعراء المحتلة العرب، إذ من النادر أن لا يأتي ذكر كفر قاسم كشهادة دائمة على المقاومة. و كذلك ذكر قصيدة لسميح القاسم بعنوان “كرمئيل” و هو إسم المدينة التي ابتناها الإسرائيليون في الجليل، فوق أراض سلبوها من عرب قرى “دير الأسد”، و “البعثة”، و “نحف”، ضمن خطتهم لتهويد الجليل. و قد أطلق القاسم على هذه المدينة إسم “مدينة الحقد و الجوع والجماجم”. للشعراء المذكورين أعلاه آنفا قصائد عن الحكم العسكري كقضية يومية يعاني عرب الأرض المحتلة منها، و عن الجواسيس الذين يندسون في التجمعات العربية، و عن سلب الأراضي من الفلاحين العرب، و إلى آخر ما هنالك من قضايا يومية.[17]

الفصل الثالث: نماذج من الشعر والأقصوصة، والمسرحية

إن هذا الفصل بمثابة وثيقة، فقد قدم غسان قصائد لثماني شعراء، مع تعريفاتهم المؤجزة، وهم حنا أبو حنا، محمود درويش، سميح القاسم، توفيق زياد، فوزي الأسمر، نزيه خير، راشد حسين، محمود دسوق. و بعد ذكر قصائد هؤلاء الشعراء، إنه أورد غسان أقصوصة بعنوان “و أخيرا: نور اللوز” لـ”أبو سلام”، وبعد هذه الأقصوصة، قدم غسان نموذجا لمسرحية بعنوان “بيت الجنون”، للكاتب توفيق فياض.

و جملة القول، في هذا البحث القيم، درس غسان أولا الحروب التي تشنها إسرائيل لتهويد المجتمع العربي، و المجازر التي تقام لإبادة العرب، والمؤامرات التي تتبناها السلطات الإسرائيلية لدفع العرب إلى التخلف، و نهب أراضيهم، هدم قراهم، و سلب ممتلكاتهم، و التعذيب الذي يلقى المثقفون العرب. ثم درس الأدب المقاوم الذي تصدى لتفويت مؤامرات الصهاينة، و صرخ في وجه السلطات الظالمة رغم كل القيود، والمصائب، والمشكلات. أما الفصل الثالث فليس إلا امتدادا للفصل الثاني، تثبيتا أكثر لدور المقاومة في الصمود والرفض لكل أشكال القمع الإسرائيلي.

في الأدب الصهيوني:

هذه الدراسة التي صدرت لأول مرة عام 1967 بعنوان “في الأدب الصهيوني”، في بيروت، تأتي بين الدراستين المذكورتين أعلاه، فنشرت بعد الدراسة الأولى بسنة، و قبل الدراسة الثانية بسنة، و يبدو أن هذه الدراسة جاءت مكملة أو امتدادا للفصل الثاني من الدراسة الأولى، الذي تناول “البطل العربي في الرواية الصهيونية مقابل الأدب العربي الفلسطيني”، و كذلك يبدو أن غسان كان يدرس الأدب الصهيوني أيضا بالإضافة إلى دراسته للأدب الفلسطيني المقاوم، كما يقول محمود درويش في مقدمته للمجلد الرابع من الأعمال الكاملة المحتوية على دراسات غسان كنفاني: “في الوقت الذي كان يكشف فيه غسان كنفاني غطاء السر عما يكتبه كتاب الأرض المحتلة العرب، كان يدرس نقيض هذه الكتابة و إحدى مواد محاوراتها: الكتابة الصهيونية، و دورها في تشكيل الوعي والكيان، الصهيونيين. و بكلمات أخرى كان يدرس فاعلية الكتابة لدى العدو، فقدم بذلك أول دراسة عربية عن واحد من أخطر الموضوعات الصهيونية.”[18]

فكان غسان كنفاني في كتابته عن الأدب الصهيوني أيضا كاشفا و رائدا مثلما كان في كتابته عن الأدب المقاوم، وقد نعته عادل الأسطة أيضا بالريادة في الدراسة عن الأدب الصهيوني كما نعته محمود درويش فيما سقت آنفا من قوله، فيقول عادل أسطة: “قد كان كنفاني أول من كتب دراسة باللغة العربية حول الأدب الصهيوني.”[19] و في الحقيقة، كان غسان قد بدأ دراسة الأدب لدى العدو قبل أن يبدأ دراسة الأدب المقاوم في الأرض المحتلة، و يدل على ذلك بحثه الذي أعده بعنوان “العرق والدين في الأدب الصهيوني” عندما كان طالبا بجامعة دمشق في وقت مبكر من حياته.

قد ساعد غسان في دراسته للأدب الصهيوني إلمامه باللغة الانجليزية، فقد كان تعلم في مدرسة في يافا كانت تركز على الانجليزية. و خلال دراسته للأدب الصهيوني المكتوب أو المترجم بالإنجليزية، أدرك غسان الدور الهام لهذا الأدب الذي استخدمه الصهاينة في حملاتهم الدعوية، و نشر رؤيتهم في العالم، وإقناع دول أوربا في إقامة دولة لهم، فالأدب الصهيوني -بغض النظر عن لغة الكاتب، وبلده، ودينه، وعرقه- ليس إلا السلاح الذي خدم حركة الصهاينة لاستعمار فلسطين كما يقول كنفاني “ربما كانت تجربة الأدب الصهيوني هي التجربة الأولى من نوعها في التاريخ حيث يستخدم الفن في جميع أشكاله ومستوياته للقيام بأكبر وأوسع عملية تضليل وتزوير تتأتى عنها نتائج في منتهى الخطورة.”[20] و ذهب غسان في هذا الكتاب إلى “أن الصهيونية الأدبية سبقت الصهيونية السياسية، وما لبثت أن استولدتها وقامت الصهيونية السياسية بعد ذلك بتجنيد الأدب في مخططاتها ليلعب الدور المرسوم له في تلك الآلة الضخمة التي نُظمت لتخدم هدفاً واحداً.“[21]

خلاصة القول:

من خلال دراساته المذكورة أعلاه، قام غسان كنفاني بتجسيد حكمتين: أولا “اعرف نفسك”، و ثانيا “إعرف عدوك”. فعن طريق دراستيه “أدب المقاومة في فلسطين المحتلة 1948-1966″، و “الأدب الفلسطيني المقاوم تحت الاحتلال 1948-1968″، إنه جسد الحكمة الأولى أى “اعرف نفسك”، حينما عن طريق الدراسة الثالثة “في الأدب الصهيوني” إنه قام بتجسيد الحكمة الثانية يعني “إعرف عدوك”، كما يقول بنفسه: “وكل ما تطمح إليه هذه الدراسة هو أن تلقي ضوءاً آخر على الشعار الصعب اعرف عدوك.”[22] و ذلك ليس للمعرفة الباردة أو التأملية فقط، بل للرصد، والاستعداد، والصراع. و يقول أنيس صائغ الذي عرف غسان طويلا و كتب مقدمة لهذا الكتاب فيما بعد “جمعت بيني و بين غسان أسباب كثيرة، أولها و أكثرها أهمية شعار إعرف عدوك…كان غسان مهجوسا بمعرفة كل ما له علاقة بالعدو الصهيوني، بل إنه قرأ تاريخ فلسطين الحديث من وجهة نظر الدمار الذي ألحقه الصهيونيون به[23]” و كان غسان في كل ذلك رائدا و مكتشفا منفردا.

مراجع الفصل:

[1] Harlow Barbara (1987), Resistance Literature, New York, Methuen, Page no.02.

[2] كنفاني، غسان، الأدب الفلسطيني المقاوم تحت الاحتلال 1948-1968، مؤسسة الدراسات الفلسطينية، بيروت، عام 1968، صـ 10.

[3] Harlow Barbara (1987), Resistance Literature, New York, Methuen, Page no.10.

[4] كنفاني، غسان، الأدب الفلسطيني المقاوم تحت الاحتلال 1948-1968، مؤسسة الدراسات الفلسطينية، بيروت، عام 1968، صـ 9.

[5] نفس المصدر، صـ 11

[6] نفس المصدر، صـ 11

[7] نفس المصدر، صـ 19

[8] نفس المصدر، صـ 45-46

[9] نفس المصدر، صـ 50-51

[10] نفس المصدر، صـ 63

[11] نفس المصدر، صـ 64 و 66.

[12] نفس المصدر، صـ 67.

[13] نفس المصدر، صـ 68.

[14] نفس المصدر، صـ 72.

[15] نفس المصدر، صـ 75.

[16] نفس المصدر، صـ 76.

[17] نفس المصدر، صـ 84.

[18] عادل الأسطة، استقبال شعر المقاومة في النقد الأدبي في العالم العربي، مقال قرئ في مؤتمر “ثقافة المقاومة”، في جامعة فلاديلفيا، الأردن، في نيسان عام 2005، صـ 2.

[19] عادل الأسطة، الأديب الفلسطيني والأديب الصهيوني، منشورات شمس في فلسطين، 1993، صـ 10.

[20] كنفاني، غسان، في الأدب الصهيوني، مؤسسة الأبحاث العربية، بيروت، 1967.

[21] نفس المصدر، صـ

[22] نفس المصدر، صـ 28.

[23] فيصل دراج، مجموعة برقوق نيسان والقميس المسروق و قصص أخرى، وزارة الثقافة والفنون والتراث، قطر، صـ 69

رابط النشر: http://www.aqlamalhind.com/?p=857





مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...