جگاڑ
از محسن عتیق خان
اب تک وہ دسیوں انٹرویو
دے چکا تھا اور کئی مہینوں سے مسلسل انٹرویوز دیتے دیتے وہ تھک چکا تھا لیکن کامیابی
کا کہیں دور دور تک پتا نا تھا- ایک طرف اسے گھر والوں کی غربت اور بدحالی کی فکر ستا
رہی تھی تو دوسری طرف مکان مالک کو دینے کے لئے کرایہ کے پیسے میسّر نہیں تھے- کئی
دنوں سے تو وہ صرف ایک وقت کے کھانے اور پانی پر گزارہ کر رہا تھا اور اسے اب اپنے
اندر کافی کمزوری کا احساس ہونے لگا تھا-
ایسا نہیں کہ وہ تمام
مطلوبات (ریکوائرمنٹ) پوری نہیں کر رہا تھا بلکہ بات یہ تھی کی اسے کسی کی سفارش حاصل
نہ تھی اور دوسری چیز جو ایسے میں کام آتی ہے یعنی رشوت اسکے لئے بھی اسکے پاس پیسے
نہیں تھے، وہ تو بس اپنی صلاحیت، قابلیّت اور اسناد کے بھروسے پر انٹرویوز دے رہا تھا-
ایک کمپنی میں وہ انٹرویو دینے کیلئے کئی دنوں
سے مسلسل دوڑ رہا تھا لیکن انٹرویوز دینے والوں کی لمبی لمبی قطاروں کی وجہ سے اسے
موقع نہیں مل پا رہا تھا، ایک دن تو اس سے آگے صرف چند نوجوان ہی باقی رہ گئے تھے جب
انٹرویو لینے والے اٹھ کر چل دئے-
آج وہ صبح ہی سے بھوکا
پیاسا لائن میں لگا ہوا تھا اور اپنا نمبر آنے کا انتظار کر رہا تھا، اس وقت آفتاب
کی تمازت میں کافی حد تک کمی آچکی تھی اور شام امیدوں کے ساتھ دھیرے دھیرے چلی آرہی
تھی، اسکے آگے اب صرف دو تین امیدوار ہی باقی رہ گئے تھے کی تبھی ایک لحیم شحیم شخص
سبک رفتاری سے آیا اور آگے بڑھتا چلا گیا اور
ایک لفافہ چپراسی کے ہاتھوں اندر بھیج کر وہیں کرسی پر بیٹھ کر اندر سے جواب کے آنے
کا انتظار کرنے لگا- تھوڑی دیر میں اندر سے تقریبا اسی قد کاٹھی کا ایک دوسرا شخص نمودار
ہوا اور اس نو وارد کو اپنے ساتھ لیکر اندر چلا گیا- تقریبا آدھے گھنٹے کی بعد جب وہ
نووارد شخص باہر نکلا تو ایک امیدوار نے بڑے تجسّس کے ساتھ اس سے دریافت کیا
"سر جی کیا آپ اپنا انٹرویو دے چکے ہیں؟" تو ان صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب
دیا "ہاں، ہو گیا- مگر توسی کیوں پونچھ رہے ہو؟" اسنے کہا "سر ہم لوگ
صبح سے لائن میں لگے کھڑے ہیں لیکن ہمارا نہیں ہوا، اور آپ ابھی ابھی تشریف لاے اور
اور آپ کا ہو گیا!" اس شخص نے شہادت کی انگلی سے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
"میرا جگاڑ تھا نا، توسی جگاڑ لاؤ جگاڑ-" اور یہ کہتے ہوئے وہ شخص آگے نکل
گیا-
ان دونوں کی باتیں وہ
بڑے غور سے سن رہا تھا اور اور اسکے دل پر اسکا ایک خاص اثر ہو رہا تھا- وہاں بھی اسے
ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اسکے بعد اسنے کئی اور کمپنیوں میں انٹرویوز دئے لیکن وہی
ناکامی ہاتھ لگی- ایک دن ایک کمپنی میں دن بھر لائن میں کھڑے رہنے کے بعد جب وہ انٹرویو
دیکر اور لوگوں سے کھچا کھچ بھری کئی بسوں کو چینج کرکے دو گھنٹے کے سفر کے بعد اپنے
کمرے پر واپس آگیا تو بذریعہ فون اسے مطلع کیا گیا کی اسکا سلیکشن ہو گیا ہے اور اس
سے کہا گیا کہ کل سے آپ کو ڈیوٹی جوائن کرنی ہے مگر آفس میں آج ہی شام کو ٩ بجے تک
آپ کو آنا ہے- اس نے جواب میں کہا "سر میں بہت تھک چکا ہوں، میں کل صبح ہر حال
میں وقت سے پہلے ہی پہونچ جاؤنگا -" ادھر سے "او کے" کہا گیا اور اسکے
بعد سلسلہ منقطع ہو گیا- اس وقت وہ ایک دم تھک کر چور ہو چکا تھا اسلئے جانے کی ہمّت
نا جٹا سکا-
اگلے دن جب وہ صبح کمپنی
کے آفس پہونچا تو ریسپشن پر بیٹھی خاتون سے معلوم ہوا کی اسکا سلیکتیں رد کیا جا چکا
ہے، اور سبب پوچھنے پر بتایا گیا کہ اسے کل شام کو بلایا گیا تھا مگر وہ آیا نہیں اسلئے- اسنے خاتون سے کہا "میم! مگر ڈیوٹی تو آج سے
جوائن کرنی تھی اور میں وقت سے پہلے حاضر ہوں" تو خاتون نے بڑے پروفیشنل انداز
میں جواب دیتے ہوئے کہا "دیکھئے سر کسی دوسرے کو لیا جا چکا اور اب کوئی جگہ خالی
نہیں" اور یہ کہ کر وہ دوسرے کی جانب متوجہ ہو گی-
ناکامی کے احساس نے
اسکی تھکن میں اور اضافہ کر دیا تھا اور وہ مایوس کن حالت میں آفس کے باہر پڑی ایک
کرسی پر بیٹھ گیا- آفس کے بوڑھے چپراسی کی تجربہ کار نگاہیں اسکی حالت زار کا اندازہ
لگا چکی تھیں اور اسکی مایوس کو دیکھ کر وہ بولے بغیر نہ رہ سکا، وہ تھوڑا سا اس سے
قریب ہوا اور سرگوشی کے سے انداز میں کہا "بیٹا یہاں صلاحیّت سے نہیں بلکہ پیسے
اور جگاڑ سے ہوتا ہے، کل تم نے انہیں پیسے نہیں دے تھے کیا؟" اسنے جواب میں کہا
"بابا اگر پیسے ہوتے تو نوکری کی ضرورت ہی کیا تھی، اور دہلی جیسے بڑے اجنبی شہر
میں جگاڑ کہاں سے لاؤں میں-" اتنا کہ کر وہ کرسی سے اٹھ کر چل دیا-
وہ اپنے کمرے پر واپس
آیا تو یاس وہ نہ امیدی اسکے ذهن پر اپنا قبضہ جما چکیں تھیں، اسکے دماغ میں صرف لفظ
جگاڑ کی گونج تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ یہ لفظ اسکا دشمن ہے، اور پھر اس پر ایک ہیجانی
سے کیفیت طاری ہو گی اور وہ جگاڑ جگاڑ چللانے لگا، ایسا لگ رہا تھا جیسے مسلسل ملنے
والی ناکامیوں نے اسکا ذہی توازن بگاڑ دیا ہو-
نوٹ: یہ مختصر افسانہ راقم الحروف کے چند ابتدائی افسانوں میں سے ایک ہے اور سنہ ٢٠٠٤ میں ایک حقیقی واقعہ سے متاثر ہوکر لکھا گیا تھا-
No comments:
Post a Comment