Thursday, August 31, 2023

غزل: ہمارے گھر کو ہمارے ذہن کو بیچ دیا

ہمارے گھر کو ہمارے ذہن کو بیچ دیا

یہ بات سچ ہے کہ سارے وطن کو بیچ دیا

لگا کے آگ عداوت کی، نفرتوں کی جناب

بس اک فقیر نے پورے چمن کو بیچ دیا

محبت، عشق، رواداری گزری باتیں ہیں

نئے سلیم نے ر سم کہن کو بیچ دیا

غریب باپ کی بیچارگی، مہنگی تعلیم

اک دوشیزہ نے اپنے بدن کو بیچ دیا

شہر میں چھوٹا سا گھر لے لیا اس نے لیکن 

گاؤں کے گھر و پرانے صحن کو بیچ دیا

اکیلے کون سنے گا تمہاری اے محسن

سخنوروں نے یہاں پر سخن کو بیچ دیا


جے این یو کے نام



 اے مادر علمی

تم کو دیکھا تو یاد آنے لگے

کتنے بھولے ہوئے گمنام سے نام
کتنے خوابوں سے پر تھے وہ چہرے
کتنے جوشیلے تھے جذبات ان کے
مرمریں جسم اور بیتاب آنکھیں
سیمتن کی شراب سی آنکھیں
پر نہ کافی تھیں بھلا دیں فکریں
غم دوران کا دور دورہ تھا
ہر طرف جوش تھا، شرارہ تھا
خود کو بدلیں بدل دیں پھر دنیا
تری آغوش میں ثریا تھا
تھا ترے علم کا جہاں میں مقام
تیری گلیوں میں علم کے شیدائی
چلتے پھرتے تھے صبح تا شام
کتنی رنگین تھی فضا تیری
کتنی خوشبو تھی تیرے پھولوں میں
کتنے بلبل یہاں تھے نغمہ سرا
کتنے طاؤس تھے یاں رقص کناں
کتنی شمعوں سے رات روشن تھی
کتنے جھنڈے ہوا کے دوش پے تھے
کتنے نعرے زباں پے عام تھے یاں
کتنی تحریکیں یاں سے اٹھتی تھیں
کتنی شامیں تھیں رنگ برنگی سی
کتنی بحثوں سے رات زندہ تھی
ائے مادر علمی
کیا اب بھی تیرے چشموں سے
علم کا آب شیریں رواں ہے
کیا اب بھی تیرے کوہساروں میں
حسن کی وہی اٹھکیلیاں ہیں
کیا آج بھی پری وشوں کے
وہی آزاد غمزہ و عشوے ہیں
کیا آج بھی تیرے پاس
وہی ذہن رسا باقی ہے
کیا آج بھی تیری فضائیں
اُنہیں ولولوں سے پر ہیں
کیا آج بھی تیری پہاڑیوں کی چوٹیاں
اُنہیں اُمنگوں کی شاہد ہیں
کیا آج بھی تیرے آسمانوں میں
وہی انقلابی نعرے گونجتے ہیں
کیا آج بھی تیرے خوشہ چینوں میں
دنیا کو بدلنے کی خواہش باقی ہے
یا
نفرت کی آندھیوں نے تمہیں بھی
سرے سے بدل ڈالا ہے
تمہارے آزاد پنچھیوں کے پر
چاقووں سے کتر دیے ہیں
تمہارے آشیانے کے باغبان
صیّاد کے پیروں میں جا پڑے ہیں
علم کی چاشنی میں
ز ہر گھول د یا ہے
انا اور خودداری کو
گرویں رکھ دیا ہے
کتنے پرانے مکین
تمہیں خیر باد کہ گئے ہیں
کتنے بے نوا تمہارے
کوچے سے گذرگئے ہیں
لیکن
تم پھر بھی شاد رہو آباد رہو
برا وقت جلدی گزر جائیگا
رونقیں پھر بہاروں کی لوٹ آئینگی
ولولے پھر وہی ہونگے پیدا يہاں
امنگیں جوان ہونگی پھر سے وہی
بلبلیں گیت گائیں گي الفت کے پھر
الاپیں گے راگیں محبت کے سب
گرم ہوگی محفل سخن کی وہی
مگر ہم نہ ہونگے الگ بات ہے
تم پھر بھی شاد رہو آباد رہو
(پچھلے ہفتے استاد محترم جناب مجیب الرحمن صاحب کی تین حالیہ کتابوں کی رو نمائی کے موقع سے جے ان یو جانے ہوا تو بہت سی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں، ایک آزاد نظم کہنے کی کوشش کی ہے ماضی اور حاضر کے پس منظر میں، پتا نہیں کتنا کامیاب ہوا ہوں اپنی بات کو کہنے میں- اب یہ آپ حضرات کی نظر کر رہا ہوں.
)

چندر یان کی نذر



آخرش تم کو مل گئی منزل

رتجگوں کا صلہ سمجھتے ہیں

وصل کے دن تمہیں مبارک ہوں 

عشق میں گر کے ہی سنبھلتے ہیں

کیا حسیں اتنا ہے قریب سے وہ

جتنا ہم دور سے سمجھتے ہیں

اس سے کہنا کہ اس سے ملنے کو

ہم یہاں پر بہت تر ستے ہیں

اس کے ذکر جمال سے سارے 

حسن والے یہاں لرزتے ہیں

کیا تمہارے یہاں زمیں کی طرح

پیڑ پودے بھی کچھ پنپتے ہیں

کیا ہوا خنک ہے یہاں کی طرح

کیا وہاں بھی سبو لڑھکتے ہیں

کیا وہاں بھی ہے بادلوں کا سماں

کیا وہاں بھی وہ یوں برستے ہیں

چندریاں حسن کی جناب میں ہیں

نازکی حسن کی سمجھتے ہیں

کتنے نخرے اٹھانے پڑتے ہیں

کچھ گلے شکوے کو سمجھتے ہیں


فارغین مدارس اور یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم



فارغین مدارس کا اعلی تعلیم کے حصول کے لیے عصری جامعات کی طرف رخ کرنا ایک لمحۂ فکرِیہ بھی ہے اور خوش آئند قدم بھی۔ لمحۂ فکریہ اس لیے کہ مدارس سے فارغ ہونے والی جماعت سے امت اسلامیہ کی بہت سی امیدیں وابستہ رہتی ہیں، وہ انہیں عوام کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ و اصلاح کی خدمات انجام دینے کا ذمہ دار سمجھتی ہے، اور ان کے عصری جامعات کی طرف متوجہ ہونے سے اذان و اقامت اور تعلیم و تدریس کی خدمات انجام دینے والوں کی کمی کا اندیشہ ہے۔
اور خوش آئند بات اس لیے کہ یونیورسٹی میں جب الگ الگ فنون کے ماہرین، الگ مذاھب سے تعلق رکھنے والے طالب علموں، اور مختلف ملکوں کے علم کے جویاؤں سے انکی شناشائی ہوتی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو ذہن کے نئے دریچے کھلتے ہیں، عقل وخرد کو نئی وسعتیں حاصل ہوتی ہیں، سوچنے کا زاویہ بدلتا ہے، اور پھر ہم دنیا کو مسلکی نقطئہ نظر سے نہیں، بلکہ انسانی نظریہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ایک بات یہ کہ آج کے دور میں جب کہ زندگی کی ضروریات بہت بڑھ گئی ہیں اور لوازمات بے شمار ہو گئے ہیں وہ اعلی تعلیم کے حصول کے بعد ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں اور دوسروں کا دست نگر ہونے کے بجائے خود کفیل ہو سکتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مدارس کے فارغین علوم نبوت کے حاملین ہیں اور قرآن و سنت سے واقفیت رکھتے ہیں اور پھر کالج اور یونیورسٹی میں جا کر اپنی صلاحیتوں کو مزید صیقل کرتے ہیں اور مروجہ علوم سے واقفیت کے بعد اپنی محنت کے بل پر عصری تعلیم گاہوں، حکومت کے اعلیٰ عہدوں اور کارپوریٹ میں، جہاں بھی اُنہیں موقع ملتا ہے وہ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں. میں نے اُنہیں آئی اے ایس کے اعلی عہدوں پر دیکھا ہے، پروفیسر کے مرتبے پر فائز دیکھا ہے، اور بڑی بڑی کمپنیوں میں اہم ذمے داریوں کو نبھاتے بھی دیکھا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ ہندوستان کے نمایاں کولجز سے پڑھنے والوں کو مختلف میدانوں میں ٹریننگ دیتے بھی دیکھا ہے پھر چاہے وہ انجینيرنگ کرنے والوں کو ٹیکنالوجی کی تعلیم ہو یا کومرس سے گریجوایشن کرنے والوں کو بینکنگ کی ٹریننگ۔
مدارس کی توجہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم تربیت دینے، اُنکے مطالعہ کو وسیع کرنے، اور اُنکے عقیدے اور افکار کو پختگی عطا کرنے پر ہونی چاہیے نہ کہ بیٹھ کر اُن کے افق کو محدود کرنے پر، اور یہ طے کرنے پر کہ وہ مستقبل میں کیا کام کریں، اور کیا نہ کریں۔ اپنے بچوں کو صرف تعلیم وتعلم، اور منبر و محراب تک محدود رکھنے کی خواہش یا صرف اسی کو دین کا کام سمجھنا کوتاہ بینی اور تنگ نظری کا نتیجہ ہے، کوشش یہ ہونا چاہیے کہ یہ بچے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی آئیڈیالوجی، اپنے افکار اور اپنی اخلاقیات کے ساتھ داخل ہوں اور ہر جگہ اپنی چھاپ چھوڑیں اور ہر میدان کو متاثر کریں۔ وہ جج بن کر انصاف کی تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں، وہ اچھے منتظم بن کر عدل قائم کر سکتے ہیں، وہ اچھے ڈاکٹر یا حکیم بن کر قوم کی صحت کا خیال رکھ سکتے ہیں، اور وہ نئے ايجادات و انکشافات کے بانی ہو کر قوم کا بھلا بھی کر سکتے ہیں، آخر یہی مدرسے تو تھے جنہوں نے حکماء بھی دیے اور دانشور بھی، سائنٹست بھی دیے اور موجد بھی، تو کوئی وجہ نہیں کہ شاہیں بچوں کو خاکبازی کا سبق دیا جائے اور انکا مستقبل صرف منابر و مآذن تک محدود کیا جائے یا سمجھا جائے-
بہتر یہ ہوگا کہ اُنکا مطالعہ وسیع ہو، اور عقیدہ پختہ ہو تاکہ وہ مشکل ترین حالات میں بھی اس پر جمے رہیں، اور یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اگر اُنہیں اچھی تعلیم و تربیت دی گئی تو وہ جہاں بھی رہیں گے وسیع معنوں میں اسلام کے نمائندے ہونگے اور اگر چاہیں تو ایک لائق داعی کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکتے ہیں کیونکہ وہ برادران وطن کے ساتھ انہیں کی زبان اور لہجے میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ اگر یہ بچے ہر میدان میں ہونگے اور سسٹم کا حصہ بنیں گے تو اپنے خلاف ہونے والی نفرت کی اشاعت کو نہ صرف روک سکتے ہیں بلکہ ایسے لاگوں کے خلاف ضروری کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔
ایک اہم بات اور ہے اور وہ یہ کہ فارغین مدارس عام طور سے عصری جامعات میں بھی انہی علوم سے وابستہ رہتے ہیں جن کو وہ مدارس میں حاصل کر چکے ہیں مثال کے طور پر عربی، اردو یا اسلامیات، جو صحیح نہیں ہے، میرا مقصد اردو یا عربی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا نہیں ہے بلکہ دیگر متبادل یا آپشنز تلاش کرنا ہے تا کہ مدارس کے یہ ہونہار طلباء صرف عربی اور اردو میں ہی سمٹ کر نہ رہ جائیں بلکہ دوسرے میدانوں میں بھی اپنی لیاقت وقابلیت کا مظاہرہ کرسکیں اور یہ بتا سکیں کہ ہم جس میدان میں بھی اترتے ہیں اس میں کسی سے کم نہیں ہیں مثال کے طور پر عربی و اردو کے علاوہ دیگر ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں ڈپلومہ اور گریجویشن، اسی طرح وکالت، ماس میڈیا، تاریخ، سماجی علوم، صحافت، وغیرہ میں بھی قوم و ملت کی خدمت انجام دی جا سکتی ہیں۔
از ڈاکٹر محسن عتیق خان
All reactions:
Mahmood Asim, Raihan Nadwi Alig and 18 others

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...