Sunday, November 26, 2017

شیخ مبارک بودلے جائسی اور اودھ میں دعوت اسلام (آخری قسط)

شیخ مبارک بودلےؒ کے ارادت مندگان

   شیخ مبارک بودلے ؒ سے ارادت وعقیدت رکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔ ذیل میں ہم چند اہم عقیدت مندوں کا تذکرہ کریں گے، جو حضرت مبارک شاہ بودلے ؒ کی بزرگی وتبحر علمی کی وجہ سے آپ کے مرید ہوگئے تھے، اور اس کے بعد سے آپ کی اولاد سے وابستہ رہے۔ ۱۔ پہریمئو وبلہ کے افغانی پٹھان:  پہریمئو جائس کے جنوب مغرب میں تقریبا ستائیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اور خطہ میں مسلمانوں کی ابتدائی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے افغانی پٹھان حضرت مبارک بودلے ؒ کے اہم ارادت مندگان میں سے تھے۔ ۷۱؎  ایک روایت کے مطابق یہ پٹھان شہاب الدین غوری (1202-1206)کے ایک سپہ سالار بھیکم خان کی نسل سے ہیں، جنہیں سلون پرگنہ کی جاگیر داری دربار شاہی سے عطا ہوئی تھی، اور وہ یہیں آکر آباد ہوگئے تھے۔ چونکہ بھیکم خان کا لقب دیوان تھا اسلئے ان کی اولاد دیوان کا لقب اپنے نام کے ساتھ لگاتی رہی ہے۔ ۷۲؎ ایک دوسری روایت کے مطابق ایک فو ج نے سید رکن الدین، سید جہانگیر(رائے بریلی میں جہانگیر آباد محلہ کے بانی )، شاہ ابراہیم اورشاہ حسین کی سرکردگی میں 603ھ؁ بمطابق 1206ء؁میں سلون پرگنہ کے بھروں کو شکست دی، اور وہاں پر قابض ہوگئی۔ انہیں حضرات کے ساتھ ملک مخدوم شاہ آئے تھے جو بنورہ کے تعلقہ دار فخرالحسن کے مورث اعلی تھے، اور انہیں کے ساتھ بھیکھن خان یعنی نور الدین خاں آئے تھے جو اماون اور پہریمئو کے تعلقہ داروں کے جد اعلی تھے۔ ۷۳؎  ایک تیسری روایت کے مطابق بابر (1526-1530)کے دربار میں بیسواڑے کے ایک مظلوم راجہ نے ایک ظالم راجہ کے خلاف استغاثہ کیا جس نے اس کے راج کو جبرا غصب کر لیا تھا۔ بابر نے اس مظلوم راجہ کا حق واپس دلانے کے لئے پانچ افغانی پٹھان برادران کو متعین کیا جو مظلوم راجا کے ساتھ بیسواڑہ آئے اور ایک خونریز جنگ کے بعد ظالم راجہ کو صلح پر مجبور کیا اور مظلوم راجہ کا حق واپس دلایا۔ ریاست واپس پانے کے بعد راجہ نے پانچوں بھائیوں کو جاگیریں عطا کیں اور ان سے وہیں مستقل سکونت اختیار کرنے کی درخواست کی، اور بابر کے دربار سے بھی اس کی اجازت حاصل کرلی۔ اس طرح پانچوں بھائی پہریمئو اور بلہ میں آباد ہوئے۷۴؎ مندرجہ بالا تینوں روایتوں میں پہلی دونوں روایات واقعہ اور زمانہ کے اعتبار سے یکساں ہیں، جبکہ اشخاص کے سلسلہ میں مختلف ہیں، تیسری اور آخری روایت زمانہ کے حساب سے پہلی دو روایتوں سے مختلف ہے مگر اشخاص کے تعین کے سلسلہ میں دوسرے نمبر کی روایت کی تائید کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اصل واقعہ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جس کی وجہ سے پانچوں بھائیوں کو یہاں مستقل سکونت اختیار کرنی پڑی۔  ان تینوں روایتوں کے تذکرہ کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ  ٭        پٹھانوں کے آباد ہونے کا زمانہ شہاب الدین غوری(1202-1206)  کا عہد حکومت ہے۔ ٭       یہ پانچ بھائی تھے جو ایک مظلوم راجہ کی مدد کی خاطر آئے تھے اور ان پانچوں بھائیوں کے نام صراحتا دوسری روایت میں مذکور               ہیں۔  ٭        دوسری روایت کے مطابق ملک مخدوم شاہ بنورہ کے تعلق داران کے مورث اعلی تھے اور بھیکھن خان یعنی نور الدین خان اماون، پہریمئووبلہ کے افغان پٹھانوں کے مورث اعلی تھے۔  چونکہ ان پٹھانوں کی ریاست ایک طرف کنہپوریا راجپوتوں اور دوسری طرف بیسوں کی ریاستوں کے بیچ میں تھی اس لئے ان کو دونوں طرف سے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، البتہ بیسوں کے بمقابلہ کنہپوریا سے ان کا سامنا زیادہ رہتا تھا اور کبھی ہار تو کبھی جیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جب تلوئی کے کنہپوریا راجہ کاندھے رائے نے اپنی ریاست کی توسیع اور لوٹ مارکی غرض سے پہریمئو پر حملہ کیا تو یہاں کے پٹھان قائد معین خان نے بڑی بہادری سے مقابلہ کیا اور کاندھے رائے کو زخمی کر کے زبردست شکست دی، مگر خود بھی جام شہادت نوش کیا۔ ۷۵؎  امیٹھی کے راجہ موہن سنگھ نے اپنے عہد عروج میں 1707ء؁ میں پہریمئو کو فتح کر لیا تھا اور یہ علاقہ نوابی کے قیام تک اس کے زیرنگیں رہا۔ ۷۶؎  لکھنؤ کے نوابوں کے عہد میں پٹھانوں نے راحت کی سانس لی مگر 1857ء؁ کی جنگ آزادی کے دوران انہیں پھر مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔ انگریزی حکومت کے قیام کے بعدپہریمئو کی ریاست پھر سے ایک تعلقہ کی شکل میں ان کی ملکیت میں آگئی جو سترہ گائووں اور ایک محل پر مشتمل تھی۔ ۷۷؎ ۲۔ نواب جہاں دار خان کانکڑ:  نواب صاحب افغانی پٹھان تھے، اور حضرت مبارک بودلے ؒ کے اہم ترین ارادت مندگان میں سے تھے۔ آپ حافظ قرآن تھے اور متقی وپرہیزگار شخصیت کے مالک تھے اور ہمایوں بادشاہ کے امراء میں سے تھے۔ ہمایوں کی شکست کے بعد جب شیر شاہ مالک تخت وتاج ہوا، تو اس نے آپ کی مخالفت کی معافی کے ساتھ ساتھ آپ کے جاہ ومنصب میں اضافہ کی بھی پیشکش کی مگرآپ نے دشمن کی رفاقت کو موجب ننگ وعار اور خلاف شرافت سمجھا اور شیرشاہ کی پیشکش کو قبول نہ کیا۔ جب ہمایوں نے دوبارہ سلطنت حاصل کر لی، اور اکبر سلطنت کا مالک ہوا، تو نواب جہاں دار خاں اور ان کے بھائیوں کو وفاداری کا خوب خوب صلہ ملا اور وہ پنج ہزاری، ہفت ہزاری اور چند ہزاری کے مناصب سے سرفراز ہوئے۔  آپ کے ایک بھائی نواب موسی خان نے کالپی کے قریب موسی نگر نامی قصبہ آباد کیا، اور آپ کے ایک دوسرے بھائی کانکڑ خاں نے کڑا کے قریب کانکڑآباد بسایا۔ نواب جہاں دار خان نے رائے بریلی سے متصل مغربی جانب ایک شاہی قلعہ پختہ شہر پناہ کے ساتھ تعمیر کیا، جس میں دکان اور بازار مرتب انداز میں تعمیر کرائے۔ اس کے علاوہ آپ نے شمال کی جانب جہان آباد کا قصبہ آباد کیا، جہاں پر آپ مدفون ہوئے۔ قصبہ جائس کی جامع مسجد خانقاہ اشرفیہ جائس کا احاطہ، عید گاہ والی مسجد، اور حضرت میر عمادالدین قلچی کا مقبرہ بھی آپ ہی نے تعمیر کرایا تھا۔ ۷۸؎ ۳۔ ضلع اٹاوہ کے افغانی زمیندار:  ضلع اٹاوہ کے افغانی زمیندار گھرانہ جو اپنی شجاعت، جواں مردی اور مہمان نوازی میں مشہور تھا شیخ مبارک بودلے ؒ کا ارادت مند تھا۔ ۷۹؎ ۴۔ علمائے نگلامی :  شیخ مبارک بودلےؒ کے ارادت مندوں میں جائس کا ایک نمایاں علمی خانوادہ بھی ہے جس کے علماء ’’علماء نگلامی ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ خانوادہ جائس کے محلہ غوریانہ میں آباد تھا اور اس خاندان کے مورث اعلی حضرت شیخ نظام الدین نگلامی اپنے وقت کے ایک معروف عالم دین تھے، اور ان چالیس علماء میں سے ایک تھے  جو 561ھ ؁ بمطابق 1156ء ؁ میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے ساتھ بعہد سلطان شمس الدین التمش ہندوستان تشریف لائے تھے۔  جب خواجہ معین الدین چشتی رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ آنے واے علماء کی جماعت نے اسلام کی نشر واشاعت کی غرض سے ہندوستان کے مختلف گوشو ں کا رخ کیا تو آپ نے ہندوستان کے مشرقی حصہ کا رخ کیا اور جائس میں پہنچ کر سکونت اختیار کی۔ سلطان محمد غوری کے وزیر خواجہ مؤید الملک شیخ نگلامی کے ہم درس وہم مکتب تھے اس لئے سلطان آپ کا بھی بڑا خیال رکھتا تھا۔  آپ کی ایک تصنیف مجموعہ نظامیہ کے نام سے معروف ہے جس میں شہاب الدین محمد غوری اور خواجہ مؤید الملک کی مدح میں عربی زبان میں بہت سے اشعار ہیں۔ جہاں تک شیخ نگلامی کے حسب ونسب کا تعلق ہے تو آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے ملتا ہے۔ شیخ نگلامی کی نسل میں آگے چل کر بڑے بڑے علماء وفضلاء پیدا ہوئے جو اپنے تبحر علمی اور دراکی کے سبب دہلی سلطنت، عہد مغلیہ اور پھر برطانوی دور میں اعلی مناصب سے سرفراز ہوئے۔ ان میں چند مشاہیر کے نام اس طرح ہیں :ضیاء الدین نگلامی، ملا داؤد نگلامی، شیخ عبدالعزیز نگلامی، مولوی واصل علی خاں نگلامی اور جناب عبدالقادر خاں جائسی۔ ضیاء الدین نگلامی فیروز شاہ تغلق کے زمانہ میں بنارس کے حاکم تھے، شیخ عبدالعزیز نگلامی عہد اکبری میں اپنے علمی تبحر کی وجہ سے دربار شاہی سے منسلک تھے، ملا دائود نگلامی عہد عالمگیری کے ایک جید عالم تھے۔ مولوی واصل علی خاں اٹھارویں صدی کے جید اور صاحب تصنیف عالم گزرے ہیں۔ لارڈ وارن ہنگر کے زمانہ میں کلکتہ کے قاضی القضاۃ (Chief Justice) مقرر ہوئے اور آپ نے ’’ذخیرئہ گورنر ہنگر‘‘کے نام سے مسائل وقوانین شریعت کو ترتیب دے کر یکجا کیا، اس کے علاوہ آپ بنارس کے بھی حاکم شہر وعدالت مقرر ہوئے۔ آپ حضرت شاہ سید اشرف جہاں سجادہ نشین آستانہ اشرفی جائسی کے مرید تھے۔  واصل علی خان کے صاحبزادے عبدالقادر خان بھی ایک صاحب تصنیف عالم اور اچھے مدیر ومنتظم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ پہلے آپ اپنے والد بزرگوار کی جگہ پر بنارس کے قاضی متعین ہوئے اس کے بعد میر منشی کے عہدے پر فائز ہوئے اور جان تھامس کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا۔ انگریزی حکومت نے آپ کی دانائی کو دیکھتے ہوئے آپ کو نیپال میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا جہاں آپ نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ نیپال سے واپسی پر آپ کو مدبری کا عہدہ تفویض کیا گیااور گرانقدر تنخواہ متعین کی گئی۔ ان تمام سرگرمیوں کے باوجود آپ نے مختلف کتابیں تصنیف کیں جن میں سے تین کا پتہ چلتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں : ٭        تاریخ نیپال:یہ آپ نے نیپال میں قیام کے دوران لکھی تھی۔  ٭        حشمت کشمیر:یہ کشمیر کے تاریخ کے بیان میں ہے۔  ٭        تاریخ جائس:یہ کتاب جائس میں آبادخانوادئہ اشرفیہ کے سجادہ نشینوں کے تذکرہ میں ہے، اور اس میں انہوں نے مبارک شاہ بودلےؒ سے اپنے خاندان کی ارادت کا تذکرہ کیا ہے اور وہ خود بھی خانوادئہ اشرفیہ کے ایک سجادہ نشین جناب غفور اشرف صاحب کے مرید تھے۸۰؎۔ زیر نظر مقالہ کی تیاری میں راقم الحروف نے اس کتاب سے کافی مددلی ہے۔ خاتمہ   شیخ مبارک بودلےؒ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے، آپ کی اشاعتِ اسلام کی کاوشوں کے مختصر جائزے اور آپ کے خلفاوارادتمندگان کے بارے میں پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص آپ کی عظمت وبزرگی کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا، مگر اتنی عظیم ہستی کا اب تک پردۂ خفا میں رہنا انتہائی تعجب کی بات ہے، اور مسلم تذکرہ وسیرت نگاروں اور خود آپ کے خانوادے کے علما کی بے اعتنائی اور بے توجہی پر دلالت کرتا ہے۔ اپنی تمام کاوشوں کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں محسوس ہوتا کہ یہ مختصر کتابچہ  ا ٓپ کے کارناموں کو اجاگر کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ آپ کی زندگی پر مزید تحقیق کرنے اورآپ کے دعوتی کارناموں پر مزید روشنی ڈالنے کی ہنوز ضرورت ہے۔ حوالہ جات ۷۱؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص37 ۷۲؎          Nevill, H.R., Rai Bareli: A Gazetteer, Vol XXXIX of District Gazetteers of the United Provinces of Agra and Oudh, F. Luker, Supdt.Govt. Press, Allahabad,(1905), Page No.97 ۷۳؎   Macandrew, Major J. F., Report of the Settlement Operations of the Rai Bareli District, Oudh Government Press Lucknow,(1872), (Index K) Page No.6 ۷۴؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص39-42 ۷۵؎   Benett, W.C., A Report on the Family History of the Chief Clans of the Roy Bareilly District, the Oudh Government Press, Lucknow,(1870), Page No.29  ، ۷۶؎  ایضاً، ص ۳۹ ۷۷؎  ایضاً، ص۴۹ ۷۸؎  عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص42-44 ۷۹؎   ایضا، ص42 ۸۰؎   رضوی، زینت زہراء، جائس کے علمی وادبی خدمات، مقالہ برائے پی ایچ ڈی، شعبۂ اردو، الہ آباد یونیورسٹی، الہ آباد، 1995ء؁، ص76-84 

مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=32081

No comments:

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...