Friday, July 28, 2023

الله میاں کا کارخانہ: ایک مطالعہ

 


 الله میاں کا کارخانہ مجھے صاحب کتاب کی طرف سے بطور ہدیہ گزشتہ رمضان کے مہینے میں موصول ہوئی تھی، چونکہ رمضان خیر وبرکت کا مہینہ ہے اس لئے اس میں کسی ناول کے پڑھنے کا تصوّر ہی نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن حسب عادت کتاب کو موصول کرتے ہی جستہ جستہ دیکھنا شروع کیا تو بڑی دلچسپ معلوم ہوئی اس لئے پڑھنے بیٹھ گیا، اور تقریبا ایک تھائی کے قریب پڑھ ڈالا، مگر وہ چھٹی کا دن تھا اور میرے ذمے کئی کام تھے اس لئے اہلیہ محترمہ نے جب مجھے مطالعے میں بہت زیادہ منہمک دیکھا تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا اور انہونے نے کام یاد دلاتے ہوئے کتاب ہاتھ سے لیکر رکھدی، اور پھر اس کا مطالعہ ادھورا رہ گیا-

اس ناول کی تعلق سے ایک ایسی خوش خبری نظر سے گزری جس نے مجھے پھر سے اس کی طرف متوجہ کر دیا- یہ خوش خبری نہ صرف صاحب کتاب کے لئے بڑی اہم تھی بلکہ ہندوستان میں اردو زبان میں تخلیقی قحط سالی کے اس دور میں یہ اردو دنیا کے لئے بھی بڑی اہم خبر تھی، اور وہ ہے ہندی ادب میں ترجمہ کی دنیا کے اب تک کے سب سے بڑے نقدی اعزاز سے نوازا جانا- اپنی نوعیت کے سب سے بڑے  پہلے 'بینک آف بڑودہ راشٹربھاشا سمان' میں الله میاں کا کارخانہ نے پہلا مقام حاصل کیا، اور اس کو ٣٦ لاکھ روپیہ نقد انعام دیا گیا جس میں سے اس ناول کے خالق محسن خان کو ٢١ لاکھ روپیہ اور اس کو ہندی کے قالب میں ڈھالنے کے لئے سعید احمد کو ١٥ لاکھ روپیہ- اس کتاب کا انتخاب بوکر پرائز انعام یافتہ گیتانجلی شری کی صدارت میں پانچ ارکان پر مشتمل جیوری نے کیا تھا-

یہ ناول ان رومانوی ناولوں سے بہت مختلف ہے جن کے پڑھنے کے ہم عادی ہیں، اور ان موضوعاتی ناولوں سے بھی با لکل الگ ہے جن کے کردار نوجوان، سلجھے ہوئے، با ہمّت اورمثالی ہوتے ہیں- اس کا ہیرو جبران نام کا ایک نو سال کا بچہ ہے جو اپنی نظر اور اپنے زاویہ سے دنیا کے مختلف رنگ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے- اس کے بچکانہ سوال سن کر ہم مند مند مسکرانے لگتے ہیں، اسے مرغی اور اس کے ڈربے سے بڑا لگاؤ ہے- اسے پتنگ اڑانے کا شوق تو دیوانگی کی حد تک ہے، اور بار بار سرزنش اور سزا پانے کے باوجود بھی وہ اپنے اس شوق کو چھوڑ نہیں پا  رہا ہے- اسکی یہ حرکتیں ہمیں واپس اپنے بچپن میں کھینچ لے جاتی ہیں اور ہماری یادوں کے دریچے دھیرے دھیرے کھلنے لگتے ہیں، وہ بچپن جس کی معصومانہ شرارتیں  ذھن کے نہاں خانوں میں کہیں گم ہو کر رہ گئی تھیں ایکدم سے ہمارے سامنے ایک غیر مربوط فلم کے مناظر کی طرح ظاہر ہونے لگتی ہیں- 

جبران سے نہ چاہتے ہوئے بھی شرارتیں سرزد ہو جاتی ہیں، جن کے لئے اسے ایسی سخت سزائیں دی جاتی ہیں جن کا وہ مستحق نہیں - ایک بار اس نے دادی کے دوپٹے کے پلو سے گرہ کھول کر پیسے اڑانے کی ناکام کوشش کی تو وہ دادی کی نظروں میں ہمیشہ کے لئے گر گیا اور دادی نے اپنی بھولنے کی بیماری کے باوجود کبھی اس پر اعتماد نہیں کیا اور نہ ہی اسے کبھی اپنے سرہانے بیٹھنے دیا- اسکی چچی نے اسے اخبار کے ایک ٹکڑے پر بنی ہیروئن کی خوبصورت تصویر کو تکتے دیکھ لیا تو اسے گھر سے نکال دیا بغیر یہ سوچے کہ بن ماں باپ کا یہ چھوٹا سا بچہ کہاں جائے گا، کس کے پاس رہے گا- محلے کے مدرسے کے حافی جی کی عبرت  کی چھڑی تو ہمیشہ تادیب کے لئے تیار نظر آتی ہے، وہ چھوٹی سے چھوٹی غلطیوں پر بھی بچوں کو بڑی بڑی دے ڈالتے ہیں- ناول کے شروع میں ویلین دکھائی پڑنے والے یہ حافی جی انسانیت کی مثال بنتے ہیں اور جبران کا آخری سہارا ثابت ہوتے ہیں-


اس ناول میں دو کردار ایسے ہیں جو مسلم سماج کی حالت اور دین و دنیا کو لیکر اس کے  اندر کی فکری کشاکش کے آئنہ دار ہیں- جبران کے والد تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، اور اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اسکول کی تعلیم دینا الحاد ہے- ایک دن اپنے بچوں کی فکر کئے بنا اپنی بیمار اور پیٹ کے درد سے کراہتی بیوی کو اللہ کے بھروسے چھوڑ کر تبلیغ کے لئے نکل جاتے ہیں، شاید وہ اس بات میں یقین ہی نہیں کرتے کی دنیا دار الاسباب ہے- گھر میں اگلے چند دنوں میں جب راشن ختم ہو جاتا ہے تو جبران کے ابو کی چھوٹی سی دکان میں جو کچھ بچا ہوتا ہے اس سے کسی طرح چند دن نکلتے ہیں، پھر اس کی امی محلے کی ایک عورت سے ادھار لیتی ہیں، اور پھر جب تنگی زیادہ ہو جاتی ہے اور بچوں کی بھوک دیکھی نہیں جاتی تو آخر کار جبران کے چچا سے ادھار لیکر کام چلاتی ہیں- جبران کے چچا اس کے ابو کے برعکس ایک زندہ دل آدمی ہیں، ایک اسکول میں ٹیچر ہیں اور تعلیم وتعلم سے شغف رکھتے ہیں، وہ زندگی جینے اور اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی ایک کامیاب زندگی جیتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں- ایک دن جب جبران کی بہن ان سے پوچھتی ہیں کہ کیا آپ کیے پاس وہ کتاب ہے جس میں مرنے کے بارے میں لکھا ہوا ہے تو وہ کہتے ہیں بیٹی میرے پاس زندگی کی کتاب ہے- 


یہ ناول پڑھتے وقت آپ شروع میں دھیمے دھیمے مسکراتے رہتے ہیں مگر جیسے جیسے آپ اگے بڑھتے ہیں، دھیمی مسکراہٹ کی جگہ آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگتے ہیں کیونکہ یہ ٹریجڈی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے، جبران کے والد جو جماعت میں تبلیغ کے لئے گئے ہوئے تھے، پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جبران کی ماں جو پہلے ہی تنگ دستی اور بیماری سے پریشن تھیں، اس خبر سے انھیں بڑا صدمہ لگتا ہے، اور پولیس کے پوچھ تاچھ کرکے چلے جانے کے بعد جب محلے کے لوگ ان سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں تو انھیں اور بھی دھکا لگتا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ لگتا ہے الله تعالی سارے ہی امتحاں لے ڈالے گا- جبران کی ماں جو پہلے ہی شدید بیماری سے جوجھ رہی ہوتی ہیں وہ بھوک اور اس صدمے کی تاب نہیں لا پاتیں اور جبران کو داغ مفارقت دے جاتی ہیں-


جبران کے چچا اسکو اور اسکی بہن نصرت کو اپنی بیوی کی نا پسندیدگی کے باوجود اپنے ساتھ اپنے گھر لیکر چلے جاتے ہیں، اور دونوں بچوں کے ساتھ محبّت اور شفقت کا معامله رکھتے ہیں، اور جبران کے والد کو چھڑانے کے لئے دہلی اور گجرات بھی جاتے ہیں، لیکن جلد ہی وہ بھی فالج کے مرض کا شکار ہو جاتے ہیں اور اور اس لا فانی دنیا سے چل بستے ہیں- ایک دن جبران کی چچی اسے اخبار کے ایک ٹکڑے پر بنی ایک خوبصورت لڑکی کی تصویر گھورتے دیکھ لیتی اورپھر غضبناک ہوکر یہ کہتے ہوئے گھر بدر کر دیتی ہیں "معلوم نہیں کیسے منحوس بچے ہیں، پہلے ماں کو کھا گئے، پھر باپ کو جیل بھجوا دیا، اور اب چچا کو دفنا دیا-" جیسے کہ ان تمام حوادث کا ذمے دار صرف جبران ہے-

حافی جی کوشش کرتے ہیں کہ چچی جبران کو رکھ لیں مگر جب ںاکام جو جاتے ہیں تو اسے اپنے ساتھ مدرسے لے آتے ہیں اور نہ صرف مختلف گھروں سے باری باری سے اپنے  لئے آنے والے کھانے میں اسے اپنے ساتھ شریک کرتے ہیں بلکہ بقرعید میں اس کے لئے کپڑے بھی بنوا دیتے ہیں- جبران اب انکی بکری کو چراکر اپنا وقت گزارتا ہے- چچا کا گھر چھوٹنے سے جبران نہ صرف بے گھر ہو جاتا ہے بلکہ اپنے دوست واحباب بھی چھوڑ بیٹھتا ہے کیونکہ وہ سب اس سے ابا کے بارے میں پوچھتے ہیں، وہ کسی کو کیا بتائے جب کہ وہ خود کچھ نہیں جانتا، اور اسی لئے وہ بقرعید کے دن بنا کسی سے گلے ملے مدرسے آجاتا ہے- جبران کو پتا چل گیا تھا کہ حافی جی بقرعید کیے بعد مدرسہ چھوڑ کیے ہمیشہ کے لئے چلے جائیں  گے، حافی جی نے تسلی دیتے ہوئے  کہا تو تھا کہ امید ہے کہ جو دوسرے حافی جی آئیں گے وہ بھی اس کا خیال رکھیں گے مگر یہ بھی کہ دیا تھا کہ پتا نہیں ان کا برتاؤ کیسا ہو-

جبران ذہنی الجھن میں تھا، باپ سے جدائی، امی کی وفات کا غم، پھر مشفق چچا کے سہارے کا ختم ہونا، اور چچی کا گھر سے نکالنا، یتیمی کی اس حالت میں اپنی بہن نصرت سے جدا ہونا جس نے چچی کے گھر کا آدھا کام سنبھال لیا تھا اور جب ایک دن وہ اس سے ملنے آئی تو ایسا لگا جیسے چوڑیاں کمزوری کی وجہ سے اس کے ہاتھوں سے گر جائیں گی، یہ سب مصیبتیں ٩ سال کے جبران کے لئے بہت زیادہ تھیں- مزید برآں یہ کہ حافی جی کے مدرسے چھوڑ کر جانے کی خبر، اور پھر شدید دھوپ میں بقرعید کی نماز پڑھنے کے بعد حافی جی کی اس بکری کی قربانی جس سے اس کو بہت لگاؤ ہو گیا تھا اور جو ایک طرح سے اس کی واحد دوست تھی، نے اسے شدید دکھ پہنچایا اور شام ہوتے ہوتے وہ بخار میں تپنے لگا- اور جب ہم یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ دیکھتے ہیں دوسرے آنے والے حافی جی اس کے ساتھ کیا برتاؤ روا رکھتے ہیں، وہ بھی جبران کے ساتھ اپنی روٹی شیر کرتے ہیں یا نہیں، ہو سکتا ہے اس کے ابو کچھ  دنوں میں چھوٹ جائیں، اسی بیچ اس کی زندگی کی شمع گل ہو رہی ہوتی ہے، اس کی ماں اس کے تصور کی دنیا میں آکر اس سے کہ رہی ہوتی ہیں "جبران تم کو تو بہت تیز بخار ہے، یہاں اکیلے ہو، اٹھو، میرے ساتھ چلو، وہاں چچا اور قطمیر بھی تمہارا انتظار کر رہے ہوتے ہیں-"

یہ ناول صرف جبران کی داستان نہیں ہے بلکہ ہر گاؤں اور شہر کی نیو کلیئر فیملی کے ایسے بچوں کی حقیقی کہانی ہے جنہیں بچپن میں یتیمی کے صدمے سے دو چار ہونا پڑتا ہے، چاہے وہ حکومت کی غیر حساس پالیسی کی وجہ سے ہو، جیسے دہشت گردی کے جھوٹھے الزاموں میں لوگوں کی گرفتاری، یا حادثاتی موت، ان کا بچپن سماج کی بے مروتی اور ظلم و زیادتی کی نظر ہو جاتا ہے. یہ ناول ایک بیانیہ سیٹ کرتا ہے اور قاری کو خود اس کے گرد و پیش کی اس سچائی سے واقف کراتا ہے جس کی طرف عام طور سے اس کا دھیان نہیں جاتا- ایک بچے کے ذریعے اس میں معاشرے کی ایسی تلخ حقیقت بیان کی گئی ہے جو بہت عام ہوتے ہوئے بھی لوگوں کا دھیان اپنی طرف نہیں کھینچ پاتی- 

اگر زبان کے نقطہ نظر دیکھیں تو اس کی زبان نہایت ششتہ اورآسان ہے اور پیچیدگی سے خالی ہے، کیونکہ اس کا راوی ایک بچه ہے، البتہ یہ الگ بات ہے کہ بعض الفاظ ایسے در آ ئے ہیں جو طبیعت کو ناگوار گزرتے ہیں لیکن ایسا شاید سیاق وسباق کی ضرورت کی وجہ سے ہوا ہے- بہر یہ حال یہ ناول ایک شہ پارہ ہے اور ہندوستان میں اردو کی ساکھ بحال کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ جدید اردو ادب میں ایک اضافہ ہے اور اسے اردو ادب کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہوگا-

 از  ڈاکٹر محسن عتیق خان

No comments:

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...