ہمارے گھر کو ہمارے ذہن کو بیچ دیا
یہ بات سچ ہے کہ سارے وطن کو بیچ دیا
لگا کے آگ عداوت کی، نفرتوں کی جناب
بس اک فقیر نے پورے چمن کو بیچ دیا
محبت، عشق، رواداری گزری باتیں ہیں
نئے سلیم نے ر سم کہن کو بیچ دیا
غریب باپ کی بیچارگی، مہنگی تعلیم
اک دوشیزہ نے اپنے بدن کو بیچ دیا
شہر میں چھوٹا سا گھر لے لیا اس نے لیکن
گاؤں کے گھر و پرانے صحن کو بیچ دیا
اکیلے کون سنے گا تمہاری اے محسن
سخنوروں نے یہاں پر سخن کو بیچ دیا
No comments:
Post a Comment