اے مادر علمی
تم کو دیکھا تو یاد آنے لگے
کتنے بھولے ہوئے گمنام سے نام
کتنے جوشیلے تھے جذبات ان کے
مرمریں جسم اور بیتاب آنکھیں
سیمتن کی شراب سی آنکھیں
پر نہ کافی تھیں بھلا دیں فکریں
غم دوران کا دور دورہ تھا
ہر طرف جوش تھا، شرارہ تھا
خود کو بدلیں بدل دیں پھر دنیا
تری آغوش میں ثریا تھا
تھا ترے علم کا جہاں میں مقام
تیری گلیوں میں علم کے شیدائی
چلتے پھرتے تھے صبح تا شام
کتنی رنگین تھی فضا تیری
کتنی خوشبو تھی تیرے پھولوں میں
کتنے بلبل یہاں تھے نغمہ سرا
کتنے طاؤس تھے یاں رقص کناں
کتنی شمعوں سے رات روشن تھی
کتنے جھنڈے ہوا کے دوش پے تھے
کتنے نعرے زباں پے عام تھے یاں
کتنی تحریکیں یاں سے اٹھتی تھیں
کتنی شامیں تھیں رنگ برنگی سی
کتنی بحثوں سے رات زندہ تھی
ائے مادر علمی
کیا اب بھی تیرے چشموں سے
علم کا آب شیریں رواں ہے
کیا اب بھی تیرے کوہساروں میں
حسن کی وہی اٹھکیلیاں ہیں
کیا آج بھی پری وشوں کے
وہی آزاد غمزہ و عشوے ہیں
کیا آج بھی تیرے پاس
وہی ذہن رسا باقی ہے
کیا آج بھی تیری فضائیں
اُنہیں ولولوں سے پر ہیں
کیا آج بھی تیری پہاڑیوں کی چوٹیاں
اُنہیں اُمنگوں کی شاہد ہیں
کیا آج بھی تیرے آسمانوں میں
وہی انقلابی نعرے گونجتے ہیں
کیا آج بھی تیرے خوشہ چینوں میں
دنیا کو بدلنے کی خواہش باقی ہے
یا
نفرت کی آندھیوں نے تمہیں بھی
سرے سے بدل ڈالا ہے
تمہارے آزاد پنچھیوں کے پر
چاقووں سے کتر دیے ہیں
تمہارے آشیانے کے باغبان
صیّاد کے پیروں میں جا پڑے ہیں
علم کی چاشنی میں
ز ہر گھول د یا ہے
انا اور خودداری کو
گرویں رکھ دیا ہے
کتنے پرانے مکین
تمہیں خیر باد کہ گئے ہیں
کتنے بے نوا تمہارے
کوچے سے گذرگئے ہیں
لیکن
تم پھر بھی شاد رہو آباد رہو
برا وقت جلدی گزر جائیگا
رونقیں پھر بہاروں کی لوٹ آئینگی
ولولے پھر وہی ہونگے پیدا يہاں
امنگیں جوان ہونگی پھر سے وہی
بلبلیں گیت گائیں گي الفت کے پھر
الاپیں گے راگیں محبت کے سب
گرم ہوگی محفل سخن کی وہی
مگر ہم نہ ہونگے الگ بات ہے
تم پھر بھی شاد رہو آباد رہو
(پچھلے ہفتے استاد محترم جناب مجیب الرحمن صاحب کی تین حالیہ کتابوں کی رو نمائی کے موقع سے جے ان یو جانے ہوا تو بہت سی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں، ایک آزاد نظم کہنے کی کوشش کی ہے ماضی اور حاضر کے پس منظر میں، پتا نہیں کتنا کامیاب ہوا ہوں اپنی بات کو کہنے میں- اب یہ آپ حضرات کی نظر کر رہا ہوں.
)
No comments:
Post a Comment