Thursday, October 19, 2017

کاش انہیں سمجھ آجاے!

خانئہ کعبہ اور مسجد نبوی کی خدمت ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے سعودی حکومت کا قددیگر مسلم ممالک سے بلند سمجھا جاتا ہے اور اس سے نہ صرف دین کے تعلق سے بلکہ سیاست میدان میں بھی قیاد ت کی امید کی جاتی ہے، ایسی قیادت جو علاقائی رسہ کشی سے بہت اوپر ہو، اور جس میں دوسرے ممالک کے لئے بھائی چارگی کا جذبہ شامل ہو، اور جو کسی بھی ملک کے داخلی معاملات اور خارجہ پالیسیوں سے بہت اوپر ہو۔ مگر افسوس، کہ سیاست کے میدان میں سعودی حکام کی نا عاقبت انددیشانہ وبچکانہ حرکتوں نے عام مسلمانوں کو ان سے بیزار کر دیا ہے۔ وہ عالمی سیاست میں ایک قائدانہ کردار ادا کرنے کے بجائے حقیر علاقائی رہبری کے لئے کوشاں ہیں ۔اسلام اور مسلمانوں کے اصل دشمن اسرائیل سے نبرد آزما ہونے کے بجائے اپنے پڑوسیوں سے دست و گریباں ہیں۔ حق تو یہ تھا کہ مصر میں عوام الناس کی طرفداری کی جاتی اور سینکڑوں جانوں کی قربانیوں کے بعدجمہوری حکومت کے قیام کا جو خواب شرمندئہ تعبیر ہوا تھا اسکی پاسبانی کی کوشش کی جاتی، مگر اسکے برعکس عوام الناس کی منتخب کی ہوئی حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا اور اور تخت و سلطنت کے حصول میں ایک ایسے شخص کی مدد کی گئی جس نے لوگوں سے ان کے بنیادی حقوق چھین لئے۔ فرض تو یہ بنتا تھا کہ اگر پڑوس میں کوئی ننگا بھوکا ہو تو اسکے کھانے پہننے کا انتظام کیا جائے مگر اس کے بر عکس اپنے برادرزادوں کے گرد زبردستی ایک ایسا حصار کھینچ دیا گیا کہ انہیں دوسروں کا دست نگر بننا پڑے، اور وہ بھی صرف اس لئے کہ اپنی چند بے جا اور بچکانہ مانگوں کو منوایا جا سکے، یقینا یہ نا صرف ایک غیر اخلاقی بلکہ غیر انسانی حرکت ہے اور خانئہ کعبہ کے خدمتگاروں سے تو اسکی قطعی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ خانہ جنگی میں مبتلا ایک پڑوسی ملک کو اشیاء خوردونوش کی ضرورت تھی نہ کہ بموں اور ٹینکوں کہ۔ لوگ بھکمری کا شکار ہو رہے ہیں اور عالمی تنظیمیں اسے ایک بڑا نسانی المیہ قرار دے چکی ہیں مگر کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور بم برسانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ وقفہ وقفہ سے آج بھی بدستورجاری ہے، گویا نہ تو اخوت کا کوئی پاس ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کا کوئی لحاظ۔ نہ شام کے المیہ سے آنکھ کھلی ہے نہ صومالیہ کی بربادی سے، نہ افغانستان کے بحران سے کچھ سمجھ آیا ہے نہ ہی لیبیا کی تباہی سے، بلکہ قطر کے خلاف ایک نیا محاذ کھول کر ایک اور المیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی جو نہ صرف اس خاص علاقے کے امن وسکون کے لئے خطرناک ہے بلکہ خود سعود ی حکومت کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ امت مسلمہ پھر بھی پر امید ہے کہ شاید یہ تاریک دور گذر جائے اور خانئہ کعبہ کے خدمتگاروں کے اندر شعور پیدا ہو جائے، شاید صواب رائے کی کچھ صورت نظر آئے اور تنگ نظری کی جگہ ان کے اندر آفاقیت پیدا ہو جائے۔شاید انہیں سمجھ آجائے کہ انہیں علاقائی سیادت کے بجائے عالمی قیادت کے لئے تگ ودو کرنے کی ضرورت ہے، انہیں قطع رحمی نہیں بلکہ صلہ رحمی کا سبق دیناچاہئے، انہیں اپنی حکومت کے بھکت نہیں بلکہ اسلام کے پیروکاروں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرنا چاہئے، خود اپنے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کے بجائے دیگر مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی پاسبانی کے لئے کوشاں ہونا چاہئے، ایک نیا بحران کھڑا کرنے کے بجائے المیہ زدہ مسلم ممالک کو المیہ سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔امت مسلمہ آج بھی پر امید نظروں سے انکی طرف دیکھ رہی ہے کہ شاید انہیں سمجھ آجائے کہ انہیں غیروں کا پٹھو بننے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے،بوسیدہ اسلحے خریدنے کے بجائے خود ساخت کرنے کے ضرورت ہے،امت کے لئے نئے المیے کھڑے کرنے کے بجائے اسے درپیش المیوں سے نکالنے کی ضرورت ہے، کاش انہیں سمجھ آ جائے۔ http://mazameen.com/muslim-world/%DA%A9%D8%A7%D8%B4-%D8%A7%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D9%85%D8%AC%DA%BE-%D8%A7%D9%93%D8%AC%D8%A7%DB%92.html">

No comments:

مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں

  مولانا مقبول احمد سالک صاحب سے چند ملاقاتیں اور باتیں تقریباً دو ہفتے قبل 12 ستمبر کو مولانا کی علالت کی خبر شوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوئ...