Saturday, May 5, 2018

فرحانہ میم: کچھ یادیں کچھ باتیں



ہندوستان میں عربی زبان و ادب کے اساتذہ کی فہرست میں شاذ و نادر ہی کسی خاتون کا نام نظر آتا ہے اور ایسا ہی  ایک  نادر نام پروفیسر فرحانہ صدیقی میم کا تھا۔آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی ، میں شعبئہ عربی کی صدر تھیں اور مختلف مضامین اور کتابوں کی خالق۔ عربی زبان و ادب کا طالب علم ہونے کی وجہ سے میں نے آپ کا اور آپ کی کتاب نازک الملائکہ کا نام پہلے سے سن رکھا تھا مگر آپ کو قریب سے جاننے اور سننے کا موقع اس وقت ملا جب۲۰۱۰ میں مجھے جامعہ میں پی ایچ ڈی میں دا خلہ ملا۔

آپ شعبئہ عربی کی صدر تھیں اس لئے شروع ہی میں ایک دو موقعوں پر دستخط کے لئے آپ سے ملنا ہواـ،آپ خندہ پیشانی سے ملیں اور بڑے اخلاق سے پیش آئیں۔ ایک دن میرے ایک عزیز جامعہ میں داخلے کے سلسلے میں آئے، وہ شاید داخلہ لینے کی آخری تاریخ تھی اور ان کے ڈکیومینٹس اٹیسٹیڈ نہیں تھے، اور سوء اتفاق ، انصاری آڈیٹوریم میں جو صاحب اٹیسٹ کرتے تھے وہ بھی اس دن نہیں آئے تھے۔میں ان کو لیکر اپنے شعبے میں آیا تو دیکھا کہ لنچ ٹائم ہونے کی وجہ سے اکثر اساتذہ کے کمرے بند ہیں، میں جب میم کے کمرے کے دروازے پر پہونچا تو دیکھا کہ آپ کہیں جانے کے لئے اپنی سیٹ سے اٹھ رہی ہیں، میں نے اپنا تعارف دینے کے بعد آپ سے اٹیسٹ کرنے کی درخواست کی تو آپ اپنی کرسی پر واپس بیٹھ گئیں ، اور ڈاکیومینٹس پر دستخط کرنے لگیں ، میں نے جب اصل کاٖغذات آپ کی بڑھائے تو آپ نے کہا، میں آپ کو جانتی ہوں، آپ ہمارے اسٹوڈنٹ ہیں ،اور ہمیں آپ پر پورا اعتماد ہے۔حالانکہ اب تک میں میم سے دو چار بار سے زیادہ نہ ملا تھالیکن آپ کا یہ اعتماد میرے لئے مسرت کی بات تھی۔

آپ نہ بے جا اصول کے پابند تھیں اور نہ ہی طلبا کے لئے کسی قسم کی مشکلات کھڑی کرنا پسند کرتی تھیں البتہ صحیح اور غلط کا فرق ضرور ملحوظ رکھتی تھیں، آپ کے اخلاق سے میں کافی متاثر ہوا اور دھیرے دھیرے میں آپ سے مانوس ہوتا گیا اور یہ انس اس وقت اور بڑھ گیا جب ہمارے پہلے سیمیسٹر کے پی ایچ ڈی کورس ورک میںلائبریری سائنس کی تدریس کی ذمہ داری آپ کے حصہ میں آئی۔آپ نے لائبریری کے استعمال کے تعلق سے صرف ضروری ہدایات اورنوٹس مہیا کرانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ معمول سے آگے بڑھ کر ہمارے لئے ایک لائیبریرین کے ساتھ خاص طور سے سیشن کا انتظام کیا تاکہ لائبریری کے استعمال کی تکنیکی باریکیوں سے ہم واقف ہو سکیں ، آپ کا یہ قدل یقینا طلباء کے لئے آپ کے خلوص پر دلالت کرتا ہے۔

آپ کے خلوص کے تعلق سے ایک واقعہ اور عرض کرتا چلوں جو خود راقم کے ساتھ پیش آیا۔ آج کے دور میں طلباء کی کثرت کی وجہ سے اساتذہ عام طور سے خود اپنے زیر نگرانی کام کررہے ریسرچ اسکالرس کے موضوع نہیں یاد رکھ پاتے دوسرے اسکالرس کی بات ہی کیا، مگر صدر شعبہ ہونے کی وجہ سے فرحانہ میم سب کی خبر رکھنے کی کوشش کرتی تھیں، اور اگر کسی کے موضوع کے متعلق کچھ مواد آپ کو دستیاب ہوتا تو آپ مہیا کرا دیتیں اور اس کا ذاتی تجربہ راقم کو اس وقت ہوا جب ایک دن ایک کاغذ پر دستخط کرانے میم کے پاس گیا۔ جب میم دستخط کر چکیں تو مجھ سے پوچھا ــ کہ آپ غسان کنفانی پر کام کر رہے ہیں نا، جب میں نے ہاں میں سر ہلایا تو میم نے کہا مجھے ایک میگزین موصول ہوئی ہے جس میں غسان کنفانی کے اوپر ایک مضمون ہے، میں نے میگزین الگ نکال کر رکھی ہے ، دیکھ لیجئے شاید آپ کے کام کا ہو۔ جب میں میم کا شکریہ ادا کرکے وہ میگزین لیکر آپ کے چیمبر سے باہر جانے لگا تو آپ نے مسکراتے ہوئے کہا، ارے بھائے میگزین رکھ مت لینا اپنا کام کرکے واپس کر دینا اس لئے کہ مجھے بھی کام ہے۔میں نے پلٹ کر او کے میم کہا اور تشکر کے جذبات سے لبریز آپ کے چیمبر سے باہر آگیا۔

فرحانہ میل قصیرالقامت تھیں اور اسکا خود انکو اعتراف تھا، اور اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ہمارے شعبے میں ہندوستان میں عربی زبان و ادب کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد ہونے جا رہا تھا جس میں ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیز سے عربی اساتذہ کو مدعو کیا گیا تھا۔سیمینار کی تیاریاں زوروں پر تھیں اور ایک کارکن کی حیثیت میں بھی انتظام میں شریک تھا،سیمینار شروع ہونے سے ایک دن قبل میرے ایک عزیز دوست کو ایک ذمہ داری سونپی گئی اور وہ تھی اسٹیج کے پاس ایک الگ سے لکڑی کا ڈیسک منگواکر رکھنے کی، ابتداء میں سمجھ نہ سکا کہ آخر اسکی کیا ضرورت مگر شام کو جب فرحانہ میم سیمینارہال کے معاینہ کے لئے آئیں اور آپ کے اشارے پر وہ ڈیسک ڈائس کے پیحھے رکھی گئی تب اسکا اصل مقصد پتا چلا۔آپ ڈائس کے پیحھے گئیں اور اس ڈیسک پر چڑھ کر یہ چیک کیا کہ آیا آپ مائیک تک پہنچ پا رہی ہیں یا نہیں، جب آپ مطمئن ہو گئیں اور ڈیسک سے نیچے اتریں تو زیر لب مسکرا رہی تھیں اور انہیں دیکھ کر میری زبان سے بے ساختہ عربی کا یہ شعر نکل گیا۔

ان لم یطل جسمی طویلا فاننی

لہ بالفعال الصالحات وصول

ترجمہ: میں بلند قامت نہیں ہوں تو کیا ہوا، میں اپنے کارناموں سے بلندی پر پہونچوں گا۔

میم نے یہ شعر سنا تو ہنس کر کہا، محسن جی اس طرح کے میں نے بہت سے شعر یاد کئے تھے ، کیا کروں چھوٹی ہوں نا۔ آپ کی یہ بات سن کر وہاں پر موجود دوسرے لوگ بھی ہنس پڑے۔ آپ ہنستی مسکراتی ایک زندہ دل شخصیت کی مالک تھیں اور خود اپنے اوپر ہنس کر بھی ہنساتی تھیں جو بہت کم لوگوں کو آتا ہے۔ میں نے میم کو عربی بولتے سب سے پہلے اسی سیمینار میں سنا تھا، آپ انتہائی شستہ اور سلیس زبان بول رہی تھیں، نہ کہیں تکلف تھا نہ کہیں بناوٹ بلکہ ایک روانی تھی جو آپ کے تجربے اور عربی زبان و ادب پر آپکے عبور اور عربی ثقافت سے آپکے گہری واقفیت پر دلالت کر رہی تھی۔ مجھے آپ سے استفادہ کا بہت زیادہ موقع نہ مل سکا اس لئے کی ایک سال کے اندر ہی آپ کا انتقال ہو گیا۔ آپ شعبئہ عربی صدر رہتے ہوئے ہی ۳۱ دیسمبر۲۰۱۱ کو اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔اللہ تعالی آپ کو غریق رحمت کرے۔

مزید ⇦ http://mazameen.com/?p=42117


Friday, May 4, 2018

A Sketch of My Granny


In the country side of UP, in a small village of Raebareli, there once lived an elegant elderly lady, my maternal Granny. A square tract of land bounded from all the sides by the sticks of bamboo (Tatia) was comprised of her mud house situated in a corner and her favorite time-pass garden and orchard in the remaining space in which she would grow fruits like, guava, Banana, Custard-apple and Dates. The bigun-belia, planted alongside the boundary line had grown well and at many places covered the wall of bamboo sticks, and when it would bear flowers, the scene was awesome and  treat for the eyes. The fragrance of the plant of Bella in the early hours of morning would fill the courtyard. There was a date tree just next to the small gate, which used to be laden with sweet dates in its season. In one corner there was a tree of black-berry which would give juicy black fruits in the hot summer and it was a great delight to enjoy them with a pinch of salt under the cool shade of that tree itself. And in the same way the trees of Guava and custard-apple which were about half a dozen in number would bear sweet fruits.

Of all these fruits the custard-apple had the best test for me, and it still reminds me of my grand mother when ever I see this. I remember well that when we would pay a visit to her place in the summer, we found that she had already plucked some raw custard-apple and put them in an earthen pot (Matki) to make them ripen sooner for us.

All these trees and plants owed to her efforts. As far as I could collect my reminiscent of her, she was in her sixties but still energetic, I had seen her taking care of the flower plants of, marigold and Bella in her compound, After finishing all the chores, she would take a round in her compound and water the plants, make a fencing of sticks or burnt bricks around the trees if required to save them from wandering goats and cows of the neighbors which would barge in the court-yard sometimes.

She was a pious and god-fearing, and a very generous and charitable kind of lady and was always ready to help others. She would feel pleased and happy after giving alms and I never saw her rebuking a beggar. Through my constant visits to her I came to recognize many faces of the beggars who would come to her door from time to time and not only took alms but also demand used-clothes to wear and she would bring some old and intact dresses of my uncles to give them eagerly.

My mother was the only daughter she had and she would give special care whenever we reached there. I still remember the delicious indigenous cuisines she used to cook for us and her happiness after seeing us. 

One morning, when I was in my school, one of my uncles came to take leave for me and I was shocked to hear that the soul of my Granny has left her mortal figure to the final abode, and streams of tears rolled down from my eyes onto my cheeks. At that very young age, I had never felt so sad and grief-stricken as that day and felt like I had lost some very precious thing of my life. May her soul rest in peace. 

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...