Thursday, July 20, 2023

حاصل مطالعہ: میری کہانی از جواہر لال نہرو



 حاصل مطالعہ

میری کہانی از جواہر لال نہرو


"میری کہانی" پنڈت جواہر لال نہرو کی اصل انگریزی کتاب "مائی سٹوری" کا ہندی ترجمہ اور تلخیص ہے- اور اسے پچھلی بار لکھنؤ سے دہلی واپس آتے وقت چارباغ کے ایک بک اسٹور سے خریدا تھا- اس بک اسٹور کی اپنی الگ تاریخ اور کہانی ہے اور اس کے مالک بڑے دلچسپ آدمی ہیں مگر اس پر پھر کبھی لکھونگا-

بپن چندرا کی "ہسٹری آف ماڈرن انڈیا" پڑھنے کے بعد ہندوستان  کی آزادی کی جدوجہد کو گہرائی اور مختلف زاویہ ہاۓ نگاہ سے سمجھنے کی بڑی شدید خواھش پیدا ہوئی کیونکہ اس میں جو کچھ بتایا گیا تھا اس سے میری تشنگی پوری نہ ہو سکی- اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ کیوں نہ اس جد و جہد کو براہ راست ان لوگوں کی زبانی جاننے کی کوشش کی جائے جو کہ اس میں نہ صرف شریک تھے بلکہ نمایاں کردار ادا کیا تھا- اس سلسلے میں میری نظر انتخاب سب سے پہلے مولانا ابو الکلام آزاد کی املائی خود نوشت سوانح حیات "انڈیا ونس فریڈم" پر پڑی. میں نے اس کا بنظر غائر مطالعہ کیا جس سے انکی زدگی کی کہانی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی آزادی کی خاطر کی جانے والی انکی گراں قدر کوششوں کو بہتر طور پر سمجھ سکا- اس سلسلے میں اگلی کتاب جو میری نظر میں تھی وہ پنڈت جواہرلال نہرو کی مائی "اسٹوری" تھی اور میں یہ اس لیے بھی پڑھنا چاہتا تھا کہ ہندوستان کی موجودہ فسطائی حکومت انھیں ہر پرابلم کے لئے مورد الزام ٹھہراتی رہی ہے- اور الحمد لللہ آج اس کا مطالعہ پائے تکمیل کو پہنچا اور میں نیچے اس کا حاصل مطالعہ آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں-


"میری کہانی" پنڈت نہرو نے جیل میں شروع کی اور جیل میں ہی ختم کی، یہ اصلا انہوں خود اپنے لیے جیل کی کال کوٹھری میں لکھا تھا تاکہ جیل کے اندر پہاڑ سے دن گزارنے کا کوئی بہانہ میسّر ہو اور ساتھ ہی پیچھے گزرے ہوئے ہندوستان کے ان واقعات کے بارے میں غورو فکر کر سکیں اور انکا تحلیل وتجزیہ کر سکیں جو ان سے تعلّق رکھتے تھے-

اس میں سب سے پہلے آپ نے اپنے خاندان کے پس منظر کا مختصراً تذکرہ کیا ہے- انکے جد اعلی راج  کول کو جو کہ فارسی اور سنسکرت کے بڑے عالم تھے مغل بادشاہ فرخ سیار ١٧٠٧ میں اپنے ساتھ کشمیر سے دہلی لیکر آے تھے- دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ راج کول کو جو جاگیر دی گی تھی وہ نہر کے کنارے تھی اس لئے انکا نام دھیرے دھیرے نہرو پڑ گیا اور کول کہیں غائب ہو گیا- جواہر لال نہرو کے پردادا لکشمی نارائن بادشاہ دہلی کے دربار میں کمپنی بہادر کے پہلے وکیل ہوئے- ١٨٥٧ کے غدر میں انکا پریوار لٹ گیا اور جاگیر تباہ ہو گئی جس کے بعد انکا پریوار آگرہ شفٹ ہو گیا اور پھر ان کے چچا نے وکالت کا پیشہ اختیار کر لئے- اور جب ہائی کورٹ آگرہ سے الہ آباد منتقل ہو گیا تو وہ بھی پنڈت نہرو کے والد کو لیکر الہ بعد شفٹ ہو گئے-


پنڈت نہرو نے اس میں اپنے بچپن کے دن، پھر برطانیہ میں ہیری اسکول اور کیمبرج یونیورسٹی میں اپنی تعلیم اور اس کے بعد ہندوستان واپس آکر وکالت کا پیشہ اختیار کرنے اور پھر کانگریس سے جڑنے کے بارے میں قدر تفصیل سے لکھا ہے- انہون نے پولیس کی لاٹھیاں کھانے، بار بار جیل جانے، کسانوں کے ساتھ دیہاتوں میں وقت بتانے، زلزلے سے متاثر علاقوں کا دورہ کرنے، اپنے والد، اپنی بہنوں اور اپنی بیوی کے آزادی کی جنگ میں شریک ہونے کے بارے میں اور ان کے جیل جانے کے بارے میں بھی لکھا ہے- اپنے والد موتی لال نہرو اور گاندھی جی سے مختلف موقعوں پر اپنے موقف کے الگ ہونے کے بارے میں بھی بات کی ہے-


جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے فطرت کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا، خاص طور سے جب وہ دہرادون کی جیل میں قید تھے اور اہونے نے اپنے ان مشاہدات کو تفصیل سے لکھا ہے پھر چاہے وہ پہاڑوں کے مناظر سے متعلق ہو، یا جیل میں ان کے ساتھ بسنے والے کیڑے مکوڑے اور چرند پرند ہوں- انہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنے تعلق خاطر اور ان سے اپنے مزاج کی شروعاتی غیر ہم آہنگی،  اپنے خانگی جھگڑوں کا بھی تذکرہ بڑی دیانت داری سے کیا ہے- انہوں نے گاندھی جی کے ساتھ اپنے تعلق خاطر اور اس وقت کے ہندوستانی سماج میں ان کے مقام وہ مرتبہ کی بنلدی کے بارے میں بھی  بات کی ہے-

یہ خود نوشت صرف ان کی زندگی کے واقعات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ انکے افکار کی بھی عکاسی کرتا ہے، انہوں نے اردو اور ہندی کے رسم الخط کے تعلّق سے، ایک زبان کے دوسری زبان سے اخذ وعطا کے بارے میں، مشرقی اور مغربی تہذیب کے فرق کے بارے میں، سیاست کے تعلق سے اپنے نظریات کے بارے میں بھی الگ الگ جگہوں پر لکھا ہے- کتاب کا مطالعہ کرتے وقت ان کے بار بار جیل جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ  قید خانے کی ایک مخلوق ہو کے رہ گئے ہوں اور آج جو لوگ اپنی ناکامیوں کے لئے ان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اگر انکی طرح ایک دن بھی جیل میں بتانا پڑے تو اپنے موقف سے توبہ کر لیں مگر وہ اپنے موقف سے کبھی نہ ہٹے حتی کہ اس وقت بھی جب انکی ماں اور پھر اہلیہ بستر مرض پر تھیں اور زندگی سے آخری لڑائی لڑ رہی تھیں- انکے پورے گھرانے نے نسل در نسل جس طرح ہندوستان کی آزادی اور پھر ہندوستان کی تعمیر کے لئے  اپنی قربانیاں دی ہیں اسکی بنیاد پر انکے خلاف بولنے والے نہ صرف تاریخ سے اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ہیں بلکہ ملک سے غدّاری کے مرتکب ہوتے ہیں-


اپنی اس کتاب میں خاص طور سے جن مسلم قائدین کا انہونے نے الگ الگ موقعوں سے تذکرہ کیا ہے ان میں محمد 

 علی جناح، علی برادران، اودھ آگرہ متحدہ صوبہ کے کانگریس کے صدر شیروانی، مولانا آزاد، اپنے والد صاحب کے دوست ڈاکٹر انصاری اور سید محمود، خان عبد الغفار خان، خاص طور سے قابل ذکر ہیں- شیروانی صاحب کے تعلّق سے انہونے نے ایک لطیفہ ذکر کیا ہے جو یوں ہے: "الہ آباد میں اپنی نظربندی کے زمانے میں دونوں نے طے کیا کہ ممبئی جاکر گاندھی جی سے ملاقات کریں، اور ٹرین میں سوار ہو گئے، مگر انھیں اگلے اسٹیشن پر پولیس نے اتار لیا اور ان دونوں کے اوپر حکم عدولی کا مقدّمہ چلایا گیا، اس مقدّمہ میں نہرو جی کو تو دو سال کی سزا سنائی گئی مگر شیروانی صاحب کو صرف چھے مہینے کی جبکہ الزام دونوں پر ایک ہی تھا- جب جج صاحب سزا سنا چکے تو شیروانی صاحب نے پوچھا، جج صاحب کہیں مجھے مسلمان سمجھ کر تو کم سزا نہیں دے رہے ہیں؟ انکی اس بات پر جج صاحب بڑے جز بز ہوئے اور ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا-"


یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز ہونے کے باوجود کسی معروف ناول کی طرح دلچسپ ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب انکی زندگی کے صرف پینتالیس سال کا احاطہ کرتی ہے، یعنی صرف ١٩٣٥ تک ہی انکی زندگی کے بارے میں ہمیں بتاتی ہے، شاید الموڑا ضلع کے قید خانے سے رہا ہونے کے بعد پھر انھیں موقع ہی نہ ملا کہ دوبارہ وہ اپنے بارے میں کچھ لکھ سکیں- کیونکہ آزادی کی لڑائی اور بھی شدّت اختیار کر گئی تھی اور فرصت کے لمحات میسّر نہ تھے-




No comments:

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...