Thursday, July 20, 2023

حاصل مطالعہ: داستان اندلس مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل



حاصل مطالعہ

داستان اندلس: مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل
مصنف: ڈاکٹر محمد احسن

ناشر: اریب پبلیکیشنز، نئی دہلی
جب اس کتاب پر پہلی بار میری نظر پڑی تو مجھے اس کے عنوان سے سمجھ نہیں ایا کہ یہ سفرنامہ ہے یا عہد اسلامی کے اندلس کی تاریخ، لیکن مکتبِہ میں ہی اس کو جستہ جستہ دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ در اصل صاحب کتاب کا اسپین کا سفرنامہ ہے جس میں اندلس کے متعلق اپنی تاریخی معلومات کو اُنھوں نے سمو دیا ہے۔ Iسپین میں مسلمانوں کے آثارِ قدیمہ کی موجودہ صورت حال سے واقف ہونے کی میری بڑی خواہش تھی اس لیے میں نے اس کتاب کو سر دست حاصل کر لیا۔

صاحب کتاب جناب ڈاکٹر محمد احسن صاحب پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں اور یہ سفر اُنھوں نے اپنے دو عیسائی ساتھیوں کے ساتھ کیا تھا۔ اس کتاب میں کبھی وہ حال میں آثار قدیمہ کا سفر کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی تاریخ کے صفحات میں گم نظر اتے ہیں۔ اپنے اس سفرنامے کے بارے میں وہ اس کتاب کے حرف اول یعنی مقدمے میں خود لکھتے ہیں "اسے تحریر کرتے وقت میں نے یہ مناسب سمجھا کہ اسے کوئی علمی و ادبی یا تاریخی دستاویز کا روپ نہ دیا جائے بلکہ اس کے برعکس قارئین کے دلچسپی کے پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے دوران سفر اپنے مشاہدات، احساسات، اور ان سے متعلقہ تاریخی پس منظر کا مجموعہ بنا کر پیش کیا جائے"۔

اس سفرنامے میں اُنھوں نے ملاغہ، جبل الطارق، اشبیلیہ، قرطبہ، جیسے تاریخی شہروں کا سفر کیا ہے اور يوسف اول کا بنایا ہوا ملاغہ کا قلعہ، ملاغہ کی جامع مسجد، اشبیلیہ کا القصر، جامع مسجد قرطبہ، الحمراء کے محلات، مدینہ الزہراء، وغیرہ کا خاص طور سے اور قدر تفصیل سے تذکرہ کیا ہے اور اُنکی موجودہ حالت کے ساتھ ساتھ اُن کے ماضی کے پس منظر پر بھی مختصرا روشنی ڈالی ہے۔
اس سفرنامے میں بار بار اُنکے ذہن کا تاریخ کے صفحات میں گم ہونا کبھی کبھی اُکتاہٹ کا باعث بن جاتا ہے، اور اندلس کو لیکر اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ اُنکی گفتگو کئ جگہ بری بچکانہ سے لگتی ہی۔ اس کے علاوہ اُنکا اندلس کے آخری بادشاہ ابو عبداللہ کا بہادر شاہ ظفر کے ساتھ موازنہ بالکل بھی دانشمندانہ نہیں ہے اور دونوں کے حالات میں بڑا فرق ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ دونوں کا زوال ان ملکوں میں ایک خاندان کا زوال نہیں بلکہ ایک پوری قوم کا زوال تھا۔
ایک اور چیز جو اس کتاب کے تعلق سے قابل ذکر ہے وہ صاحب کتاب کا اندلس کو لیکر تقلیدی گریہ و زاری، جو ہے سود ہے حالانکہ اگر وہ خود اپنے آبائی وطن کی تعلق سے آبدیدہ ہوتے تو اُن کے آنسو شاید کچھ کام کر جاتے اور وہاں کی حالت زار میں شاید کُچھ سدھار ممکن ہوتا۔

No comments:

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...