Monday, November 28, 2022

خواجہ معين الدين چشتی رح عربی مصادر کے حوالے سے


حضرت خواجہ معين الدين چشتی اجمیری رحمت الله علیہ (متوفى1236) ان نفوس قدسیہ کے سلسلہ کی ایک کڑی ہیں جنہوں نے اپنے پیچھے صدیوں پر محیط اثرات اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، اور جن کے احسانات سے خلق خدا کی ایک بڑی تعداد گرانبار ہے- آپ ہندوستان میں اسلام  کے سب سے بڑے مبلغ تھے، اور آپ کے ذریعے اسلام کی شعائیں اس ملک کے کونے کونے تک پہنچیں مگر آپکی دعوت کا خاص محور شمالی ہند كا راجپوتانہ صوبہ اور اس سے متصل علاقے  تھے جہاں لوگ فوج در فوج  آپ کے دست مبارک پر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوے، اور اسی طرح آپ کے بالواسطہ اور بلا واسطہ شاگردوں نے ہندوستان کے اطراف واکناف میں اسلام کی اشاعت میں انتہائی اہم رول ادا کیا ہے-[1]

عربی میں تاریخ وسیر کے قدیم مصادر آپ کے بارے میں خاموش ہیں، جہاں تک راقم الحروف تحقیق کر سکا، عربی کتب میں آپکا تذکرہ سب سے پہلے  نزہت الخواطور میں ملتا ہے، مایہ ناز ہندوستانی ادیب شیخ عبد الحی حسنی رح نے نزہت الخواطر میں آپکی زندگی پر مختصر روشنی ڈالنے کے بعد اشاعت اسلام کے سلسلہ میں آپکی مساعی جمیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے  "فأسلم على يديه خلق كثير" يعني آپ کے دست مبارک پر خلق خدا کی ایک کثیر تعداد نے اسلام قبول کیا. ایک عرب مصنف نائف زہر الدین نے  بھی اپنی کتاب "الشرق مهد الحضارات وأرض الرسالات" میں مختصراً آپ کا تذکرہ کیا ہے، اور آپ کے دعوتی کام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے "كان له الدور الأكبر في نشر الدين الإسلامي في الهند، وتابع تلاميذه نشر تعاليمه في أنحائها واشتهر منهم فريد الدين مسعود"، یعنی ہندوستان میں اسلام کی اشاعت میں سب سے بڑا کردار آپ ہی کا ہے، اور آپ کے شاگردوں نے بھی آپ کے دعوتی کام کو جاری رکھا اور ہندوستان کے طول وعرض میں آپکی تعلیمات کو عام کیا، ان تلامذہ میں فريد الدين مسعود کافی مشہور ہوے-

عربی کے معروف ہندوستانی صحافی اور مؤقرعربی مجلّہ البعث الإسلامي کے مدیر جناب سعید اعظمی ندوی صاحب نے اپنی کتاب "ساعة مع العارفين" میں آپ کا قدر تفصیل سے تذکرہ کیا ہے، لکھتے ہیں "حکمت الہی کا تقاضہ ہوا کہ ہندوستان شرک وبت پرستی سے پاک ہو اور یہاں ایمان وعقیدہ، دین وشریعت اور ایثار وقربانی کی ہوائیں چلنے لگیں، اور انکے تسلسل اور ترویج کی راہ ہموار ہو، اور مشیت الہی یہ بھی چاہتی تھی کہ اس ملک میں اسلام کی صدا بلند ہو اور محمّد صلى الله عليه وسلم کی دعوت اس کے اطراف واکناف میں مقبول خاص وعام ہو....الله تعالى نے اس ملک کے لئے یہ مقدّر کر دیا تھا کہ شیخ معين الدين چشتی رحمة الله عليه لوگوں کے دلوں میں اسلام کا بیج بوئیں اور ان پر اسلام کا سکہ بٹھا دیں-" سعید صحب مزید لکھتے ہیں "جب شیخ معين الدين چشتی رحمة الله عليه اس ملک میں پھیلے ہوئے فتنوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو گئے تب انہوں نے لوگوں کے حالات کو سدھارنے اور انکے رسم ورواج اور عقائد کی اصلاح کی جانب توجہ کی، یہاں تک کہ اس سرزمیں اور اس کے قرب وجوار پر ان کے ذریعہ بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیا، اور ہزاروں ہزار کی تعداد میں انہیں کی محنت اور کاوش سے ہدایت یاب ہوئے-"سعید صحب آگے لکھتے ہیں "ہندوستان میں رہنے والا ہر فرد مسلم شیخ معين الدين چشتی رحمة الله عليه کا زیر بار اور ممنوں کرم ہے کیونکہ یہاں پائ جانے والی اسلامی زندگی کے تمام نقوش واثرات انہیں کے رہین منّت ہیں اور ان سب کا فضل انہیں سے وابستہ ہے- تاریخ کا اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے اس  ملک پر جو احسانات اور کرامات ہیں انھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا- اس شخصیت کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تاریخ کے صفحات پر اپنا نام ہمیشہ ہمیش کے لئے نقش کر دیا، انکی یادیں اور کارنامے روز بروز چمکتے دمکتے اور روشن ومنوّر رہیں گے-

عربی میں آپکا تذکرہ تفصیل سے پہلی بار عالمی شہرت یافتہ ہندوستانی ادیب اور مفکر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی معروف کتاب رجال الفكروالدعوة میں ملتا ہے جو بعد میں تاریخ دعوت وعزیمت کے نام سے اردو میں ترجمہ ہوکر شائع ہوئی- اس کتاب میں آپ کی زندگی اور آپ کے دعوتی کارناموں پر ایک مستقل باب باندھا گیا ہے اور مختلف پہلوؤں سے خاطر خواہ روشنی ڈالی گئ ہے- مولانا آپکی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ایک جگہ رقم طراز ہیں "اگرچہ پہلی صدی ہجری میں ہی یہاں اسلام کے حوصلہ مند دستے آنے شروع ہو گئے تھے لیکن در حقیقت ہندوستان کی فتح کا سہرا سکندر اسلام محمود غزنوی کے سر اور مستحکم و مستقل سلطنت کے قیام کی سعادت سلطان شہاب الدین غوری کے حصّے میں تھی، اور آخری طور پر اسکی روحانی تسخیر اور اخلاقی وایمانی فتح حضرت خواجہ بزرگ شیخ معين الدين چشتی کے لیے مقدّر ہو چکی تھی-"

خواجہ معين الدين چشتی کی زندگی پر اب تک کوئی مستقل کتاب عربی میں موجود نہیں تھی مگر یہ کمی بھی کیرالہ سے تعلّق رکھنے والے ایک مصنف مصطفى محيي الدين ہدوي مليباري نے پوری کر دی، انہوں نے ابھی حال ہی میں ایک تحقیقی کتاب "الشيخ معين الدين الجشتي الأجميري (حياته ودعوته وآثاره)" کے عنوان سے  بیروت سے شائع کی ہے جس میں آپکی حیات وخدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور تصوّف کے اہم مصادر کی بنیاد پر اپنی تحقیق پیش کی ہے-

ایسی عظیم شخصیت جس نے ہندوستان میں اتنے بڑے پیمانے پر اسلام کی نشر واشاعت کا کام کیا، کا حق یہ تھا کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے اوپر مواد موجود ہو، مگر سچ یہ ہے کہ اپ کے تعلّق سے مسلمانوں کی دینی اور سب سے بڑی علمی اور ادبی زبان عربی میں مواد انتہائی کم یاب ہے بلکہ نہ کے برابر ہے ، اور اوپر عربی کی جن کتابوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے ان کے علاوہ شاید ہی کچھ دستیاب ہو سکے-


از ڈاکٹر محسن عتيق خان

مدیر سہ ماہی عربی مجلّہ اقلام الہند

 



[1] مودودی، سید ابو الاعلیٰ، اسلام کیسے پھیلا، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی، سنہ ٢٠١١، صفحہ نمبر ٢١


 

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...