Thursday, September 28, 2023

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

 


مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئی تو اُن کی عیادت کے لیے شاہین باغ میں واقع کربس ہسپتال گیا، کچھ دیر پاس میں بیٹھا رہا اور باتیں ہوتی رہیں۔ آپ بتانے لگے کہ کچھ دنوں سے علمی کاموں کی وجہ سے کھانے پینے پر دھیان نہ دے سکا،  کھانا میز پر رکھے رکھے ٹھنڈا ہو جاتا تھا اور میں مشغولیت کی وجہ سے اُدھر دھیان ہی نہیں دے پاتا تھا، اس لیے صحت اس حالت کو پہنچ گئی کہ اب کچھ ہضم نہیں ہو رہا ہے، اور اگر موسمی کا جوس بھی ہضم ہوجائے تو بڑی بات ہے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں لطائف اشرفی کے عربی ترجمے کھنگالنے کی کوشش کر رہا تھا، اس سے پہلے کچھ لطیفوں کے عربی ترجمے کیے گئے تھے مگر وہ یا تو منظوم ہیں جن میں پوری بات واضح نہیں ہو پائی ہے، یا پھر ناقص ترجمے  ہیں جن میں پورے کے پورے پیراگراف چھوڑ دیے گئے ہیں۔  پھر آگے کہنے لگے کہ ان شاء اللہ صحتیاب ہونے کے بعد لطائف اشرفی کے ترجمے کی کوشش کرونگا۔ اور پھر اس سلسلے میں مجھ سے تعاون کا وعدہ لیکر مجھے شکریہ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے الوداع کر دیا کہ اب میرے ہونٹ سوکھ رہے ہیں ان شاء اللہ پھر بات ہوگی۔

میں واپس آتے وقت پر امید تھا کہ ان شاء اللہ آپ جلد شفا یاب ہوجائیں مگر جب معلوم ہوا کہ آپ کربس سے ہولی فیملی اور ہولی فیملی سے میکس ہسپتال شفٹ ہو گئے ہیں تو اندازہ ہوا کہ آپ کی حالت نازک سے نازک تر ہوتی جا رہی ہے، اس بیچ میں نے کئی بار حال دریافت کرنے کے لیے آپ کے فون نمبر پر کال کیا مگر کسی نے ریسیو نہیں کیا، اور آخر کار آج (27 ستمبر 2023) وہ خبر آہی گئی جس کا اندیشہ تھا، یعنی آپ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔

سالک صاحب سے پہلی ملاقات میرے چچازاد بھائی جناب عبدالحی خان کی وساطت سے سنہ 2010 میں ہوئی تھی جب  وہ کچھ دنوں کے لیے مجھ سے ملنے دہلی تشریف لائے تھے۔ میں اس وقت شاہین باغ میں مقیم تھا اور سالک صاحب نے اپنا ایک مدرسہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے مدن پور کھادر میں قائم کر رکھا تھا،۔ پھر اس کے بعد کئی بار ملاقاتیں ہوئیں، کبھی میرے غریب خانے پر تو کبھی آپ کے مدرسے میں اور ہر ملاقات میں مختلف علمی موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا، کبھی یہ موضوعات علمی ہوتے تھے، اور کبھی اُن کا تعلق عربی ادب سے ہوتا تھا، لیکن کبھی بھی ہمارے درمیان مسلکی اختلافات پر کوئی بحث نہ ہوئی۔ آپ علماء و مشائخ بورڈ کے ترجمان تھے اور عالمی صوفی کانفرینس کے انتظام میں آپ کا بہت اہم رول تھا۔  آپ بورڈ کی طرف سے نکلنے والی اُردو میگزین کے ایڈیٹر بھی تھے اور مضمون لکھنے لکھوانے سے لیکر اس کو چھپوانے تک کی ساری زمہ داری آپ کے کندھوں پر تھی، آپ نے مجھے کئی بار اس  میں لکھنے کے لیے کہا مگر اپنی تساہلی کی وجہ سے میں لکھ نہ سکا۔ اسی طرح میں نے آپ کو اقلام الہند میں لکھنے کی دعوت دی مگر آپ بھی اپنی عدیم الفرصتی کی وجہ سے کبھی کوئی آرٹیکل نہیں دے پائے۔ مولانا کی عربی میں ڈاکٹریٹ (پي ایچ ڈی) کرنے کی بڑی خواہش تھی، اور اس سلسلے میں چند مہینوں پہلے جب میں گاؤں میں تھا تو اُن کا فون بھی آیا تھا، اور موضوع کے تعلق سے کافی دیر بات ہوئی، آپ کوئی ایسا عنوان منتخب کرنا چاہ رہے تھے جو اُن کے مسلک سے متعلق ہو، بہر حال یہ طے ہوا کہ جب میں دہلی واپس آؤنگا تو اس مسئلے پر پھر بیٹھ کر بات ہوگی، لیکن افسوس آپ اس خواہش کی تکمیل سے پہلے ہی دار فنا سے کوچ کرگئے۔

مولانا کو اللہ تعالیٰ نے تحریر کے ساتھ تقریر کا بھی اچھا ملکہ عطا کیا تھا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے،  ایک بار ہمارے گاؤں کے مدرسے میں ایک جلسہ تھا جسم میں میں بطور مہمان خصوصی شریک تھا، مولانا بھی تشریف لائے تھے اور بڑی پر مغز تقریر کی اور سائنس کے میدان میں مسلمانوں کی خدمات پر بھی بہت دیر بولے۔ مولانا ایک اچھے مقرر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اکثر جلسوں میں شرکت کے لئے سفر پر رہتے تھے، کبھی  سورت، کبھی احمدِ آباد تو کبھی ممبئی، اور رہی بات دہلی کی تو وہ تو آپ کا وطن ثانی بن ہی گیا تھا۔

ہمارے ایک عزیز دوست حاجی ریحان احمد سے آپ کے قریبی تعلقات تھے، ایک بار میں سورت سے واپس آیا تو اُن کا سلام اور اُن کے دیے ہوئے تحفے تحائف لے کر آپ کے پاس مدرسے میں گیا تو بڑی خاطر مدارات کی اور بڑی دیر مجلس رہی، الوداع کہتے وقت آپ نے کئی کتابیں بطور تحفہ عنایت کیں جن میں صوفی کانفرنس میں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ "اکیسویں صدی میں تصوف"، "گلزار صوفیاء نقشبندیہ" اور ترکی عالم فتح اللہ گولن کی سیرت کی معروف کتاب "نور سرمدی" خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

 ایک بار ایک دلچسپ واقعہ ہوا، ہمارے چچا زاد بھائی عبد الحی خان صاحب آئے ہوئے تھے، ہمارے ایک ہم وطن عزیز نے جو علماء و مشائخ بورڈ سے منسلک تھے بورڈ کے آفس میں ہماری دعوت کی، جب ہم وہاں پہنچے تو اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے ہم سے اجازت چاہی کہ "کھانا بن رہا ہے آپ لوگ کھا لیجئے گا، مجھے کچھ ضروری کام ہے۔" ہم تذبذب میں تھے کہ کیا کریں، کہ دیکھا مولانا بھی وہیں ایک دوسرے کمرے میں موجود ہیں اور بورڈ کی میگزین کی ٹائپنگ اور کرکشن کروانے میں مصروف ہیں۔ چونکہ میرے بھائی کے آپ سے بڑے دیرینہ تعلقات تھے اس لیے بڑے تپاک سے ملے اور دعوت کا مناسب انتظام کیا، اور ہمیں اصل میزبان کے جانے سے جو خفت محسوس ہورہی تھی وہ جاتی رہی۔

دار العلوم ندوۃ العلماء سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی آپ بڑی شد و مد کے ساتھ بریلوی مسلک سے منسلک رہے،   غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ندوہ آنے سے پہلے آپ جامعہ اشرفیہ اعظم گڑھ سے عالمیت کر چکے تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی شخص کے دل کی سادہ تختیوں پر جو پہلے نقوش ثبت ہوتے ہیں وہی دیر پا اور دائمی ہوتے ہیں، اور ایسا ہی کچھ حال مولانا کا بھی تھا، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ آپ کے مزاج میں اعتدال اور نظر میں وُسعت پیدا ہو گئی تھی جو عام طور سے مختلف چشموں سے سیراب ہونے کے بعد ہی ہوتی ہے۔

آپ ان دونوں مدرسوں میں نمایاں طالب علم تھے اور ندوۃ العلماء میں جمعیۃ الاصلاح کے ناظم بھی رہے، اور وہاں پر آپ نے اپنی عربی زبان  صیقل کی اور وہاں سے فراغت کے بعد جامعۃ اشرفیہ میں بطور عربی ادب کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اسی طرح جامعہ حضرت نظام الدین، دہلی میں بھی آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں، اس کے بعد خود اپنا مدرسہ دہلی مین قائم کیا، اسی طرح اپنے وطن لال گنج واقع ضلع مہاراج گنج یو پی میں بھی المعھد کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ اگر آپ کے علمی کاموں کی بات کی جائے تو مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی کئی کتابوں پر عربی حواشی قائم کیے، اسي طرح اُنکی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر جہان اعلیٰ حضرت کے نام سے کسی صاحب کی شراکت میں ایک کتاب مرتب کی، مفتی اعظم ہند کی حیات و خدمات پر بھی ایک کتاب مرتب کی جو رضا اکیڈمی ممبئی سے شائع ہوئی۔ آپ کے اور بھی کئی کام ہیں جن کے نام مجھے یاد نہیں یا شاید جن سے میں واقف نہیں، اس کے علاوہ دسیوں مضامین اور مقالات ہیں جو مختلف مجلات میں بکھرے پڑے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ علم و ادب کا ایک درخشاں ستارہ تھے جو آج غروب ہو گیا ہے۔، اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔

از ڈاکٹر محسن عتیق خان

مدیر، سہ ماہی عربی مجلہ اقلام الہند، نئی دہلی

Thursday, August 31, 2023

غزل: ہمارے گھر کو ہمارے ذہن کو بیچ دیا

ہمارے گھر کو ہمارے ذہن کو بیچ دیا

یہ بات سچ ہے کہ سارے وطن کو بیچ دیا

لگا کے آگ عداوت کی، نفرتوں کی جناب

بس اک فقیر نے پورے چمن کو بیچ دیا

محبت، عشق، رواداری گزری باتیں ہیں

نئے سلیم نے ر سم کہن کو بیچ دیا

غریب باپ کی بیچارگی، مہنگی تعلیم

اک دوشیزہ نے اپنے بدن کو بیچ دیا

شہر میں چھوٹا سا گھر لے لیا اس نے لیکن 

گاؤں کے گھر و پرانے صحن کو بیچ دیا

اکیلے کون سنے گا تمہاری اے محسن

سخنوروں نے یہاں پر سخن کو بیچ دیا


جے این یو کے نام



 اے مادر علمی

تم کو دیکھا تو یاد آنے لگے

کتنے بھولے ہوئے گمنام سے نام
کتنے خوابوں سے پر تھے وہ چہرے
کتنے جوشیلے تھے جذبات ان کے
مرمریں جسم اور بیتاب آنکھیں
سیمتن کی شراب سی آنکھیں
پر نہ کافی تھیں بھلا دیں فکریں
غم دوران کا دور دورہ تھا
ہر طرف جوش تھا، شرارہ تھا
خود کو بدلیں بدل دیں پھر دنیا
تری آغوش میں ثریا تھا
تھا ترے علم کا جہاں میں مقام
تیری گلیوں میں علم کے شیدائی
چلتے پھرتے تھے صبح تا شام
کتنی رنگین تھی فضا تیری
کتنی خوشبو تھی تیرے پھولوں میں
کتنے بلبل یہاں تھے نغمہ سرا
کتنے طاؤس تھے یاں رقص کناں
کتنی شمعوں سے رات روشن تھی
کتنے جھنڈے ہوا کے دوش پے تھے
کتنے نعرے زباں پے عام تھے یاں
کتنی تحریکیں یاں سے اٹھتی تھیں
کتنی شامیں تھیں رنگ برنگی سی
کتنی بحثوں سے رات زندہ تھی
ائے مادر علمی
کیا اب بھی تیرے چشموں سے
علم کا آب شیریں رواں ہے
کیا اب بھی تیرے کوہساروں میں
حسن کی وہی اٹھکیلیاں ہیں
کیا آج بھی پری وشوں کے
وہی آزاد غمزہ و عشوے ہیں
کیا آج بھی تیرے پاس
وہی ذہن رسا باقی ہے
کیا آج بھی تیری فضائیں
اُنہیں ولولوں سے پر ہیں
کیا آج بھی تیری پہاڑیوں کی چوٹیاں
اُنہیں اُمنگوں کی شاہد ہیں
کیا آج بھی تیرے آسمانوں میں
وہی انقلابی نعرے گونجتے ہیں
کیا آج بھی تیرے خوشہ چینوں میں
دنیا کو بدلنے کی خواہش باقی ہے
یا
نفرت کی آندھیوں نے تمہیں بھی
سرے سے بدل ڈالا ہے
تمہارے آزاد پنچھیوں کے پر
چاقووں سے کتر دیے ہیں
تمہارے آشیانے کے باغبان
صیّاد کے پیروں میں جا پڑے ہیں
علم کی چاشنی میں
ز ہر گھول د یا ہے
انا اور خودداری کو
گرویں رکھ دیا ہے
کتنے پرانے مکین
تمہیں خیر باد کہ گئے ہیں
کتنے بے نوا تمہارے
کوچے سے گذرگئے ہیں
لیکن
تم پھر بھی شاد رہو آباد رہو
برا وقت جلدی گزر جائیگا
رونقیں پھر بہاروں کی لوٹ آئینگی
ولولے پھر وہی ہونگے پیدا يہاں
امنگیں جوان ہونگی پھر سے وہی
بلبلیں گیت گائیں گي الفت کے پھر
الاپیں گے راگیں محبت کے سب
گرم ہوگی محفل سخن کی وہی
مگر ہم نہ ہونگے الگ بات ہے
تم پھر بھی شاد رہو آباد رہو
(پچھلے ہفتے استاد محترم جناب مجیب الرحمن صاحب کی تین حالیہ کتابوں کی رو نمائی کے موقع سے جے ان یو جانے ہوا تو بہت سی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں، ایک آزاد نظم کہنے کی کوشش کی ہے ماضی اور حاضر کے پس منظر میں، پتا نہیں کتنا کامیاب ہوا ہوں اپنی بات کو کہنے میں- اب یہ آپ حضرات کی نظر کر رہا ہوں.
)

چندر یان کی نذر



آخرش تم کو مل گئی منزل

رتجگوں کا صلہ سمجھتے ہیں

وصل کے دن تمہیں مبارک ہوں 

عشق میں گر کے ہی سنبھلتے ہیں

کیا حسیں اتنا ہے قریب سے وہ

جتنا ہم دور سے سمجھتے ہیں

اس سے کہنا کہ اس سے ملنے کو

ہم یہاں پر بہت تر ستے ہیں

اس کے ذکر جمال سے سارے 

حسن والے یہاں لرزتے ہیں

کیا تمہارے یہاں زمیں کی طرح

پیڑ پودے بھی کچھ پنپتے ہیں

کیا ہوا خنک ہے یہاں کی طرح

کیا وہاں بھی سبو لڑھکتے ہیں

کیا وہاں بھی ہے بادلوں کا سماں

کیا وہاں بھی وہ یوں برستے ہیں

چندریاں حسن کی جناب میں ہیں

نازکی حسن کی سمجھتے ہیں

کتنے نخرے اٹھانے پڑتے ہیں

کچھ گلے شکوے کو سمجھتے ہیں


فارغین مدارس اور یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم



فارغین مدارس کا اعلی تعلیم کے حصول کے لیے عصری جامعات کی طرف رخ کرنا ایک لمحۂ فکرِیہ بھی ہے اور خوش آئند قدم بھی۔ لمحۂ فکریہ اس لیے کہ مدارس سے فارغ ہونے والی جماعت سے امت اسلامیہ کی بہت سی امیدیں وابستہ رہتی ہیں، وہ انہیں عوام کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ و اصلاح کی خدمات انجام دینے کا ذمہ دار سمجھتی ہے، اور ان کے عصری جامعات کی طرف متوجہ ہونے سے اذان و اقامت اور تعلیم و تدریس کی خدمات انجام دینے والوں کی کمی کا اندیشہ ہے۔
اور خوش آئند بات اس لیے کہ یونیورسٹی میں جب الگ الگ فنون کے ماہرین، الگ مذاھب سے تعلق رکھنے والے طالب علموں، اور مختلف ملکوں کے علم کے جویاؤں سے انکی شناشائی ہوتی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو ذہن کے نئے دریچے کھلتے ہیں، عقل وخرد کو نئی وسعتیں حاصل ہوتی ہیں، سوچنے کا زاویہ بدلتا ہے، اور پھر ہم دنیا کو مسلکی نقطئہ نظر سے نہیں، بلکہ انسانی نظریہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ایک بات یہ کہ آج کے دور میں جب کہ زندگی کی ضروریات بہت بڑھ گئی ہیں اور لوازمات بے شمار ہو گئے ہیں وہ اعلی تعلیم کے حصول کے بعد ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں اور دوسروں کا دست نگر ہونے کے بجائے خود کفیل ہو سکتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مدارس کے فارغین علوم نبوت کے حاملین ہیں اور قرآن و سنت سے واقفیت رکھتے ہیں اور پھر کالج اور یونیورسٹی میں جا کر اپنی صلاحیتوں کو مزید صیقل کرتے ہیں اور مروجہ علوم سے واقفیت کے بعد اپنی محنت کے بل پر عصری تعلیم گاہوں، حکومت کے اعلیٰ عہدوں اور کارپوریٹ میں، جہاں بھی اُنہیں موقع ملتا ہے وہ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں. میں نے اُنہیں آئی اے ایس کے اعلی عہدوں پر دیکھا ہے، پروفیسر کے مرتبے پر فائز دیکھا ہے، اور بڑی بڑی کمپنیوں میں اہم ذمے داریوں کو نبھاتے بھی دیکھا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ ہندوستان کے نمایاں کولجز سے پڑھنے والوں کو مختلف میدانوں میں ٹریننگ دیتے بھی دیکھا ہے پھر چاہے وہ انجینيرنگ کرنے والوں کو ٹیکنالوجی کی تعلیم ہو یا کومرس سے گریجوایشن کرنے والوں کو بینکنگ کی ٹریننگ۔
مدارس کی توجہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم تربیت دینے، اُنکے مطالعہ کو وسیع کرنے، اور اُنکے عقیدے اور افکار کو پختگی عطا کرنے پر ہونی چاہیے نہ کہ بیٹھ کر اُن کے افق کو محدود کرنے پر، اور یہ طے کرنے پر کہ وہ مستقبل میں کیا کام کریں، اور کیا نہ کریں۔ اپنے بچوں کو صرف تعلیم وتعلم، اور منبر و محراب تک محدود رکھنے کی خواہش یا صرف اسی کو دین کا کام سمجھنا کوتاہ بینی اور تنگ نظری کا نتیجہ ہے، کوشش یہ ہونا چاہیے کہ یہ بچے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی آئیڈیالوجی، اپنے افکار اور اپنی اخلاقیات کے ساتھ داخل ہوں اور ہر جگہ اپنی چھاپ چھوڑیں اور ہر میدان کو متاثر کریں۔ وہ جج بن کر انصاف کی تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں، وہ اچھے منتظم بن کر عدل قائم کر سکتے ہیں، وہ اچھے ڈاکٹر یا حکیم بن کر قوم کی صحت کا خیال رکھ سکتے ہیں، اور وہ نئے ايجادات و انکشافات کے بانی ہو کر قوم کا بھلا بھی کر سکتے ہیں، آخر یہی مدرسے تو تھے جنہوں نے حکماء بھی دیے اور دانشور بھی، سائنٹست بھی دیے اور موجد بھی، تو کوئی وجہ نہیں کہ شاہیں بچوں کو خاکبازی کا سبق دیا جائے اور انکا مستقبل صرف منابر و مآذن تک محدود کیا جائے یا سمجھا جائے-
بہتر یہ ہوگا کہ اُنکا مطالعہ وسیع ہو، اور عقیدہ پختہ ہو تاکہ وہ مشکل ترین حالات میں بھی اس پر جمے رہیں، اور یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اگر اُنہیں اچھی تعلیم و تربیت دی گئی تو وہ جہاں بھی رہیں گے وسیع معنوں میں اسلام کے نمائندے ہونگے اور اگر چاہیں تو ایک لائق داعی کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکتے ہیں کیونکہ وہ برادران وطن کے ساتھ انہیں کی زبان اور لہجے میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ اگر یہ بچے ہر میدان میں ہونگے اور سسٹم کا حصہ بنیں گے تو اپنے خلاف ہونے والی نفرت کی اشاعت کو نہ صرف روک سکتے ہیں بلکہ ایسے لاگوں کے خلاف ضروری کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔
ایک اہم بات اور ہے اور وہ یہ کہ فارغین مدارس عام طور سے عصری جامعات میں بھی انہی علوم سے وابستہ رہتے ہیں جن کو وہ مدارس میں حاصل کر چکے ہیں مثال کے طور پر عربی، اردو یا اسلامیات، جو صحیح نہیں ہے، میرا مقصد اردو یا عربی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا نہیں ہے بلکہ دیگر متبادل یا آپشنز تلاش کرنا ہے تا کہ مدارس کے یہ ہونہار طلباء صرف عربی اور اردو میں ہی سمٹ کر نہ رہ جائیں بلکہ دوسرے میدانوں میں بھی اپنی لیاقت وقابلیت کا مظاہرہ کرسکیں اور یہ بتا سکیں کہ ہم جس میدان میں بھی اترتے ہیں اس میں کسی سے کم نہیں ہیں مثال کے طور پر عربی و اردو کے علاوہ دیگر ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں ڈپلومہ اور گریجویشن، اسی طرح وکالت، ماس میڈیا، تاریخ، سماجی علوم، صحافت، وغیرہ میں بھی قوم و ملت کی خدمت انجام دی جا سکتی ہیں۔
از ڈاکٹر محسن عتیق خان
All reactions:
Mahmood Asim, Raihan Nadwi Alig and 18 others

Friday, July 28, 2023

الله میاں کا کارخانہ: ایک مطالعہ

 


 الله میاں کا کارخانہ مجھے صاحب کتاب کی طرف سے بطور ہدیہ گزشتہ رمضان کے مہینے میں موصول ہوئی تھی، چونکہ رمضان خیر وبرکت کا مہینہ ہے اس لئے اس میں کسی ناول کے پڑھنے کا تصوّر ہی نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن حسب عادت کتاب کو موصول کرتے ہی جستہ جستہ دیکھنا شروع کیا تو بڑی دلچسپ معلوم ہوئی اس لئے پڑھنے بیٹھ گیا، اور تقریبا ایک تھائی کے قریب پڑھ ڈالا، مگر وہ چھٹی کا دن تھا اور میرے ذمے کئی کام تھے اس لئے اہلیہ محترمہ نے جب مجھے مطالعے میں بہت زیادہ منہمک دیکھا تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا اور انہونے نے کام یاد دلاتے ہوئے کتاب ہاتھ سے لیکر رکھدی، اور پھر اس کا مطالعہ ادھورا رہ گیا-

اس ناول کی تعلق سے ایک ایسی خوش خبری نظر سے گزری جس نے مجھے پھر سے اس کی طرف متوجہ کر دیا- یہ خوش خبری نہ صرف صاحب کتاب کے لئے بڑی اہم تھی بلکہ ہندوستان میں اردو زبان میں تخلیقی قحط سالی کے اس دور میں یہ اردو دنیا کے لئے بھی بڑی اہم خبر تھی، اور وہ ہے ہندی ادب میں ترجمہ کی دنیا کے اب تک کے سب سے بڑے نقدی اعزاز سے نوازا جانا- اپنی نوعیت کے سب سے بڑے  پہلے 'بینک آف بڑودہ راشٹربھاشا سمان' میں الله میاں کا کارخانہ نے پہلا مقام حاصل کیا، اور اس کو ٣٦ لاکھ روپیہ نقد انعام دیا گیا جس میں سے اس ناول کے خالق محسن خان کو ٢١ لاکھ روپیہ اور اس کو ہندی کے قالب میں ڈھالنے کے لئے سعید احمد کو ١٥ لاکھ روپیہ- اس کتاب کا انتخاب بوکر پرائز انعام یافتہ گیتانجلی شری کی صدارت میں پانچ ارکان پر مشتمل جیوری نے کیا تھا-

یہ ناول ان رومانوی ناولوں سے بہت مختلف ہے جن کے پڑھنے کے ہم عادی ہیں، اور ان موضوعاتی ناولوں سے بھی با لکل الگ ہے جن کے کردار نوجوان، سلجھے ہوئے، با ہمّت اورمثالی ہوتے ہیں- اس کا ہیرو جبران نام کا ایک نو سال کا بچہ ہے جو اپنی نظر اور اپنے زاویہ سے دنیا کے مختلف رنگ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے- اس کے بچکانہ سوال سن کر ہم مند مند مسکرانے لگتے ہیں، اسے مرغی اور اس کے ڈربے سے بڑا لگاؤ ہے- اسے پتنگ اڑانے کا شوق تو دیوانگی کی حد تک ہے، اور بار بار سرزنش اور سزا پانے کے باوجود بھی وہ اپنے اس شوق کو چھوڑ نہیں پا  رہا ہے- اسکی یہ حرکتیں ہمیں واپس اپنے بچپن میں کھینچ لے جاتی ہیں اور ہماری یادوں کے دریچے دھیرے دھیرے کھلنے لگتے ہیں، وہ بچپن جس کی معصومانہ شرارتیں  ذھن کے نہاں خانوں میں کہیں گم ہو کر رہ گئی تھیں ایکدم سے ہمارے سامنے ایک غیر مربوط فلم کے مناظر کی طرح ظاہر ہونے لگتی ہیں- 

جبران سے نہ چاہتے ہوئے بھی شرارتیں سرزد ہو جاتی ہیں، جن کے لئے اسے ایسی سخت سزائیں دی جاتی ہیں جن کا وہ مستحق نہیں - ایک بار اس نے دادی کے دوپٹے کے پلو سے گرہ کھول کر پیسے اڑانے کی ناکام کوشش کی تو وہ دادی کی نظروں میں ہمیشہ کے لئے گر گیا اور دادی نے اپنی بھولنے کی بیماری کے باوجود کبھی اس پر اعتماد نہیں کیا اور نہ ہی اسے کبھی اپنے سرہانے بیٹھنے دیا- اسکی چچی نے اسے اخبار کے ایک ٹکڑے پر بنی ہیروئن کی خوبصورت تصویر کو تکتے دیکھ لیا تو اسے گھر سے نکال دیا بغیر یہ سوچے کہ بن ماں باپ کا یہ چھوٹا سا بچہ کہاں جائے گا، کس کے پاس رہے گا- محلے کے مدرسے کے حافی جی کی عبرت  کی چھڑی تو ہمیشہ تادیب کے لئے تیار نظر آتی ہے، وہ چھوٹی سے چھوٹی غلطیوں پر بھی بچوں کو بڑی بڑی دے ڈالتے ہیں- ناول کے شروع میں ویلین دکھائی پڑنے والے یہ حافی جی انسانیت کی مثال بنتے ہیں اور جبران کا آخری سہارا ثابت ہوتے ہیں-


اس ناول میں دو کردار ایسے ہیں جو مسلم سماج کی حالت اور دین و دنیا کو لیکر اس کے  اندر کی فکری کشاکش کے آئنہ دار ہیں- جبران کے والد تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، اور اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اسکول کی تعلیم دینا الحاد ہے- ایک دن اپنے بچوں کی فکر کئے بنا اپنی بیمار اور پیٹ کے درد سے کراہتی بیوی کو اللہ کے بھروسے چھوڑ کر تبلیغ کے لئے نکل جاتے ہیں، شاید وہ اس بات میں یقین ہی نہیں کرتے کی دنیا دار الاسباب ہے- گھر میں اگلے چند دنوں میں جب راشن ختم ہو جاتا ہے تو جبران کے ابو کی چھوٹی سی دکان میں جو کچھ بچا ہوتا ہے اس سے کسی طرح چند دن نکلتے ہیں، پھر اس کی امی محلے کی ایک عورت سے ادھار لیتی ہیں، اور پھر جب تنگی زیادہ ہو جاتی ہے اور بچوں کی بھوک دیکھی نہیں جاتی تو آخر کار جبران کے چچا سے ادھار لیکر کام چلاتی ہیں- جبران کے چچا اس کے ابو کے برعکس ایک زندہ دل آدمی ہیں، ایک اسکول میں ٹیچر ہیں اور تعلیم وتعلم سے شغف رکھتے ہیں، وہ زندگی جینے اور اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی ایک کامیاب زندگی جیتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں- ایک دن جب جبران کی بہن ان سے پوچھتی ہیں کہ کیا آپ کیے پاس وہ کتاب ہے جس میں مرنے کے بارے میں لکھا ہوا ہے تو وہ کہتے ہیں بیٹی میرے پاس زندگی کی کتاب ہے- 


یہ ناول پڑھتے وقت آپ شروع میں دھیمے دھیمے مسکراتے رہتے ہیں مگر جیسے جیسے آپ اگے بڑھتے ہیں، دھیمی مسکراہٹ کی جگہ آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگتے ہیں کیونکہ یہ ٹریجڈی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے، جبران کے والد جو جماعت میں تبلیغ کے لئے گئے ہوئے تھے، پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جبران کی ماں جو پہلے ہی تنگ دستی اور بیماری سے پریشن تھیں، اس خبر سے انھیں بڑا صدمہ لگتا ہے، اور پولیس کے پوچھ تاچھ کرکے چلے جانے کے بعد جب محلے کے لوگ ان سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں تو انھیں اور بھی دھکا لگتا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ لگتا ہے الله تعالی سارے ہی امتحاں لے ڈالے گا- جبران کی ماں جو پہلے ہی شدید بیماری سے جوجھ رہی ہوتی ہیں وہ بھوک اور اس صدمے کی تاب نہیں لا پاتیں اور جبران کو داغ مفارقت دے جاتی ہیں-


جبران کے چچا اسکو اور اسکی بہن نصرت کو اپنی بیوی کی نا پسندیدگی کے باوجود اپنے ساتھ اپنے گھر لیکر چلے جاتے ہیں، اور دونوں بچوں کے ساتھ محبّت اور شفقت کا معامله رکھتے ہیں، اور جبران کے والد کو چھڑانے کے لئے دہلی اور گجرات بھی جاتے ہیں، لیکن جلد ہی وہ بھی فالج کے مرض کا شکار ہو جاتے ہیں اور اور اس لا فانی دنیا سے چل بستے ہیں- ایک دن جبران کی چچی اسے اخبار کے ایک ٹکڑے پر بنی ایک خوبصورت لڑکی کی تصویر گھورتے دیکھ لیتی اورپھر غضبناک ہوکر یہ کہتے ہوئے گھر بدر کر دیتی ہیں "معلوم نہیں کیسے منحوس بچے ہیں، پہلے ماں کو کھا گئے، پھر باپ کو جیل بھجوا دیا، اور اب چچا کو دفنا دیا-" جیسے کہ ان تمام حوادث کا ذمے دار صرف جبران ہے-

حافی جی کوشش کرتے ہیں کہ چچی جبران کو رکھ لیں مگر جب ںاکام جو جاتے ہیں تو اسے اپنے ساتھ مدرسے لے آتے ہیں اور نہ صرف مختلف گھروں سے باری باری سے اپنے  لئے آنے والے کھانے میں اسے اپنے ساتھ شریک کرتے ہیں بلکہ بقرعید میں اس کے لئے کپڑے بھی بنوا دیتے ہیں- جبران اب انکی بکری کو چراکر اپنا وقت گزارتا ہے- چچا کا گھر چھوٹنے سے جبران نہ صرف بے گھر ہو جاتا ہے بلکہ اپنے دوست واحباب بھی چھوڑ بیٹھتا ہے کیونکہ وہ سب اس سے ابا کے بارے میں پوچھتے ہیں، وہ کسی کو کیا بتائے جب کہ وہ خود کچھ نہیں جانتا، اور اسی لئے وہ بقرعید کے دن بنا کسی سے گلے ملے مدرسے آجاتا ہے- جبران کو پتا چل گیا تھا کہ حافی جی بقرعید کیے بعد مدرسہ چھوڑ کیے ہمیشہ کے لئے چلے جائیں  گے، حافی جی نے تسلی دیتے ہوئے  کہا تو تھا کہ امید ہے کہ جو دوسرے حافی جی آئیں گے وہ بھی اس کا خیال رکھیں گے مگر یہ بھی کہ دیا تھا کہ پتا نہیں ان کا برتاؤ کیسا ہو-

جبران ذہنی الجھن میں تھا، باپ سے جدائی، امی کی وفات کا غم، پھر مشفق چچا کے سہارے کا ختم ہونا، اور چچی کا گھر سے نکالنا، یتیمی کی اس حالت میں اپنی بہن نصرت سے جدا ہونا جس نے چچی کے گھر کا آدھا کام سنبھال لیا تھا اور جب ایک دن وہ اس سے ملنے آئی تو ایسا لگا جیسے چوڑیاں کمزوری کی وجہ سے اس کے ہاتھوں سے گر جائیں گی، یہ سب مصیبتیں ٩ سال کے جبران کے لئے بہت زیادہ تھیں- مزید برآں یہ کہ حافی جی کے مدرسے چھوڑ کر جانے کی خبر، اور پھر شدید دھوپ میں بقرعید کی نماز پڑھنے کے بعد حافی جی کی اس بکری کی قربانی جس سے اس کو بہت لگاؤ ہو گیا تھا اور جو ایک طرح سے اس کی واحد دوست تھی، نے اسے شدید دکھ پہنچایا اور شام ہوتے ہوتے وہ بخار میں تپنے لگا- اور جب ہم یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ دیکھتے ہیں دوسرے آنے والے حافی جی اس کے ساتھ کیا برتاؤ روا رکھتے ہیں، وہ بھی جبران کے ساتھ اپنی روٹی شیر کرتے ہیں یا نہیں، ہو سکتا ہے اس کے ابو کچھ  دنوں میں چھوٹ جائیں، اسی بیچ اس کی زندگی کی شمع گل ہو رہی ہوتی ہے، اس کی ماں اس کے تصور کی دنیا میں آکر اس سے کہ رہی ہوتی ہیں "جبران تم کو تو بہت تیز بخار ہے، یہاں اکیلے ہو، اٹھو، میرے ساتھ چلو، وہاں چچا اور قطمیر بھی تمہارا انتظار کر رہے ہوتے ہیں-"

یہ ناول صرف جبران کی داستان نہیں ہے بلکہ ہر گاؤں اور شہر کی نیو کلیئر فیملی کے ایسے بچوں کی حقیقی کہانی ہے جنہیں بچپن میں یتیمی کے صدمے سے دو چار ہونا پڑتا ہے، چاہے وہ حکومت کی غیر حساس پالیسی کی وجہ سے ہو، جیسے دہشت گردی کے جھوٹھے الزاموں میں لوگوں کی گرفتاری، یا حادثاتی موت، ان کا بچپن سماج کی بے مروتی اور ظلم و زیادتی کی نظر ہو جاتا ہے. یہ ناول ایک بیانیہ سیٹ کرتا ہے اور قاری کو خود اس کے گرد و پیش کی اس سچائی سے واقف کراتا ہے جس کی طرف عام طور سے اس کا دھیان نہیں جاتا- ایک بچے کے ذریعے اس میں معاشرے کی ایسی تلخ حقیقت بیان کی گئی ہے جو بہت عام ہوتے ہوئے بھی لوگوں کا دھیان اپنی طرف نہیں کھینچ پاتی- 

اگر زبان کے نقطہ نظر دیکھیں تو اس کی زبان نہایت ششتہ اورآسان ہے اور پیچیدگی سے خالی ہے، کیونکہ اس کا راوی ایک بچه ہے، البتہ یہ الگ بات ہے کہ بعض الفاظ ایسے در آ ئے ہیں جو طبیعت کو ناگوار گزرتے ہیں لیکن ایسا شاید سیاق وسباق کی ضرورت کی وجہ سے ہوا ہے- بہر یہ حال یہ ناول ایک شہ پارہ ہے اور ہندوستان میں اردو کی ساکھ بحال کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ جدید اردو ادب میں ایک اضافہ ہے اور اسے اردو ادب کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہوگا-

 از  ڈاکٹر محسن عتیق خان

Thursday, July 20, 2023

حاصل مطالعہ: داستان اندلس مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل



حاصل مطالعہ

داستان اندلس: مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل
مصنف: ڈاکٹر محمد احسن

ناشر: اریب پبلیکیشنز، نئی دہلی
جب اس کتاب پر پہلی بار میری نظر پڑی تو مجھے اس کے عنوان سے سمجھ نہیں ایا کہ یہ سفرنامہ ہے یا عہد اسلامی کے اندلس کی تاریخ، لیکن مکتبِہ میں ہی اس کو جستہ جستہ دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ در اصل صاحب کتاب کا اسپین کا سفرنامہ ہے جس میں اندلس کے متعلق اپنی تاریخی معلومات کو اُنھوں نے سمو دیا ہے۔ Iسپین میں مسلمانوں کے آثارِ قدیمہ کی موجودہ صورت حال سے واقف ہونے کی میری بڑی خواہش تھی اس لیے میں نے اس کتاب کو سر دست حاصل کر لیا۔

صاحب کتاب جناب ڈاکٹر محمد احسن صاحب پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں اور یہ سفر اُنھوں نے اپنے دو عیسائی ساتھیوں کے ساتھ کیا تھا۔ اس کتاب میں کبھی وہ حال میں آثار قدیمہ کا سفر کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی تاریخ کے صفحات میں گم نظر اتے ہیں۔ اپنے اس سفرنامے کے بارے میں وہ اس کتاب کے حرف اول یعنی مقدمے میں خود لکھتے ہیں "اسے تحریر کرتے وقت میں نے یہ مناسب سمجھا کہ اسے کوئی علمی و ادبی یا تاریخی دستاویز کا روپ نہ دیا جائے بلکہ اس کے برعکس قارئین کے دلچسپی کے پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے دوران سفر اپنے مشاہدات، احساسات، اور ان سے متعلقہ تاریخی پس منظر کا مجموعہ بنا کر پیش کیا جائے"۔

اس سفرنامے میں اُنھوں نے ملاغہ، جبل الطارق، اشبیلیہ، قرطبہ، جیسے تاریخی شہروں کا سفر کیا ہے اور يوسف اول کا بنایا ہوا ملاغہ کا قلعہ، ملاغہ کی جامع مسجد، اشبیلیہ کا القصر، جامع مسجد قرطبہ، الحمراء کے محلات، مدینہ الزہراء، وغیرہ کا خاص طور سے اور قدر تفصیل سے تذکرہ کیا ہے اور اُنکی موجودہ حالت کے ساتھ ساتھ اُن کے ماضی کے پس منظر پر بھی مختصرا روشنی ڈالی ہے۔
اس سفرنامے میں بار بار اُنکے ذہن کا تاریخ کے صفحات میں گم ہونا کبھی کبھی اُکتاہٹ کا باعث بن جاتا ہے، اور اندلس کو لیکر اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ اُنکی گفتگو کئ جگہ بری بچکانہ سے لگتی ہی۔ اس کے علاوہ اُنکا اندلس کے آخری بادشاہ ابو عبداللہ کا بہادر شاہ ظفر کے ساتھ موازنہ بالکل بھی دانشمندانہ نہیں ہے اور دونوں کے حالات میں بڑا فرق ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ دونوں کا زوال ان ملکوں میں ایک خاندان کا زوال نہیں بلکہ ایک پوری قوم کا زوال تھا۔
ایک اور چیز جو اس کتاب کے تعلق سے قابل ذکر ہے وہ صاحب کتاب کا اندلس کو لیکر تقلیدی گریہ و زاری، جو ہے سود ہے حالانکہ اگر وہ خود اپنے آبائی وطن کی تعلق سے آبدیدہ ہوتے تو اُن کے آنسو شاید کچھ کام کر جاتے اور وہاں کی حالت زار میں شاید کُچھ سدھار ممکن ہوتا۔

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...