Thursday, November 2, 2017

مغربی تہذیب کی تنقید یا خود احتسابی


مغرب کی نشاۃ ثانیہ اورمسلمانوں کے زوال کے ساتھ مسلم علماء و دانشوروں کے درمیان مغربی تہذیب کی تنقید کا جو فیشن شروع ہوا تھا وہ آج بھی بدستور جاری ہے اور اسی شدومد کے ساتھ۔حالانکہ تنقید کرنے والے ایک کے بعد ایک میدان ہارتے چلے گئے اور توحید کے پرستاروں میں بھی وہ اسی تیزی اور قوت کے ساتھ سرایت کرتی چلی گئی جیسے کہ دیگر تہذیبوں میں ، اور اسکا اصل سبب یہ ہے کہ حقیقی اسلامی تہذیب آخر زمانہ میں اپنی شناخت کھوچکی تھی اور جسے اسلامی تہذیب سمجھا جاتا رہا تھا اس کی حیثیت ایک زوال پذیر تہذیب کے متعفن جثہ سے زیادہ نہ تھی۔  دوسرا سبب یہ ہے کہ تنقید کرنے والوں نے کبھی روایتی تنقید کے خول سے باہر آکر یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ کون سی وجہ ہے جو لوگوں کو مغربی تہذیب کا دلدادہ بنارہی ہے۔ آخر تمام نقائص کے باوجود اس تہذیب کی ترقی کا راز کیا ہے۔ وہ کون سا ایسا سبب ہے کہ دنیا کی تمام تہذیبیں اس تہذیب کے سامنے سر تسلیم خم کرتی چلی جارہی ہیں ۔ آخر اس تہذیب کے تمام تہذیبوں پر غالب آنے کی وجہ کیا ہے۔ لوگ دین تو وہی پرانا فالو کرتے ہیں مگر رہن سہن کا ڈھنگ بدل دیتے ہیں ، رسم ورواج تو کچھ وہی پرانے سے ہیں مگر سوچنے سمجھنے کا طریقہ بدل گیا ہے۔ تنقید کرنے والوں کو کبھی یہ خیال تک نہیں آتا ہے آخر اپنی تمام کوششوں کے باوجو د وہ پچھلی کئی صدیوں سے شکست کیوں کھاتے چلے آرہے ہیں ، اور انکی تمام مخالفتوں کے باوجود لوگ اسے روز بروز اور زیادہ سے زیادہ کیوں قبول کرتے چلے جارہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ تنقید کرنے والوں کی حالت ظلمت شب کا شکوہ کرنے والوجیسی ہے جو اپنے حصہ کی کوئی شمع جلانا نہیں چاہتے شکوہ ظلمت شب سے تو یہی بہتر تھا اپنے حصہ کی کوشمع جلاتے جاتے انھیں یہ سمجھ میں ہی نہیں آیا یا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ لوگ مغربی تہذیب کے دلدادہ، مغربی تہذیب کی خوبیوں کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ اس تہذیب کے متبعین کی موجودہ عالمی سماج کی تشکیل میں ناقابل فراموش خدمات کی وجہ سے ہیں ۔ ان کی یہ خدمات ان کے اختراعی جذبے اور تخلیقی کاوشوں کا نتیجہ ہیں جس سے ہم کوسوں دور جاچکے ہیں ۔ موجودہ دور میں مختلف علوم وفنون اور ٹکنالوجی میں ان کی جو تحقیقات اور دریافت ہیں اور جو ایجادات انھوں نے کی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے دور حاضر میں تمام طرح کے استحصال کے باوجود انسانی سماج کی فلاح وبہبود کے لئے جو کاوشیں کی ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔  اب ہمیں انکی تنقید کی نہیں بلکہ اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ جب تک ہم انسانی سماج کی بھلائی کے لئے کام کرتے رہے ہمیں سر آنکھوں پر بٹھایا گیا اور جیسے ہی ہم نے تساہل اختیار کی اور اپنے فرض منصبی سے ہٹ گئے دنیا کی تمام قوموں نے ہمیں اپنے پیروں تلے روندنا شروع کردیا۔ ہمیں تنقید کے بجائے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم دنیا کی بھلائی کے لئے کیاکام کر رہے ہیں ، اگر نہیں کر رہے ہیں اور نہیں کرنا چاہتے تو اپنی بے وقعتی کا شکوہ کرنا بے جا ہے کیونکہ ہمیں اپنا کھویا ہو اوقار اسی وقت ملے گا جب ہم انسانی سماج کی خاطرخود کاوش کریں گے۔ یقینا ہمیں بطور امت، بطور قوم ایک نئی پرواز کی ضرورت ہے ایک نئی اڑان بھرنے کی ضرورت ہے۔ 

مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=30823

No comments:

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...