Thursday, August 31, 2023

فارغین مدارس اور یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم



فارغین مدارس کا اعلی تعلیم کے حصول کے لیے عصری جامعات کی طرف رخ کرنا ایک لمحۂ فکرِیہ بھی ہے اور خوش آئند قدم بھی۔ لمحۂ فکریہ اس لیے کہ مدارس سے فارغ ہونے والی جماعت سے امت اسلامیہ کی بہت سی امیدیں وابستہ رہتی ہیں، وہ انہیں عوام کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ و اصلاح کی خدمات انجام دینے کا ذمہ دار سمجھتی ہے، اور ان کے عصری جامعات کی طرف متوجہ ہونے سے اذان و اقامت اور تعلیم و تدریس کی خدمات انجام دینے والوں کی کمی کا اندیشہ ہے۔
اور خوش آئند بات اس لیے کہ یونیورسٹی میں جب الگ الگ فنون کے ماہرین، الگ مذاھب سے تعلق رکھنے والے طالب علموں، اور مختلف ملکوں کے علم کے جویاؤں سے انکی شناشائی ہوتی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو ذہن کے نئے دریچے کھلتے ہیں، عقل وخرد کو نئی وسعتیں حاصل ہوتی ہیں، سوچنے کا زاویہ بدلتا ہے، اور پھر ہم دنیا کو مسلکی نقطئہ نظر سے نہیں، بلکہ انسانی نظریہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ایک بات یہ کہ آج کے دور میں جب کہ زندگی کی ضروریات بہت بڑھ گئی ہیں اور لوازمات بے شمار ہو گئے ہیں وہ اعلی تعلیم کے حصول کے بعد ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں اور دوسروں کا دست نگر ہونے کے بجائے خود کفیل ہو سکتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مدارس کے فارغین علوم نبوت کے حاملین ہیں اور قرآن و سنت سے واقفیت رکھتے ہیں اور پھر کالج اور یونیورسٹی میں جا کر اپنی صلاحیتوں کو مزید صیقل کرتے ہیں اور مروجہ علوم سے واقفیت کے بعد اپنی محنت کے بل پر عصری تعلیم گاہوں، حکومت کے اعلیٰ عہدوں اور کارپوریٹ میں، جہاں بھی اُنہیں موقع ملتا ہے وہ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں. میں نے اُنہیں آئی اے ایس کے اعلی عہدوں پر دیکھا ہے، پروفیسر کے مرتبے پر فائز دیکھا ہے، اور بڑی بڑی کمپنیوں میں اہم ذمے داریوں کو نبھاتے بھی دیکھا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ ہندوستان کے نمایاں کولجز سے پڑھنے والوں کو مختلف میدانوں میں ٹریننگ دیتے بھی دیکھا ہے پھر چاہے وہ انجینيرنگ کرنے والوں کو ٹیکنالوجی کی تعلیم ہو یا کومرس سے گریجوایشن کرنے والوں کو بینکنگ کی ٹریننگ۔
مدارس کی توجہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم تربیت دینے، اُنکے مطالعہ کو وسیع کرنے، اور اُنکے عقیدے اور افکار کو پختگی عطا کرنے پر ہونی چاہیے نہ کہ بیٹھ کر اُن کے افق کو محدود کرنے پر، اور یہ طے کرنے پر کہ وہ مستقبل میں کیا کام کریں، اور کیا نہ کریں۔ اپنے بچوں کو صرف تعلیم وتعلم، اور منبر و محراب تک محدود رکھنے کی خواہش یا صرف اسی کو دین کا کام سمجھنا کوتاہ بینی اور تنگ نظری کا نتیجہ ہے، کوشش یہ ہونا چاہیے کہ یہ بچے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی آئیڈیالوجی، اپنے افکار اور اپنی اخلاقیات کے ساتھ داخل ہوں اور ہر جگہ اپنی چھاپ چھوڑیں اور ہر میدان کو متاثر کریں۔ وہ جج بن کر انصاف کی تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں، وہ اچھے منتظم بن کر عدل قائم کر سکتے ہیں، وہ اچھے ڈاکٹر یا حکیم بن کر قوم کی صحت کا خیال رکھ سکتے ہیں، اور وہ نئے ايجادات و انکشافات کے بانی ہو کر قوم کا بھلا بھی کر سکتے ہیں، آخر یہی مدرسے تو تھے جنہوں نے حکماء بھی دیے اور دانشور بھی، سائنٹست بھی دیے اور موجد بھی، تو کوئی وجہ نہیں کہ شاہیں بچوں کو خاکبازی کا سبق دیا جائے اور انکا مستقبل صرف منابر و مآذن تک محدود کیا جائے یا سمجھا جائے-
بہتر یہ ہوگا کہ اُنکا مطالعہ وسیع ہو، اور عقیدہ پختہ ہو تاکہ وہ مشکل ترین حالات میں بھی اس پر جمے رہیں، اور یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اگر اُنہیں اچھی تعلیم و تربیت دی گئی تو وہ جہاں بھی رہیں گے وسیع معنوں میں اسلام کے نمائندے ہونگے اور اگر چاہیں تو ایک لائق داعی کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکتے ہیں کیونکہ وہ برادران وطن کے ساتھ انہیں کی زبان اور لہجے میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ اگر یہ بچے ہر میدان میں ہونگے اور سسٹم کا حصہ بنیں گے تو اپنے خلاف ہونے والی نفرت کی اشاعت کو نہ صرف روک سکتے ہیں بلکہ ایسے لاگوں کے خلاف ضروری کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔
ایک اہم بات اور ہے اور وہ یہ کہ فارغین مدارس عام طور سے عصری جامعات میں بھی انہی علوم سے وابستہ رہتے ہیں جن کو وہ مدارس میں حاصل کر چکے ہیں مثال کے طور پر عربی، اردو یا اسلامیات، جو صحیح نہیں ہے، میرا مقصد اردو یا عربی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا نہیں ہے بلکہ دیگر متبادل یا آپشنز تلاش کرنا ہے تا کہ مدارس کے یہ ہونہار طلباء صرف عربی اور اردو میں ہی سمٹ کر نہ رہ جائیں بلکہ دوسرے میدانوں میں بھی اپنی لیاقت وقابلیت کا مظاہرہ کرسکیں اور یہ بتا سکیں کہ ہم جس میدان میں بھی اترتے ہیں اس میں کسی سے کم نہیں ہیں مثال کے طور پر عربی و اردو کے علاوہ دیگر ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں ڈپلومہ اور گریجویشن، اسی طرح وکالت، ماس میڈیا، تاریخ، سماجی علوم، صحافت، وغیرہ میں بھی قوم و ملت کی خدمت انجام دی جا سکتی ہیں۔
از ڈاکٹر محسن عتیق خان
All reactions:
Mahmood Asim, Raihan Nadwi Alig and 18 others

No comments:

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...