Wednesday, October 26, 2022

آخر ان مدرسوں کا کیا کریں

مدارس کو عام طور سے دین کے قلعے کہا جاتا رہا ہے، لیکن چونکہ اب قلعوں کا دور ختم ہوہے تقریباً ایک صدی ہو گئی اس لیے مسلمانوں کے عہد زوال میں قائم ہونے والے ان مدرسوں کا بھی زمانہ ختم ہو گیا ہے اور ان کے نظام کو زمانے کے مطابق از سر نو تشکیل دينے کی ضرورت ہے۔ اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان کا متعفن نظام نہ ایسے علماء پیدا کر سکے گا جن کو دین کا صحیح ادراک ہو، نہ ایسے قائد جو دنیا کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور افہام و تفہیم میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔ ان مدارس کے ذریعے تعلیم کو دینی و دنیاوی خانوں میں بانٹنا انتہائی احمقانہ و غیر منصفانہ عمل تھا، اور دنیا میں روز بروز ہو رہی تبدیلیوں سے نا واقفیت اور بے تعلّقی کا نتیجہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خود قرآن صرف تشریعی احکامات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ تاریخ، سائنس، جغرافیہ اور دیگر علوم و فنون کے بہت سے عناصر پر مشتمل ہے، اور ان علوم کی بنیادی باتوں کو جانے بغیر  قرآن کی حقیقی تفہیم ممکن نہیں ہے۔ 

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ بوسیدہ نظام رکھنے والے ان مدرسوں کا آخر کیا کیا جائے کیونکہ ان میں قوم کا سرمایہ لگا ہوا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ مدارس نہ رہیں گے تو دین کے ماہر کہاں سے آئیں گے اور مسجدوں کو مؤذن اور امام کہاں سے ملیں گے۔ آئیے نیچے دیے ہوئے نکات میں ان سوالوں کے کچھ جوابات ڈھونڈھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1- ثانوی درجات تک کے جو مدارس ہمارے گلی کوچوں میں پھیلے ہوئے ہیں انہیں ماڈرن اسکول میں تبدیل کر دینا چاہیے جن میں عصری تعلیم کے ساتھ بنیادی دینی تعلیم کا بھی نظم ہو اور اگر ان میں سے کچھ ایسے ہوں جنہیں اسکول میں کنورٹ کرنا ممکن نہ ہو تو پھر بند کر دینا چاہیے, کیونکہ وہ صرف استحصال کا ذریعہ بنیں گے اور قوم کا سرمایہ ضائع کریں گے۔

2- محلے کی مساجد میں صبح و شام ایک ایک گھنٹے کے  ناظرہ اور بنیادی دینی تعلیم کے لئے کلاسز قائم ہوني چاہیے تاکہ اگر اسکولوں میں دینی تعلیم کا نظم نا ہو تو یہاں پر اس کمی کو پورا کیا جا سکے۔

3- جو بڑے مدارس ہیں جیسے، ندوۃ العلماء، دار العلوم دیوبند، جامعہ اشرفیہ،مدرسۃ الاصلاح، جامعۃ الفلاح وغیرہ انہیں یونیورسٹی اور کالج کی طرز پر اعلٰی دینی تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے،  اور تفسیر، حدیث، فقہ، دعوه، اسلامی تاریخ و سیر اور عربی زبان و ادب جیسے موضوعات پر عالمی معیار کے مطابق گریجویشن اور ماسٹر کے کورسز قائم کرنے چاہیے۔

4- بڑے مدارس کو ایک دو اور تین سال کے سرٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کورسز بھی لانچ کرنے چاہے تاکہ لوگ اپنی ضرورت اور استعداد کے بقدر فائدہ اٹھا سکیں۔

4- اساتذہ سے فی سبیل اللہ کام کرنے، اخلاص کے ساتھ پڑھانے، یا متقی اور پرہیز گار ہونے کی امید کرنے کے بجائے انہیں بتایا جائے کہ بچوں کے ساتھ ایک حقیقی پیشہ ور معلم یعنی (true professional) کی طرح کیسے پیش آنا ہے۔

5- جسمانی سزا یعنی corporal punishment پر پوری طرح سے پابندی ہونی چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف غیر اخلاقي حرکت ہے بلکہ قانونی جرم بھی ہی، اور ہر حال میں اس پر لگام لگنا چاہیے۔

خلاصۃ کلام یہ کہ اوپر جو نکات میں نے اپنی ناقص رائے  کے مطابق ذکر کئے ہیں ان سے مدارس کا نصاب عالمی معیار کے مطابق ہوگا، نظام میں تبدیلی آئے گی اور وہ اور زیادہ مربوط، منظم، شفّاف اور جامع ہوں گے، اور ان کے فارغین اسی دنیا کی مخلوق معلوم ہونگے، اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو کچھ بعید نہیں کی یہ مدرسے قصہ پارینہ بن جائیں، کیونکہ عوام کی دلچسپی اُن میں روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے اور حکام کے نشانے پر تو وہ ہیں ہی۔

از ڈاکٹر محسن عتیق خان

مدیر سہ ماہی عربی مجلہ اقلام الہند۔

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...