مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں
تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئی تو اُن کی عیادت کے لیے شاہین باغ میں واقع کربس ہسپتال گیا، کچھ دیر پاس میں بیٹھا رہا اور باتیں ہوتی رہیں۔ آپ بتانے لگے کہ کچھ دنوں سے علمی کاموں کی وجہ سے کھانے پینے پر دھیان نہ دے سکا، کھانا میز پر رکھے رکھے ٹھنڈا ہو جاتا تھا اور میں مشغولیت کی وجہ سے اُدھر دھیان ہی نہیں دے پاتا تھا، اس لیے صحت اس حالت کو پہنچ گئی کہ اب کچھ ہضم نہیں ہو رہا ہے، اور اگر موسمی کا جوس بھی ہضم ہوجائے تو بڑی بات ہے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں لطائف اشرفی کے عربی ترجمے کھنگالنے کی کوشش کر رہا تھا، اس سے پہلے کچھ لطیفوں کے عربی ترجمے کیے گئے تھے مگر وہ یا تو منظوم ہیں جن میں پوری بات واضح نہیں ہو پائی ہے، یا پھر ناقص ترجمے ہیں جن میں پورے کے پورے پیراگراف چھوڑ دیے گئے ہیں۔ پھر آگے کہنے لگے کہ ان شاء اللہ صحتیاب ہونے کے بعد لطائف اشرفی کے ترجمے کی کوشش کرونگا۔ اور پھر اس سلسلے میں مجھ سے تعاون کا وعدہ لیکر مجھے شکریہ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے الوداع کر دیا کہ اب میرے ہونٹ سوکھ رہے ہیں ان شاء اللہ پھر بات ہوگی۔
میں واپس آتے وقت پر امید تھا کہ ان شاء اللہ آپ جلد شفا یاب ہوجائیں مگر جب معلوم ہوا کہ آپ کربس سے ہولی فیملی اور ہولی فیملی سے میکس ہسپتال شفٹ ہو گئے ہیں تو اندازہ ہوا کہ آپ کی حالت نازک سے نازک تر ہوتی جا رہی ہے، اس بیچ میں نے کئی بار حال دریافت کرنے کے لیے آپ کے فون نمبر پر کال کیا مگر کسی نے ریسیو نہیں کیا، اور آخر کار آج (27 ستمبر 2023) وہ خبر آہی گئی جس کا اندیشہ تھا، یعنی آپ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
سالک صاحب سے پہلی ملاقات میرے چچازاد بھائی جناب عبدالحی خان کی وساطت سے سنہ 2010 میں ہوئی تھی جب وہ کچھ دنوں کے لیے مجھ سے ملنے دہلی تشریف لائے تھے۔ میں اس وقت شاہین باغ میں مقیم تھا اور سالک صاحب نے اپنا ایک مدرسہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے مدن پور کھادر میں قائم کر رکھا تھا،۔ پھر اس کے بعد کئی بار ملاقاتیں ہوئیں، کبھی میرے غریب خانے پر تو کبھی آپ کے مدرسے میں اور ہر ملاقات میں مختلف علمی موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا، کبھی یہ موضوعات علمی ہوتے تھے، اور کبھی اُن کا تعلق عربی ادب سے ہوتا تھا، لیکن کبھی بھی ہمارے درمیان مسلکی اختلافات پر کوئی بحث نہ ہوئی۔ آپ علماء و مشائخ بورڈ کے ترجمان تھے اور عالمی صوفی کانفرینس کے انتظام میں آپ کا بہت اہم رول تھا۔ آپ بورڈ کی طرف سے نکلنے والی اُردو میگزین کے ایڈیٹر بھی تھے اور مضمون لکھنے لکھوانے سے لیکر اس کو چھپوانے تک کی ساری زمہ داری آپ کے کندھوں پر تھی، آپ نے مجھے کئی بار اس میں لکھنے کے لیے کہا مگر اپنی تساہلی کی وجہ سے میں لکھ نہ سکا۔ اسی طرح میں نے آپ کو اقلام الہند میں لکھنے کی دعوت دی مگر آپ بھی اپنی عدیم الفرصتی کی وجہ سے کبھی کوئی آرٹیکل نہیں دے پائے۔ مولانا کی عربی میں ڈاکٹریٹ (پي ایچ ڈی) کرنے کی بڑی خواہش تھی، اور اس سلسلے میں چند مہینوں پہلے جب میں گاؤں میں تھا تو اُن کا فون بھی آیا تھا، اور موضوع کے تعلق سے کافی دیر بات ہوئی، آپ کوئی ایسا عنوان منتخب کرنا چاہ رہے تھے جو اُن کے مسلک سے متعلق ہو، بہر حال یہ طے ہوا کہ جب میں دہلی واپس آؤنگا تو اس مسئلے پر پھر بیٹھ کر بات ہوگی، لیکن افسوس آپ اس خواہش کی تکمیل سے پہلے ہی دار فنا سے کوچ کرگئے۔
مولانا کو اللہ تعالیٰ نے تحریر کے ساتھ تقریر کا بھی اچھا ملکہ عطا کیا تھا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، ایک بار ہمارے گاؤں کے مدرسے میں ایک جلسہ تھا جسم میں میں بطور مہمان خصوصی شریک تھا، مولانا بھی تشریف لائے تھے اور بڑی پر مغز تقریر کی اور سائنس کے میدان میں مسلمانوں کی خدمات پر بھی بہت دیر بولے۔ مولانا ایک اچھے مقرر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اکثر جلسوں میں شرکت کے لئے سفر پر رہتے تھے، کبھی سورت، کبھی احمدِ آباد تو کبھی ممبئی، اور رہی بات دہلی کی تو وہ تو آپ کا وطن ثانی بن ہی گیا تھا۔
ہمارے ایک عزیز دوست حاجی ریحان احمد سے آپ کے قریبی تعلقات تھے، ایک بار میں سورت سے واپس آیا تو اُن کا سلام اور اُن کے دیے ہوئے تحفے تحائف لے کر آپ کے پاس مدرسے میں گیا تو بڑی خاطر مدارات کی اور بڑی دیر مجلس رہی، الوداع کہتے وقت آپ نے کئی کتابیں بطور تحفہ عنایت کیں جن میں صوفی کانفرنس میں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ "اکیسویں صدی میں تصوف"، "گلزار صوفیاء نقشبندیہ" اور ترکی عالم فتح اللہ گولن کی سیرت کی معروف کتاب "نور سرمدی" خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
ایک بار ایک دلچسپ واقعہ ہوا، ہمارے چچا زاد بھائی عبد الحی خان صاحب آئے ہوئے تھے، ہمارے ایک ہم وطن عزیز نے جو علماء و مشائخ بورڈ سے منسلک تھے بورڈ کے آفس میں ہماری دعوت کی، جب ہم وہاں پہنچے تو اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے ہم سے اجازت چاہی کہ "کھانا بن رہا ہے آپ لوگ کھا لیجئے گا، مجھے کچھ ضروری کام ہے۔" ہم تذبذب میں تھے کہ کیا کریں، کہ دیکھا مولانا بھی وہیں ایک دوسرے کمرے میں موجود ہیں اور بورڈ کی میگزین کی ٹائپنگ اور کرکشن کروانے میں مصروف ہیں۔ چونکہ میرے بھائی کے آپ سے بڑے دیرینہ تعلقات تھے اس لیے بڑے تپاک سے ملے اور دعوت کا مناسب انتظام کیا، اور ہمیں اصل میزبان کے جانے سے جو خفت محسوس ہورہی تھی وہ جاتی رہی۔
دار العلوم ندوۃ العلماء سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی آپ بڑی شد و مد کے ساتھ بریلوی مسلک سے منسلک رہے، غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ندوہ آنے سے پہلے آپ جامعہ اشرفیہ اعظم گڑھ سے عالمیت کر چکے تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی شخص کے دل کی سادہ تختیوں پر جو پہلے نقوش ثبت ہوتے ہیں وہی دیر پا اور دائمی ہوتے ہیں، اور ایسا ہی کچھ حال مولانا کا بھی تھا، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ آپ کے مزاج میں اعتدال اور نظر میں وُسعت پیدا ہو گئی تھی جو عام طور سے مختلف چشموں سے سیراب ہونے کے بعد ہی ہوتی ہے۔
آپ ان دونوں مدرسوں میں نمایاں طالب علم تھے اور ندوۃ العلماء میں جمعیۃ الاصلاح کے ناظم بھی رہے، اور وہاں پر آپ نے اپنی عربی زبان صیقل کی اور وہاں سے فراغت کے بعد جامعۃ اشرفیہ میں بطور عربی ادب کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اسی طرح جامعہ حضرت نظام الدین، دہلی میں بھی آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں، اس کے بعد خود اپنا مدرسہ دہلی مین قائم کیا، اسی طرح اپنے وطن لال گنج واقع ضلع مہاراج گنج یو پی میں بھی المعھد کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ اگر آپ کے علمی کاموں کی بات کی جائے تو مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی کئی کتابوں پر عربی حواشی قائم کیے، اسي طرح اُنکی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر جہان اعلیٰ حضرت کے نام سے کسی صاحب کی شراکت میں ایک کتاب مرتب کی، مفتی اعظم ہند کی حیات و خدمات پر بھی ایک کتاب مرتب کی جو رضا اکیڈمی ممبئی سے شائع ہوئی۔ آپ کے اور بھی کئی کام ہیں جن کے نام مجھے یاد نہیں یا شاید جن سے میں واقف نہیں، اس کے علاوہ دسیوں مضامین اور مقالات ہیں جو مختلف مجلات میں بکھرے پڑے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ علم و ادب کا ایک درخشاں ستارہ تھے جو آج غروب ہو گیا ہے۔، اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔
از ڈاکٹر محسن عتیق خان
مدیر، سہ ماہی عربی مجلہ اقلام الہند، نئی دہلی