Thursday, November 2, 2017

عارف صاحب: ایک نادر روزگار استاد


دراز قد، کشادہ پیشانی، سفید داڑھی جس میں کہیں کہیں کالے بال ،جسم کااوپری حصہ آگے کی جانب قدرِخم، بارعب
 چہرہ اور آواز میں بھاری پن، یہ تھے میرے پسندیدہ استاذ مولانا عارف سنبھلی ندویؒ۔ عارف صاحب کو میں جانتا تو معہد ہی سے تھا، مگر ان سے تعلم کا شرف پہلی بار مجھے عالیہ ثانیۃ میں حاصل ہوا۔ آپ ندوہ کے سینئر اساتذہ میں سے تھے اور صرف تفسیرپڑھاتے تھے اور ایسے انداز میں کہ انکی ساری باتیں ہمارے ذہن ودماغ میں اترتی چلی جاتیں ، طریقہ تدریس بڑا بے تکلفانہ تھا اور عام طور سے ہم طلبہ ان کے درس سے غائب نہیں ہوتے تھے۔ وہ ہر درس تازہ وعمیق مطالعہ کے بعد دیتے تھے اور اگر کبھی کسی وجہ سے مطالعہ نہیں کر پاتے یا کو ئی بات واضح نہ ہوتی تو بڑی دیانت داری کے ساتھ کہہ دیتے کہ آج میں مطالعہ نہ کرسکا اس لئے آج کا درس کینسل۔ جمعرات کے روز آپ کا پیریڈ سوال وجواب کے لئے خاص ہوتا تھاجس میں ہم طالب علموں کو آزادانہ سوال کرنے کا اختیار تھا خواہ وہ کسی بھی موضوع سے متعلق ہو۔ جمعرات والے دن اپنے پیریڈ میں جب آتے تو کہتے کہ بھائی جو سوال پوچھنا ہو پوچھو میں تمہارے ہر سوال کا دونگا اور جب کو ئی طالب علم کو ئی ایسا سوال کرتا جس کا علم آپ کو نہ ہوتا توکہ دیتے کہ مجھے معلوم نہیں اور جب طلبہ کہتے کہ آپ نے تو ہر سوال کا جواب دینے کا وعدہ کیا ہے تو آپ فرماتے ’’معلوم نہیں ‘‘ بھی سوال کا ایک جواب ہے۔ آپ کے جوابات آپ کی دقت نظر، عمیق علم اور وسیع مطالعہ پر دلالت کرتے تھے اور پوری طریقہ سے واضح ہوتے تھے نہ کوئی گھماؤ پھراؤ نہ کوئی پیچیدگی۔  توحید کے معاملے میں پختہ عقیدے کے حامل تھے اور کسی بھی قسم کی بدعت کے سخت مخالف تھے اور اس سلسلے میں ذرا سی لچک بھی آپ کو برداشت نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ آپ ندوہ کے مصلحتانہ مزاج کے باوجود بریلویت ک سخت مخالف تھے۔ توحید کے موضوع پر آپ کی تقریریں اپنی مثال آپ ہوتی تھیں اور سمجھانے کے انداز میں جدت ہوتی تھی۔ آپ کوئی شعلہ بیان مقرر نہ تھے مگر تقریر کا انداز بہت دلچسپ اور سلجھا ہوا ہوتا تھا جو سامعین کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا اور لوگ ہمہ تن گوش ہوکر سننے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ایک بار درس دیتے ہوئے کسی پس منظر میں آپ نے اپنا ایک واقعہ سنایاکہ جناب عبد اللہ حسنی صاحب کے ہمراہ ایک جلسہ میں آپ کو تقریر کرنے کے لئے مدعو کیا گیا، آپ نے توحید کے موضوع پر تقریر کی جسے عوام نے بہت پسند کیا ،اختتام پر قریبی علاقہ کے کچھ لوگ آئے اور اپنے یہاں اگلے دن جلسہ میں تقریر کرنے کی آپ کو دعوت دی، جب وہاں پہونچے تو معلوم ہوا کہ اس علاقہ میں تعلیم نہ کے برابر ہے اور بریلوی علماکا اثر عوام پر زیادہ ہے، بعض لوگوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ توحید پر تقریر نہ کریں اس لئے کہ یہاں کے لوگ بریلوی خیال کے ہیں مگر آپ نے کہا کہ میں ذات باری تعالی کی توحید بیان کرنے میں کسی سے خوف نہیں کھاتا اور میری تقریر اسی موضوع پر ہوگی بادل نا خواستہ منتظمین نے آپکو اسٹیج پر مدعو کیا، اور آپ نے توحید کے موضوع پر اتنی عمدہ تقریر کی کہ عوام عش عش کراٹھی، جلسہ کے بعد وہاں کے لوگوں نے حسب معمول ایک لفافہ عارف صاحب کو لاکر چپکے سے دیا آپ نے پوچھا یہ کیا ہے تو جواب ملا نظرانہ، آپ نے کہا میں تقریر دین اسلام کی اشاعت، اصلاح وارشاد کے لئے کرتا ہوں نہ کہ اجرت کے لئے، اگر میں نے اصلاح وارشاد کی غرض سے نکالے گئے اپنے وقت کا پیسہ لیا تو اللہ تعالی مجھے کیوں کراجر دینگے۔آپ کی اس بات کا منتظمین پر کافی اثر پڑااور بعض نے یہ کہا کہ ہم تو جلسہ کا مطلب صرف یہ سمجھتے تھے کہ مولانا لوگوں کو بلاؤشعلہ بیان تقریر یں کراؤ اور نظرانہ دو بس۔  آپ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کے قائل تھے اور کہاکرتے تھے کہ قرآن تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے اترا ہے اور اس کو بغیر سمجھے پڑھنے سے ہدایت حاصل نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں آپ نے ایک بار ایک بڑا دلچسپ واقعہ درجہ میں سنایا۔ وہ یہ کہ رمضان میں آپ جب قرآن پڑھنے بیٹھتے تو آپ کی بچی بھی ساتھ میں بیٹھتی اور وہ بیٹھے بیٹھے کئی پارے پڑھ جاتی اور جب اٹھنے لگتی تو دیکھتی کہ آپ نے جہاں سے شروع کیا تھا اس سے ایک ہی دو صفحہ آگے بڑھے ہیں تو وہ معصومیت سے کہتی ابو آپ کتنی آہستہ تلاوت کرتے ہیں میں نے اتنے پارے پڑھ لئے اور آپ نے ابھی دو تین صفحے بھی نہیں پڑھے، آپ اس کی یہ بات سنتے اور مسکرادیتے۔ آپ انتہائی درجہ کے امانت دار اور دیانتدار تھے، اگر کسی سے کبھی بوقت ضرورت قرض لیتے تو جب تک ادا نہ کردیتے انھیں چین نہ ملتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار ہم لوگوایک خالی پیریڈ میں دار العلوم کے اس کونے پر کھڑے تھے جود دار القضاء کی جانب ہے۔ اور آپس میں ہنسی تفریح کر رہے تھے کہ دیکھا عارف صاحب ندوہ مارکٹ سے نکل کر ہماری طرف بڑھے چلے آرہے ہیں ۔ ہم لوگ گھبرا کر درجہ کی طرف جانے لگے تو آپ نے دور ہی سے رکنے کا اشارہ کیا ، میں اور میرے ایک ساتھی وہیں رک گئے کچھ خوفزدہ سے، آپ نے آکر کہا کہ مجھے پانچ روپئے کی ضرورت ہے ، اگرکسی کے پاس ہوں تو مجھے دے دے میں اسے بعد میں واپس کردونگا، ایک صاحب نے دس کا نوٹ نکال کر آگے بڑھایا مگر آپ نے کہا بھائی مجھے صرف پانچ روپئے چاہئے، اتنی دیر میں میں اپنی جیب ٹٹول چکا تھا اور حسن اتفاق سے میرے جیب میں پانچ کا ایک بوسیدہ سا نوٹ پڑا ہوا تھا۔ میں نے وہ نوٹ نکال کر آپ کو دیااور آپ نے شکریہ کہہ کے نام پوچھا اور ندوہ مارکیٹ کی طرف بڑھ گئے۔ کئی دنوں کے بعد ایک دن آپ نے درس دینے سے پہلے پوچھاکہ ارے بھائی تم میں کوئی ہے جس سے میں نے پانچ روپئے اس دن ادھار لئے تھے۔ میری تو بولنے کی ہمت نہ ہوئی البتہ میرے ایک دوست نے میری طرف اشارہ کیا اور آپ نے پانچ کا ایک نوٹ میرے طرف بڑھادیا اور اطمینان کی سانس لی اور کہا  ’’بھائی بڑی مشکل سے ملے تم، میں ان دو تین دنوں میں جس کلاس میں بھی پڑھاتا ہوں سب میں پوچھ چکا ہوں ، یہ آخری کلاس تھی اچھا ہوا تم مل گئے نہیں تو بڑی مشکل ہوتی ڈھونڈنے میں ۔‘‘ اور اس وقت معلوم ہوا کہ عارف صاحب کو قرض کیوں لینا پڑا، در حقیقت ندوہ مارکٹ میں وہ جس دکان سے پھل لیتے تھے وہاں ایک دو بار انھیں ٹوٹے نہ ہونے کہ وجہ سے کچھ روپئے ادھار کرنے پڑے اور دوکاندار نے یہ سوچکر کہ عارف صاحب کو یاد نہیں رہتا آپ سے کئی بار پیسے وصول کرلئے اور آپ نے شرافت کی وجہ سے نا توکبھی نہ کہی اور نا ہی کبھی بحث کی اور آخر کار یہ فیصلہ کیا کہ اس کے یہاں سے ہمیشہ نقدہی خریدوں گا چاہے کسی دوسرے سے ادھار لینا پڑے۔  آپ  بہت حساس طبیعت کے تھے اور علاقائیت اور مسلکی عصبیت کے سخت مخالف تھے۔ آپ کے نزدیک ایک مسلمان صرف مسلمان تھا چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو یا وہ کسی بھی علاقہ سے آیا ہو۔ البتہ ان مسالک کی کا مسئلہ مختلف تھا جو شرک وبدعات اور خرافات کو رواج دیتے ہوں یا اسلام کو زبردستی ہندوستانی رنگ میں رنگنا چاہتے ہوں ۔ اس سلسلے میں مجھے آپ کا ایک واقعہ یادآرہا ہے وہ یہ کہ ایک بارآپ درس کے بعد دفتر اہتمام کے سامنے سے گزر رہے تھے جہاں کچھ طلبا نے داخلہ سے متعلق کاروائی کے سلسلے میں بھیڑ لگاررکھی تھی اور دفترکا ایک ملازم ان سے گفتگو کر رہاتھا، اس نے کسی طالب علم سے تحقیر آمیز انداز میں ہندوستان کے ایک صوبہ کانام لے کر کہا کہ ’’ اچھا تم وہاں کے ہوا۔‘‘ــ  یہ بات آپ کے کان میں پڑی تو آپ بے چین ہو اٹھے اور آپ نے فورا حضرت مولانا ؒ سے بات کی جو اس وقت ندوہ کے مہمان خانہ میں تشریف رکھتے تھے، انہوں نے فورا طلبہ کے درمیان یہ اعلان کروایا کہ آج آخری پیریڈمیں درس نہیں ہوگا بلکہ طلبہ وملازمین مسجد میں جمع ہونگے ،چنانچہ چھٹے پیریڈکے بعد چھٹی ہو گئی اور تمام طلبہ مسجد میں جمع ہوگئے جہاں آ پ نے علاقائیت کے خلاف سخت لہجہ میں تقریر کی اور کہاکہ اس قسم کی چیزوں کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔   ایک بار ایک صاحب جو ایک میگزن کی ادارت کرتے تھے اور مسلک اہل حدیث کے خلاف لکھنے کے لئے مشہور تھے عارف صاحب سے ملنے آئے اور آپ کو بھی اہل حدیث حضرات کے خلاف لکھنے کی دعوت دی۔ آپ نے ان سے سیدھا سوال کردیا کہ کیا وہ شرک کرتے ہیں جواب نفی میں ، کیا ان کے عقائد اور اعمال قرآن وحدیث کے خلاف ہیں جواب نفی میں ، تو پھر آپ ان کے خلاف کیوں لکھتے ہیں آپ کے قلم میں اللہ نے طاقت دی ہے تو آپ کو اسے ایسے لوگوں کے خلاف استعمال کرنا چاہئے جن کے عقائد قرآن وحدث کی تعلیمات کے خلاف ہوں اور جو شرک میں مبتلا ہوں ۔ عارف صاحب  ایک مکمل اور مثالی استادتھے اور ان کے دروس تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے پہلو بھی اپنے اندر سموئے رہتے تھے، اللہ تعالی انھیں کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے۔ 

مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=30547

No comments:

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...