Monday, December 26, 2022

مولانا ابوالکلام آزاد کی انڈیا ونس فریڈم- ایک مطالعہ

 مولانا ابوالکلام آزاد کی انڈیا ونس فریڈم ایک اہم دستاویزی کتاب ہے جو تحریک آزادی کے آخری دنوں کی واضح تصویر پیش کرتی ہے، خاص طور سے ۱۹۳۵ سے لے کر آزادی اور تقسیم تک کا وقفہ سمجھنے کے لیے یہ بہت اہم کتاب ہے، اور ہندوستانی تاریخ سے ادنی سی دلچسپی رکھنے والے کو بھی یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔ اس زمانے میں ہمارے لیڈروں کے ذہنوں میں کیا چل رہا تھا، برطانوی وزیراعظم اور وائسرائے کے ساتھ انکی کس طرح کی گفت شنيد سے چل رہی تھی، وہ کس کس طرح سے اپنی تحریکوں کو چلا رہے تھے، اور کس کس طرح اپنی قربانیاں پیش کر رہے تھے، جیل میں کس طرح کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے، بحران کے وقت اور فیصلہ کن گھڑ یوں میں اُن سے کیا کیا فروگزاشت سرزد ہوئیں اور انہوں نے کیا کیا ہے بصری فیصلے لیے جنہوں نے آزادی کے حصول کی تاریخی خوشی کو ایک انسانی المیہ میں تبدیل کر دیا۔ وہ کون سے لیڈران تھے جنہوں نے مصائب کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور کون تھے جو مشکلات کے سامنے سينہ سپر رہے، وہ کون سے لیڈر تھے جو قوم کے لیے مخلص تھے اور وہ کون تھے جنہوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیے، کانگریس میں وہ کون سے لیڈران تھے جو تقسیم کے بارے حامی تھے اور وہ کون تھے جو تقسیم کے مخالف تھے, آخر سردار پٹیل جو گاندھی کے تخلیق کردہ تھے، وہ سنگھیوں کے منظور نظر کیسے ہو گئے، آزادی کے بعد ہندوستاں میں اور خاص طور سے دہلی اور اس کے اطراف میں مسلمانوں کے قتل عام کے اصل ذمے دار اور گاندھی جی کے قتل کے اصل مجرم کون تھے۔ یہ کتاب بہت سے سوالات کے جواب دیتی ہے اور ہمارے سامنے بر صغیر ہندوستان کی تقسیم اور آزادی کا پورا پس منظر پیش کرتی ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے تاریخ آزادی کے دور آخر کی تصویر میرے لئے پورے طور پر واضح نہیں تھی-

May be an image of 1 person, book and text
Like
Comment
Share

Monday, November 28, 2022

خواجہ معين الدين چشتی رح عربی مصادر کے حوالے سے


حضرت خواجہ معين الدين چشتی اجمیری رحمت الله علیہ (متوفى1236) ان نفوس قدسیہ کے سلسلہ کی ایک کڑی ہیں جنہوں نے اپنے پیچھے صدیوں پر محیط اثرات اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، اور جن کے احسانات سے خلق خدا کی ایک بڑی تعداد گرانبار ہے- آپ ہندوستان میں اسلام  کے سب سے بڑے مبلغ تھے، اور آپ کے ذریعے اسلام کی شعائیں اس ملک کے کونے کونے تک پہنچیں مگر آپکی دعوت کا خاص محور شمالی ہند كا راجپوتانہ صوبہ اور اس سے متصل علاقے  تھے جہاں لوگ فوج در فوج  آپ کے دست مبارک پر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوے، اور اسی طرح آپ کے بالواسطہ اور بلا واسطہ شاگردوں نے ہندوستان کے اطراف واکناف میں اسلام کی اشاعت میں انتہائی اہم رول ادا کیا ہے-[1]

عربی میں تاریخ وسیر کے قدیم مصادر آپ کے بارے میں خاموش ہیں، جہاں تک راقم الحروف تحقیق کر سکا، عربی کتب میں آپکا تذکرہ سب سے پہلے  نزہت الخواطور میں ملتا ہے، مایہ ناز ہندوستانی ادیب شیخ عبد الحی حسنی رح نے نزہت الخواطر میں آپکی زندگی پر مختصر روشنی ڈالنے کے بعد اشاعت اسلام کے سلسلہ میں آپکی مساعی جمیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے  "فأسلم على يديه خلق كثير" يعني آپ کے دست مبارک پر خلق خدا کی ایک کثیر تعداد نے اسلام قبول کیا. ایک عرب مصنف نائف زہر الدین نے  بھی اپنی کتاب "الشرق مهد الحضارات وأرض الرسالات" میں مختصراً آپ کا تذکرہ کیا ہے، اور آپ کے دعوتی کام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے "كان له الدور الأكبر في نشر الدين الإسلامي في الهند، وتابع تلاميذه نشر تعاليمه في أنحائها واشتهر منهم فريد الدين مسعود"، یعنی ہندوستان میں اسلام کی اشاعت میں سب سے بڑا کردار آپ ہی کا ہے، اور آپ کے شاگردوں نے بھی آپ کے دعوتی کام کو جاری رکھا اور ہندوستان کے طول وعرض میں آپکی تعلیمات کو عام کیا، ان تلامذہ میں فريد الدين مسعود کافی مشہور ہوے-

عربی کے معروف ہندوستانی صحافی اور مؤقرعربی مجلّہ البعث الإسلامي کے مدیر جناب سعید اعظمی ندوی صاحب نے اپنی کتاب "ساعة مع العارفين" میں آپ کا قدر تفصیل سے تذکرہ کیا ہے، لکھتے ہیں "حکمت الہی کا تقاضہ ہوا کہ ہندوستان شرک وبت پرستی سے پاک ہو اور یہاں ایمان وعقیدہ، دین وشریعت اور ایثار وقربانی کی ہوائیں چلنے لگیں، اور انکے تسلسل اور ترویج کی راہ ہموار ہو، اور مشیت الہی یہ بھی چاہتی تھی کہ اس ملک میں اسلام کی صدا بلند ہو اور محمّد صلى الله عليه وسلم کی دعوت اس کے اطراف واکناف میں مقبول خاص وعام ہو....الله تعالى نے اس ملک کے لئے یہ مقدّر کر دیا تھا کہ شیخ معين الدين چشتی رحمة الله عليه لوگوں کے دلوں میں اسلام کا بیج بوئیں اور ان پر اسلام کا سکہ بٹھا دیں-" سعید صحب مزید لکھتے ہیں "جب شیخ معين الدين چشتی رحمة الله عليه اس ملک میں پھیلے ہوئے فتنوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو گئے تب انہوں نے لوگوں کے حالات کو سدھارنے اور انکے رسم ورواج اور عقائد کی اصلاح کی جانب توجہ کی، یہاں تک کہ اس سرزمیں اور اس کے قرب وجوار پر ان کے ذریعہ بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیا، اور ہزاروں ہزار کی تعداد میں انہیں کی محنت اور کاوش سے ہدایت یاب ہوئے-"سعید صحب آگے لکھتے ہیں "ہندوستان میں رہنے والا ہر فرد مسلم شیخ معين الدين چشتی رحمة الله عليه کا زیر بار اور ممنوں کرم ہے کیونکہ یہاں پائ جانے والی اسلامی زندگی کے تمام نقوش واثرات انہیں کے رہین منّت ہیں اور ان سب کا فضل انہیں سے وابستہ ہے- تاریخ کا اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے اس  ملک پر جو احسانات اور کرامات ہیں انھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا- اس شخصیت کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تاریخ کے صفحات پر اپنا نام ہمیشہ ہمیش کے لئے نقش کر دیا، انکی یادیں اور کارنامے روز بروز چمکتے دمکتے اور روشن ومنوّر رہیں گے-

عربی میں آپکا تذکرہ تفصیل سے پہلی بار عالمی شہرت یافتہ ہندوستانی ادیب اور مفکر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی معروف کتاب رجال الفكروالدعوة میں ملتا ہے جو بعد میں تاریخ دعوت وعزیمت کے نام سے اردو میں ترجمہ ہوکر شائع ہوئی- اس کتاب میں آپ کی زندگی اور آپ کے دعوتی کارناموں پر ایک مستقل باب باندھا گیا ہے اور مختلف پہلوؤں سے خاطر خواہ روشنی ڈالی گئ ہے- مولانا آپکی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ایک جگہ رقم طراز ہیں "اگرچہ پہلی صدی ہجری میں ہی یہاں اسلام کے حوصلہ مند دستے آنے شروع ہو گئے تھے لیکن در حقیقت ہندوستان کی فتح کا سہرا سکندر اسلام محمود غزنوی کے سر اور مستحکم و مستقل سلطنت کے قیام کی سعادت سلطان شہاب الدین غوری کے حصّے میں تھی، اور آخری طور پر اسکی روحانی تسخیر اور اخلاقی وایمانی فتح حضرت خواجہ بزرگ شیخ معين الدين چشتی کے لیے مقدّر ہو چکی تھی-"

خواجہ معين الدين چشتی کی زندگی پر اب تک کوئی مستقل کتاب عربی میں موجود نہیں تھی مگر یہ کمی بھی کیرالہ سے تعلّق رکھنے والے ایک مصنف مصطفى محيي الدين ہدوي مليباري نے پوری کر دی، انہوں نے ابھی حال ہی میں ایک تحقیقی کتاب "الشيخ معين الدين الجشتي الأجميري (حياته ودعوته وآثاره)" کے عنوان سے  بیروت سے شائع کی ہے جس میں آپکی حیات وخدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور تصوّف کے اہم مصادر کی بنیاد پر اپنی تحقیق پیش کی ہے-

ایسی عظیم شخصیت جس نے ہندوستان میں اتنے بڑے پیمانے پر اسلام کی نشر واشاعت کا کام کیا، کا حق یہ تھا کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے اوپر مواد موجود ہو، مگر سچ یہ ہے کہ اپ کے تعلّق سے مسلمانوں کی دینی اور سب سے بڑی علمی اور ادبی زبان عربی میں مواد انتہائی کم یاب ہے بلکہ نہ کے برابر ہے ، اور اوپر عربی کی جن کتابوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے ان کے علاوہ شاید ہی کچھ دستیاب ہو سکے-


از ڈاکٹر محسن عتيق خان

مدیر سہ ماہی عربی مجلّہ اقلام الہند

 



[1] مودودی، سید ابو الاعلیٰ، اسلام کیسے پھیلا، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی، سنہ ٢٠١١، صفحہ نمبر ٢١


 

Wednesday, October 26, 2022

آخر ان مدرسوں کا کیا کریں

مدارس کو عام طور سے دین کے قلعے کہا جاتا رہا ہے، لیکن چونکہ اب قلعوں کا دور ختم ہوہے تقریباً ایک صدی ہو گئی اس لیے مسلمانوں کے عہد زوال میں قائم ہونے والے ان مدرسوں کا بھی زمانہ ختم ہو گیا ہے اور ان کے نظام کو زمانے کے مطابق از سر نو تشکیل دينے کی ضرورت ہے۔ اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان کا متعفن نظام نہ ایسے علماء پیدا کر سکے گا جن کو دین کا صحیح ادراک ہو، نہ ایسے قائد جو دنیا کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور افہام و تفہیم میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔ ان مدارس کے ذریعے تعلیم کو دینی و دنیاوی خانوں میں بانٹنا انتہائی احمقانہ و غیر منصفانہ عمل تھا، اور دنیا میں روز بروز ہو رہی تبدیلیوں سے نا واقفیت اور بے تعلّقی کا نتیجہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خود قرآن صرف تشریعی احکامات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ تاریخ، سائنس، جغرافیہ اور دیگر علوم و فنون کے بہت سے عناصر پر مشتمل ہے، اور ان علوم کی بنیادی باتوں کو جانے بغیر  قرآن کی حقیقی تفہیم ممکن نہیں ہے۔ 

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ بوسیدہ نظام رکھنے والے ان مدرسوں کا آخر کیا کیا جائے کیونکہ ان میں قوم کا سرمایہ لگا ہوا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ مدارس نہ رہیں گے تو دین کے ماہر کہاں سے آئیں گے اور مسجدوں کو مؤذن اور امام کہاں سے ملیں گے۔ آئیے نیچے دیے ہوئے نکات میں ان سوالوں کے کچھ جوابات ڈھونڈھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1- ثانوی درجات تک کے جو مدارس ہمارے گلی کوچوں میں پھیلے ہوئے ہیں انہیں ماڈرن اسکول میں تبدیل کر دینا چاہیے جن میں عصری تعلیم کے ساتھ بنیادی دینی تعلیم کا بھی نظم ہو اور اگر ان میں سے کچھ ایسے ہوں جنہیں اسکول میں کنورٹ کرنا ممکن نہ ہو تو پھر بند کر دینا چاہیے, کیونکہ وہ صرف استحصال کا ذریعہ بنیں گے اور قوم کا سرمایہ ضائع کریں گے۔

2- محلے کی مساجد میں صبح و شام ایک ایک گھنٹے کے  ناظرہ اور بنیادی دینی تعلیم کے لئے کلاسز قائم ہوني چاہیے تاکہ اگر اسکولوں میں دینی تعلیم کا نظم نا ہو تو یہاں پر اس کمی کو پورا کیا جا سکے۔

3- جو بڑے مدارس ہیں جیسے، ندوۃ العلماء، دار العلوم دیوبند، جامعہ اشرفیہ،مدرسۃ الاصلاح، جامعۃ الفلاح وغیرہ انہیں یونیورسٹی اور کالج کی طرز پر اعلٰی دینی تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے،  اور تفسیر، حدیث، فقہ، دعوه، اسلامی تاریخ و سیر اور عربی زبان و ادب جیسے موضوعات پر عالمی معیار کے مطابق گریجویشن اور ماسٹر کے کورسز قائم کرنے چاہیے۔

4- بڑے مدارس کو ایک دو اور تین سال کے سرٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کورسز بھی لانچ کرنے چاہے تاکہ لوگ اپنی ضرورت اور استعداد کے بقدر فائدہ اٹھا سکیں۔

4- اساتذہ سے فی سبیل اللہ کام کرنے، اخلاص کے ساتھ پڑھانے، یا متقی اور پرہیز گار ہونے کی امید کرنے کے بجائے انہیں بتایا جائے کہ بچوں کے ساتھ ایک حقیقی پیشہ ور معلم یعنی (true professional) کی طرح کیسے پیش آنا ہے۔

5- جسمانی سزا یعنی corporal punishment پر پوری طرح سے پابندی ہونی چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف غیر اخلاقي حرکت ہے بلکہ قانونی جرم بھی ہی، اور ہر حال میں اس پر لگام لگنا چاہیے۔

خلاصۃ کلام یہ کہ اوپر جو نکات میں نے اپنی ناقص رائے  کے مطابق ذکر کئے ہیں ان سے مدارس کا نصاب عالمی معیار کے مطابق ہوگا، نظام میں تبدیلی آئے گی اور وہ اور زیادہ مربوط، منظم، شفّاف اور جامع ہوں گے، اور ان کے فارغین اسی دنیا کی مخلوق معلوم ہونگے، اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو کچھ بعید نہیں کی یہ مدرسے قصہ پارینہ بن جائیں، کیونکہ عوام کی دلچسپی اُن میں روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے اور حکام کے نشانے پر تو وہ ہیں ہی۔

از ڈاکٹر محسن عتیق خان

مدیر سہ ماہی عربی مجلہ اقلام الہند۔

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...