Sunday, November 22, 2020

ردولي كي سير

 آپ نے یہ کہاوت تو ضرور سنی ہوگی "وہ دن گئے جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے" کہاوتیں حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہیں اور یہ کہاوت بھی ایک تاریخی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ خلیل میاں کسی افسانوی کردار کا نہیں بلکہ ایک زندہ شخصیت کا نام تھا جس نے بڑے عیش و تنعم کی زندگی گزاری اور جسے فاختہ اڑانے کا بڑا شوق تھا۔ اُن کا یہ شوق کسی شخص کے یا قوم کے اچھے دن گزر جانے کے لئے ایک مثل بن گیا۔

آج معروف ادبی اور تاریخی قصبہ ردولی آنے کا اتفاق ہوا تو سوچا کچھ تاریخی مقامات کی زیارت کر لی جائے، باتوں باتوں میں خلیل میاں کی مسجد کا پتہ چلا اور لوگوں نے سینھ بسینه چلی آرہی روایات کے حوالے سے بتایا کی یہ مسجد اُنہیں خلیل میاں کی بنائی ہوئی ہے جن کے بارے میں یہ مثل مشہور ہے، وہ اس خطے کے نامی زمیندار تھے اور اپنی عیش کوشی کے لیے جانے جاتی تھے، اور انکے فاختہ اڑانے کے قصے بہت مشہور تھے۔
یہ شہر اردو ادب کا گہوارہ رہا ہے، اردو ادب کی بہت سی معروف شخصیات نے یہیں جنم لیا ہے، اردو کے معروف ادیب و نقّاد شارب ردولوی کو کون نہیں جانتا، سر سید ڈے پر پوری دنیا میں گونجنے والے علی گڑھ کے ترانے کے خالق معروف شاعر اسرار الحق مجاز کا تعلق یہیں سے تھا، اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ترانہ لکھنے والے محمد خلیق صدیقی کا تعلق بھی اسی قصبے سے تھا، بہر حال یہاں کی ادبی شخصيات کا تذکرہ پھر کسی وقت، ابھی تو صرف اتنا کہنا تھا کہ جس شہر نے اردو ادب کو اتنی گراں قدر شخصیات دیں ہوں وہاں کی ایک کہاوت کا زبان زد خاص و عام ہونا کچھ بعید از قیاس نہیں۔
خلیل میاں کی یہ مسجد آج بھی سطح زمین سے تقریباً ۱۵ فیٹ کی اونچائی پر واقع ہے ایسا لگتا ہے جیسے کسی ٹیلے پر بنائی گئی ہو مگر امام مسجد کے بقول تھوڑی دور پر واقع تالاب کی مٹی سے اس مسجد کی سطح تیار کی گئی تھی۔ یہ مسجد تقریباً ۔۔۔چوڑی اور ۔۔۔لمبی ہے، خلیل میاں نے مشرق کی طرف مسجد سے لگی ہوئی ایک سراے بھی تعمیر کرائی تھی جسکی عمارت اب ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے، اور کچھ جگہوں پر لوگوں نے انکروچ منٹ بھی کر رکھا ہے۔ مسجد کے داہنی جانب بالکل مسجد سے لگا ہوا خلیل میاں کا مقبرہ ہے جس میں وہ اپنے بعض اہل خانہ کے ساتھ ابدی نیند کی آغوش میں ہیں۔
یہ مسجد کچھ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ پرانی ہے، آج اس تاریخی مسجد میں فجر کی نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، نماز کے معا بعد سیلفی لی جو آپکے لئے حاضر ہے۔ آپ اسکی تصاویر دیکھیے اور اسکے فن تعمیر کی داد دیجئے۔

Comments

ردولی ایک تاریخی شہر ہے، اودھ کے دوسرے قصبوں اور گاؤں کی طرح یہاں بھی آریوں کے آنے سے قبل بھر قوم آباد تھی۔ کہتے ہیں یہاں کا نام ردولی، بھر راجہ رودر مل کے نام پر پڑا، ایک دوسری روایت یہ ہے کہ اس کا نام "رود ولی" تھا کیونکہ یہ صوفیوں اور اولیاء کرام کی آماجگاہ تھا، بعد میں کثرتِ استعمال کی وجہ سے رود ولی سے بگڑکر ردولی ہو گیا۔ شرقی سلطنت کے وقت میں اس خطے کے گورنر تاتار خان تھے جو شیخ احمد عبدالحق رحمة الله عليه کے بڑے معتقد تھے۔
اسے سب سے پہلے اکبر نے پرگنہ قرار دیا تھا، اور اسکے بعد نوابان اودھ کے زمانے میں یہاں پر تحصیلدار ی تھی، اور انگریزوں کے دور میں یہ کئی نامور مسلم تعلقداروں اور زمین داروں کا مسکن رہا ہے۔ یہاں کی جامع مسجد تقریباََ آٹھ سو سال پرانی ہے، اس میں رنووویشن کا کام جاری، یہاں کے ایک ذمے دار سے ملاقات ہوئی تو مسجد کا فن تعمیر دکھانے اندر لے گئے اسکے بعد مسجد کے گنبد دکھانے چھت پر لے گئے جہاں کام چل رہا تھا۔ یہاں ایک امام بارہ بھی ہے جو تقریباً سو سال پرانا ہے اور اس قصبے کے رموز میں سے ہے۔ امام بارہ سے لگی ایک مسجد بھی ہے جسکی تعمیر شاید امام بارہ کے ساتھ ہی ہوئی تھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو مسجد میں تالا لگا ہوا تھا، ایک چوکیدار بیٹھا ہوا تھا، اُسنے بتایا کی چابی تالے کے ساتھ لٹک رہی ہے آپ خود سے تالا کھول کر اندر جا سکتے ہیں، جب ہم مسجد اور امام بارہ دیکھ کر واپس ہوئے تو چوکیدار نے یہ کہتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا کی صاحب ہم چوکیدار ہیں کچھ چائے پانی کے لیے دے دیجئے، ہم نے اپنی جیب ٹٹولی تو بیس کا نوٹ ہاتھ لگا، وہ انکی طرف بڑھا کے آگے چل دیئے۔
امام بارہ پر لگے کتبے کے مطابق اسکی بنیاد سنہ 1919 میں چودھری ارشاد حسین نے رکھی تھی، اور یہ 1922 میں پایہ تکمیل کو پہنچی، امام بارہ اور مسجد دونوں کی عمارتیں بڑی شاندار اور خوبصورت ہیں اور اُن میں کسی ماہر فنکار نے نقش و نگار اُکیرے ہیں۔ آپ بھی ان تصویروں کو ملاحظہ کریں اور انکے فن تعمیر کی داد دیں۔

Comments


ردولی ایک عزیز کی شادی میں آنا ہوا ہے، دولہے صاحب کو تیار کراکر گھوڑے پر سوار کیا گیا اور پرانی روایت کے مطابق برات باجے گاجے کے ساتھ شیخ احمد عبد الحق ردولوی رحۃاللہ علیہ کی درگاہ کی طرف چل پڑی، میں بھی دولہے کے ساتھ ہو لیا- میں نصف ساعت قبل ہی وہاں سے ہوکر آیا تھا، میری متجسس نگاہوں سے یہ قدیم عمارت کیسے مخفی رہ سکتی تھی، جب آپ صدر دروازہ سے داخل ہونگے تو داہنے جانب آپکو شیخ احمد عبدالحق (متوفی ۸۳۷ ہجری) کی مزار ملے گے، اسی جانب درگاہ کے فورن بعد سجادہ نشین صاحب کی رہائش گاہ ہے، سامنے تھوڑی سی اونچائی پر مسجد نما خانقاہ ہے، میں زینے سے اوپر خانقاہ کے صحن کی طرف چڑھنے لگا تو ایک مدرسے کا طالب علم نظر آیا میں اس سے کچھ دریافت کر ہی رہا تھا کہ ایک باریش بزرگ صحن سے گزرے جو میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنے آفس میں داخل ہی گئے، میں بھی انکے خادم سے اجازت لیکر انکے دفتر میں داخل ہو گیا، مختصر تعارف کے بعد پتہ چلا آپ خانقاہ کے سجادہ نشین نیر میاں صاحب ہیں۔ انہوں نے اپنے ملازم سے کہہ کر وہاں کی لائبریری میرے لیے کھلوا دی، اس کے تھوڑی دیر بعد خود ہی لائبریری کے دروازے پر تشریف لائے اور اپنے خادم کو ہدایت کی کہ ہمارے پبلیکیشنز کی جو بھی کتاب انکے مطلب کی ہو انہیں ( بطور ہدیہ) دے دینا، خانقاہ سے لگا ہوا مدرسہ ہے اور اسکے ساتھ ساتھ چشتیہ انٹر کولیج کے نام سے انٹر تک کا اسکول بھی ہے، اسکول کی عمارت میں دو شفٹ میں تعلیم ہوتی ہے۔
شیخ احمد عبدالحق ردولوی رحۃاللہ علیہِ کا شمار اودھ کے مشہور ترین صوفیہ میں ہوتا ہے، آپ شیخ اشرف جہانگیر سمنانی رحۃاللہ علیہ کے ہم عصر تھے۔ آپکی بزرگی کے بہت سے قصے عوام و خواص میں مشہور ہیں جنکا یہاں محل نہیں۔ آپکا تذکرہ اخبار الاخیار، مرأة الأسرار اور اقتباس الأنوار جیسی کتابوں میں موجود ہے۔
شیخ عبدالحق ردولوی رحۃاللہ کی بات نکل ائی تو بتایا چلوں کی ردولی ہندوستان کے اہم صوفی مراکز میں سے ایک ہے، یہ دوبار حضرت شیخ اشرف جہانگیر سمنانی رحۃاللہ علیہ کی آمد سے مشرف ہوا، اور انکے پہلے خلیفہ اور کچھوچھہ کے پہلے سجادہ نشین حضرت عبدالرزاق ؒ نے اپنے انتقال کے وقت اپنے چار فرزندگان میں سے حضرت سید فرید کو ردولی میں قیام اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی، معروف عالم دین اور صوفی بزرگ عبد القدوس گنگوہی (متوفی 1530) کی بھی ولادت یہیں ہوئی تھی اور اپنی زندگی کے ابتدائی تیس سال اُنہونے یہیں گزارے تھے۔













Friday, April 10, 2020

دور جدید کے اچھوت کی تلاش



از محسن عتیق خان
مدير سہ ماہی عربی میگزین "اقلام الہند"

ہندوستانی مسلمان ایک ایسی قوم کے ساتھ رہ رہا ہے جو کمزوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے حتیٰ کہ انھیں اچھوت بنا کر انسان کے مرتبے سے خارج کرنے کے لئے تاریخ میں جانی جاتی ہے، وہ اپنے سے کمزور قوموں کو اس حالت میں پھونچا دیتی ہے جہاں انکی حیثیت جانوروں سے بھی بد تر ہو جاتی ہے- پچہلے  سالوں سے یہ قوم اپنے عروج کے نشے میں چور ہوکر ایک اور ایسی قوم کی تلاش میں ہے جسے دور جدید میں اچھوت بنایا جا سکے اور انکی یہ کوشش پچھلے کچھ دنوں میں اور بھی زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیی ہے- 

ہندوستانی سیاست سے تقریبا پوری طرح سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی کامیاب کوشس کے بعد پچھلے کی سالوں سے معاشی اور سماجی بائی کاٹ کی کوششیں جاری ہیں، جسکے ہزاوں شواہد ہمارے سامنے ہیں، اور اس تابوت میں آخری کیل انھیں قانونی طور پر بے گھر و بار کرکے ٹھوکنی تھی لیکن بد قسمتی سے ایک عالمی وبا نے آدبوچا البتہ فطری مزاج زیادہ دنوں تک صبر نہ کرسکا اور کورونہ جیسی عالمی وبا میں بھی وہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکے بلکہ اس وبا کے پھیلانے کا ٹھیکرا انہیں کے سر پھوڑ دیا اور مختلف ذرعے ابلاغ کے ذرے عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گی کی یہ لوگ دانشتہ طور پر اور سازش کے تحت اس بیماری کو پھیلانے کے در پے ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سے علاقوں میں انکے داخلے پر پابندی لگا دی گئی حتیٰ کی سبزی خریدنے سے پہلے لوگ سبزی فروشوں کے کارڈ چیک کرنے لگے کہ کہیں بیچنے والا مسلمان تو نہیں جو کورونہ پھیلانے آیا ہو، اور اس سلسلے میں تشدّد کے کئی واقعے سامنے آے جسمیں اب تک ایک دو موتیں بھی ہو چکی ہیں-

اب مسلمانوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا وہ دور جدید کے اچھوت بننے کے لئے تیار ہیں، کیا وہ اپنے انسانی مرتبے سے اترنے کے لئے تیار ہیں، کیا ابھی بھی وہ اپنے فیملی سے اوپر اٹھ کر آنے والے چیلنجز کے بارے میں  ایک قوم کے طور پر سوچنے کے لئے تیار ہیں- اگر انھیں دور جدید کا اچھوت نہیں بننا ہے تو انھیں ایک مضبوط پہاڑ کی طرح ثابت قدم ہونا پڑیگا اور ایک بہادر قوم بن کر ابھرنا ہوگا تاکہ وہ اچھوت بنانے کی کوششوں کو ناکام کر سکیں، اور یہ لڑائی انھیں خود لڑنی ہوگی-

کیا تبلیغی جماعت اپنے خاتمے کے قریب ہے



از محسن عتیق خان
مدير سہ ماہی عربی میگزین "اقلام الہند"

دنیا کے اکثر ملکوں میں اپنے قدم مضبوطی سے جمانے والی تبلیغی جماعت کا وجود خطرے میں نظر آرہا ہے- یہ وہ جماعت ہے جسے مولانا الیاس کاندھلوی رحمت  الله علیہ نے قائم کیا تھا اور اسکا مقصد تھا کی علما قریہ قریہ شہر شہر گھوم کر عام مسلمانوں سے رابطہ قائم کریں اور انھیں دین کے اولین ارکان و اصول سے متعارف کرایں- 

اس جماعت کی ابتدا میوات کے ایک شہر نوح سے ہوئی تھی جہاں مولانا الیاس رحمت  الله علیہ نے پہلی بار لوگوں کی الگ الگ جماعتیں تشکیل دیں اور مختلف گاؤوں میں تبلیغ کے لئے بھیجا جو اگلے ہفتے سوہنے میں اکٹھا ہوئیں جہاں مولانا نے ازسرنو جماعتوں کی تشکیل کی اور انھیں الگ الگ مقامات کے لئے روانہ کیا اور اس طرح یہ سلسلہ چل پڑا، یہ تقریبا ١٩٢٩ کی بات ہے- 

ہندوستان کے چھوٹے سے شہر سے شروع ہونے والی تبلیغ کی غرض سے بنائی گئی یہ تحریک دھیرے دھیرے پورے ہندوستان میں پھیلنے لگی اور مختلف رکاوٹوں اور شدید مخالفتوں کے باوجود، اپنی تاثیر اور اخلاص کی وجہ سے اگلی نصف صدی کے اندر نہ صرف ہندوستان کے کونے کونے پھیل گئی بلکی دنیا کے دوسرے ممالک میں اس کے مراکز قائم ہوے اور دیکھتے دیکھتے وہ دنیا کی ایک مضبوط اور منظّم تحریک کی شکل میں سامنے آئ-

لیکن جیسا کی عموما ہوتا ہے، "لكل شيئ إذا ما تم نقصان" يعني جب کوئی چیز اپنے عروج کو پہونچ جاتی ہے تو پھر اسکا زوال شروع ہوتا ہے اور یہی کچھ ہم تبلیغی جماعت کے بارے میں دیکھ رہے ہیں- پچھلے دو چار سالوں میں اس جماعت کی داخلی رسّہ کشی اور آپسی چپکلش کی وجہ سے کئی ایسے مواقعے آے جب اس جماعت کے افراد آپس میں دست و گریباں نظر آے جس نے انکے اخلاص پر سوالیہ نشان لگا دیا، اسکے علاوہ اسلام کے وسیع مہفوم سے ناواقفیّت اور اسکے تعلّق سے ان میں مسلسل بڑھتی تنگ نظری کے نتیجے میں جمود کے کالے بادل ان پر چہاتے چلے گئے- اور پچھلے کچھ دنوں میں عالمی وبا کی صورت میں جو عذاب الہی دنیا پر نازل ہوا اسکے تئیں اس جماعت کے افراد کی بے حسی اور احتیاطی تدابیر نہ اختیار کرنے کی ضد کے نتیجے میں فرشتہ صفت گردانے جانے والے انسانوں کے اس گروہ کو کم از کم بر صغیر ہند و پاک میں  عذاب الہٰی نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے- جس سے نہ صرف یہ جماعت بدنام ہوئی بلکہ پوری امّت مسلمہ کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا اور یہ تاثر دینے کی کوشس کی گئی کہ گویا ہندوستان میں یہی لوگ ہیں جو کورونہ جیسی مہلک بیماری کے پھیلنے کا اصل سبب ہیں بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ انہونے نے سازشا اسے ہندوستان میں پھیلایا ہے- انکی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے مرکز پر پابندی کی آوازیں اٹھنے لگیں ہیں- 

اونٹ آگے کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو خدا ہی جانتا ہے لیکن اس جماعت کا مستقبل تاریکی میں ڈوبتا نظر آرہا ہے، کہنا مشکل ہے کہ اگر اس جماعت پر ہندوستان میں پابندی عاید ہوتی ہے تو یہ باقی رہ پاۓ گی یا نہیں، ہم بس الله سے خیر کی امید رکھ سکتے ہیں-

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...